Inquilab Logo Happiest Places to Work

شریعت محض قانونی احکام نہیں

Updated: May 30, 2025, 3:27 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

یہ اخلاقی و روحانی بصیرت کے حامل ضابطے ہیں جو انسان کو فطرت کے قریب رکھتے ہوئے ایک منظم، پرامن اور بامقصد زندگی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔

The criterion for adhering to principles should not be personal convenience, but collective well-being, discipline, and justice. Photo: INN
اصولوں کو ماننے کا معیار ذاتی سہولت نہیں، بلکہ اجتماعی فلاح، نظم و ضبط اور انصاف ہونا چاہئے؛ کیونکہ اصول وہ ستون ہیں جن پر نظام کی پائیداری قائم ہوتی ہے، نہ کہ ذاتی خواہشات کی بنیاد پر ڈھیلے رویہ سے۔ تصویر: آئی این این

کسی بھی نظام کی کامیابی اور پائیداری کے لئے اصول و ضوابط کی اہمیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ اصول و ضوابط اس نظام کو ایک منظم، مربوط اور متوازن شکل دیتے ہیں، جن کی بدولت افراد کی ذمہ داریاں متعین ہوتی ہیں اور ہر عمل ایک طے شدہ دائرے میں انجام پاتا ہے۔ اگر کسی نظام میں اصولوں کی کمی ہو یا ان پر عمل نہ کیا جائے تو بے ترتیبی، بد نظمی اور انتشار جنم لیتے ہیں، جس سے وہ نظام ناکامی کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ منطقی طور پر دیکھا جائے تو جس طرح ایک مشین کے درست کام کرنے کے لئے اس کے تمام پرزوں کا نظم و ضبط میں رہنا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح کسی بھی معاشرتی، تعلیمی، انتظامی یا سیاسی نظام کو مؤثر اور کامیاب بنانے کے لئے واضح اور قابلِ عمل اصول و ضوابط کا ہونا ناگزیر ہوتا ہے۔ اسی بنیادی تصور کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے نہ صرف انفرادی زندگی بلکہ اجتماعی اور عالمی نظام کے ہر پہلو کے لئے متوازن اصول وضع کئے ہیں تاکہ انسانی فطرت، عقل اور جذبات کے درمیان ہم آہنگی قائم رہے۔ اسلامی اصول محض قانونی احکامات نہیں بلکہ وہ اخلاقی و روحانی بصیرت کے حامل ضابطے ہیں جو انسان کو فطرت کے قریب رکھتے ہوئے ایک منظم، پرامن اور بامقصد زندگی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ 
 اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام کسی وقتی یا جغرافیائی تقاضے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک ہمہ گیر اور فطری نظامِ حیات ہے جو ہر زمانے کے انسانی مسائل کا متوازن حل پیش کرتا ہے۔ 
 چونکہ اسلامی اصول و ضوابط براہِ راست قرآن و حدیث سے مستنبط ہیں، اسلئے ان کی بنیاد الٰہی حکمت اور نبوی بصیرت پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معلمِ انسانیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی ہدایت و رہنمائی کے لئے ضوابط کو ماننے کے تعلق سےایک جامع اصول بیان فرمایا: ’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک تم ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے، ہرگز گمراہ نہ ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری سنت۔ ‘‘ (موطا امام مالک) اس حدیث ِ مبارکہ میں نبی کریم ﷺ نے واضح کر دیا ہے کہ اصول و ضوابط سے وابستگی انسان کو فکری، اخلاقی اور عملی گمراہی سے محفوظ رکھتی ہے اسلئے یہ دونوں سرچشمے ہر دور کے لئے رشد و ہدایت کی ابدی روشنی ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:عشرۂ ذو الحجہ، عرفہ کا روزہ، تکبیرِ تشریق، حج اور قربانی

اسی اسلامی فلسفے سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ دنیا کا ہر نظام، خواہ وہ تعلیمی ہو، معاشی ہو یا سماجی، اپنے اندر ایک مخصوص ترتیب، نظم اور اصول کا متقاضی ہوتا ہے اور جب انسان شعوری طور پر کسی ادارے یا نظام کا حصہ بنتا ہے تو دراصل وہ ایک باقاعدہ معاہدے میں داخل ہوتا ہے، جس کی بنیاد اطاعت، ذمے داری اور نظم و ضبط پر ہوتی ہے۔ اگر کوئی فرد ان جائز اصول و ضوابط کو تسلیم نہ کرے تو وہ نہ صرف اپنی ذات کو اضطراب اور ناکامی میں مبتلا کرتا ہے بلکہ پورے نظام کی کارکردگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ لہٰذا، عقل و حکمت کا تقاضا ہے کہ انسان جہاں بھی ہو، اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے اصولوں کی پاسداری کرے، کیونکہ کامیابی کا سفر صرف ذاتی سوچ سے نہیں بلکہ اصولوں کی پیروی سے طے ہوتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہمیں فطرت، تاریخ اور دین تینوں کے تجربات سے مل کر معلوم ہوتی ہے۔ 
 زیر بحث موضوع سے متعلق ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ افراد متعلقہ اداروں کے اصول و ضوابط کو اپنی ذاتی سہولت یا مفاد کے تابع سمجھتے ہیں، یعنی جب کوئی اصول ان کے حق میں ہو تو وہ اس پر عمل کرتے ہیں اور جب وہی اصول ان کی خواہش یا مفاد کے خلاف ہو تو اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اصول و ضوابط کی اصل روح یہی ہے کہ وہ شخصی رجحانات یا وقتی سہولتوں سے بالاتر ہو کر ایک منظم نظام کو قائم رکھیں۔ اگر ہر فرد اصولوں کو اپنی پسند و ناپسند سے مشروط کر دے تو پھر کسی بھی ادارے یا نظام میں یکسانیت، انصاف اور شفافیت باقی نہیں رہتی۔ منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اصولوں کو ماننے کا معیار ذاتی سہولت نہیں، بلکہ اجتماعی فلاح، نظم و ضبط اور انصاف ہونا چاہئے؛ کیونکہ اصول وہ ستون ہیں جن پر نظام کی پائیداری قائم ہوتی ہے، نہ کہ ذاتی خواہشات کی بنیاد پر ڈھیلے رویہ سے۔ 
 اصول و ضوابط کو ماننے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلامی تاریخ میں متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت تنبیہ کی گئی یا سزا دی گئی۔ یہ واقعات محض تاریخی ریکارڈ نہیں بلکہ اصولوں کی بالا دستی اور نظام کے تقدس کی عملی مثالیں ہیں۔ مثلاً غزوۂ تبوک کے وقت پیچھے رہ جانے والے چند صحابہؓ کو وقتی طور پر سوشل بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا، حالانکہ وہ ایماندار اور نیک سیرت تھے، لیکن صرف اسلئے کہ انہوں نے اپنی فہم کی بنیاد پرایک مقررہ اجتماعی اصول کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں اصول کسی فرد کی شخصیت یا مقام سے بالاتر ہوتے ہیں، اور ان کی خلاف ورزی پر نرمی نہیں برتی جاتی۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ عدل و نظم کی روح قائم رہے۔ ان واقعات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کسی بھی نظام میں اصولوں کی پابندی صرف اختیاری عمل نہیں، بلکہ ایک اخلاقی، دینی اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔ 
 افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات جب افراد اصول و ضوابط کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو وہ صرف خاموش رویہ اختیار نہیں کرتے، بلکہ مخالفت، ہٹ دھرمی اور انارکی کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل دراصل انا پرستی اور اجتماعی شعور کے انکار کا مظہر ہوتا ہےجو فرد کو خود فریبی کی اندھی گلی میں لے جاتا ہے۔ حالانکہ ایک مہذب معاشرہ اس وقت ہی قائم رہ سکتا ہے جب افراد اپنی خواہشات کو اصولوں کے تابع رکھیں نہ کہ اصولوں کو اپنی خواہشات کے تابع بنانے کی کوشش کریں۔ ایسے رویے نہ صرف عقلاً ناقابلِ قبول ہیں، کیونکہ یہ اجتماعی نظم کو توڑتے ہیں، اور نہ ہی اخلاقاً درست ہیں، کیونکہ یہ خودغرضی اور ضد کو فروغ دیتے ہیں، بلکہ شرعی اعتبار سے بھی مذموم ہیں، کیونکہ شریعت نے نظم ِجماعت، اطاعت ِ حق اور باہمی تعاون کو دین کا حصہ قرار دیا ہے۔ اس لئے اصولوں سے بغاوت محض انفرادی رائے نہیں، بلکہ پورے نظام کے خلاف ایک غیر ذمہ دارانہ اور نقصان دہ بغاوت ہے۔ 
 خلاصہ یہ ہے کہ اصول و ضوابط کسی بھی نظام کی روح ہوتے ہیں، جن کے بغیر کوئی بھی ادارہ، جماعت یا معاشرہ نہ تو اپنی شناخت قائم رکھ سکتا ہے نہ ہی اپنے مقاصد پا سکتا ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ جس ادارہ سے وابستہ ہوں، ذاتی مفاد، سہولت پسندی اور ضد سے بالاتر ہو کر اس کے اصولوں کو تسلیم کریں، یہ راستہ نہ صرف دنیاوی فلاح کا ضامن بلکہ آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK