عازمین، حج کے فوراً بعد مدینہ جائینگے، اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ رسولؐ خدا کو اس شہر سے بہت محبت تھی جس کیلئے آپؐ نے دُعا مانگی کہ اے اللہ مدینہ کو ہمارے دلوں میں مکہ کی طرح محبوب بنادے۔
EPAPER
Updated: May 30, 2025, 3:55 PM IST | Dr. Abdul Rahman bin Abdul Aziz Al-Sudais | Mumbai
عازمین، حج کے فوراً بعد مدینہ جائینگے، اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ رسولؐ خدا کو اس شہر سے بہت محبت تھی جس کیلئے آپؐ نے دُعا مانگی کہ اے اللہ مدینہ کو ہمارے دلوں میں مکہ کی طرح محبوب بنادے۔
خیر الخلقؐ کے منبر سے میں سب سامعین اور اپنے آپ کو یہ نصیحت کرتا چاہتا ہوں کہ تقوی الٰہی اپناؤ؛ کیونکہ یہ تمام بھلائیوں کا مرکز، برکتوں کا سر چشمہ، مصیبتوں سے امان اور تکلیفوں سے تحفظ کا باعث ہے:’’ اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔ ‘‘ (آل عمران – :۱۰۲)
ہر چیز کا خلاصہ تقویٔ الٰہی ہے؛ اس لئے تقویٰ کو ہی اپنے معاملات سنوارنے کیلئے ہتھیار بناؤ۔
اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ چیزوں میں طیبۃ الطیبہ یعنی مدینہ نبویہ ہے، اللہ تعالی نے اسے اپنا چنیدہ بنایا؛ کیونکہ اس شہر کو رسول اللہ ﷺ کی جائے ہجرت بننا تھا، یہ مکہ کے بعد بہترین، اعلی اور افضل مقام ہے، حرمت، مقام، عظمت اور احترام میں مکہ کے بعد ہے، یہ شہروں میں انمول موتی، آنکھوں کیلئے ٹھنڈک، علاقوں کیلئے زینت اور تر و تازگی کا باعث ہے، یہی رسول اللہ ﷺ کا شہر ہے، سرسبز و شادابی کا ماخذ ہے، یہی پہلی اسلامی سلطنت ہے، یہیں پر دینی اصول و ضوابط مکمل ہوئے، اسی کی پاک سرزمین پر اسلام کے احکامات نافذ کئے گئے، اس اسلامی سلطنت کی تاریخ پڑھتے ہوئے پوری امت کی تاریخ سامنے آ جاتی ہے، اور امت کی تاریخ اسی دن سے شروع ہوتی ہے جب اس اسلامی سلطنت میں فجر کی پو پھوٹی تھی، اس سلطنت کی تاریخ تمام اعلی اخلاقیات اور اقدار سے بھر پور ہے، چاہے ان کا تعلق ایمانیات، عقائد، عمرانیات، علم اور تہذیب کسی بھی چیز سے ہو۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:’’لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا، تمہیں قبائل اور خاندانوں میں ایک دوسرے کے تعارف کیلئے تقسیم کیا؛ بیشک اللہ تعالیٰ کے ہاں تم سے معزز ترین وہی ہے جو زیادہ متقی ہے، بیشک اللہ تعالی جاننے اور خبر رکھنے والا ہے۔ ‘‘ (الحجرات –:۱۳)
مدینہ منورہ خیر و برکت سے معمور پاکیزہ اور پیارا شہر ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام کا آفاقی پیغام پھیلنے کا مرکز بنایا، یہاں پر اپنی وحی نازل فرمائی، اپنے مجتبیٰ اور مصطفیٰ نبی ﷺ کی دعوت یہیں سے پھیلائی۔ آپؐ پر روزِ قیامت تک ڈھیروں دورد و سلام، یہ شہر قلعۂ ہدایت ہے، یہ جارحیت کے سامنے ٹھوس چٹان ہے، یہ شہر منارۂ اسلام، ایمان کیلئے جائے پناہ، عقیدے کا نشیمن، مرکز تہذیب اور عالم اسلامی کے لئے سربراہی، سروری اور رہبری کا ماخذ ہے۔ اس اسلامی سلطنت کا منہج وسطیت اور اعتدال تھا: ’’اسی طرح ہم نے تمہیں ایک معتدل امت بنایا۔ ‘‘ (البقرہ:۱۴۳)
اسی شہر سے اسلامی ثقافت نے پھیل کر چہار سوئے عالم میں خیر، امن، رحمت، عدل، رواداری، اور سلامتی پھیلا دی؛ کیونکہ:’’اور ہم نے آپ کو جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ‘‘ (الانبیاء:۱۰۷)
مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کی قبر ِ اطہر ہے۔ اگرچہ بہت سے آثار منظر سے مٹ چکے ہیں لیکن ایمانی آثار پھر بھی عیاں ہیں۔ حرمت والی جگہ سے نشانیوں کا مٹنا ممکن نہیں، یہاں پر وہ منبر بھی ہے جس پر آپ ﷺ براجمان ہوتے تھے۔ آپؐ کا گھر، نماز کی جگہیں اور مسجد بھی ہے۔ مدینہ میں آپؐ کے حجرے ہیں جہاں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور نازل ہوتا تھا، لوگ اس سے روشنی لیتے اور آگے پھیلاتے تھے۔ یہ شہر مدینہ، طیبۃ الطیبہ، جائے ہجرت اور آشیانۂ سنت ہے، جو شخص بھی اس شہر میں مسجد نبویؐ کی زیارت؛ عبادت اور ثواب کی اُمید سے کرے، ان جگہوں سے محبت کی بنا پر یہاں آئے، تو اللہ تعالیٰ اسے اجر و ثواب سے نوازتا ہے۔
اور کیا یہ ایمان کی جائے پناہ نہیں؟ کیا یہ سید اولادِ عدنان کی جائے ہجرت نہیں؟
یہ تمہارے سامنے مدینہ اور اس کے مکانات ہیں، اس کی ہر چیز میں برکت کی گئی ہے۔ یہی وہ مدینہ ہے جس کے سر پر نورِ ہدایت کا تاج جڑا گیا ہے۔
یہی اس زمانے میں ایمان کیلئے جائے پناہ ہوگا جب اخلاقی قدریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں گی۔
یہ بھی پڑھئے:فتاوے: نصاب اور قربانی، حدود منیٰ اور مزدلفہ اور احرام کی حالت میں خوشبو کا حکم
مدینے کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کا عطف بھی مدینہ پر فرمایا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’جنہوں نے اُن (مہاجرین) سے پہلے ہی شہرِ (مدینہ) اور ایمان کو گھر بنا لیا تھا۔ یہ لوگ اُن سے محبت کرتے ہیں جو اِن کی طرف ہجرت کر کے آئے ہیں۔ ‘‘ (الحشر:۹)۔ مدینہ کی یہ بھی فضیلت ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے اپنےنبیؐ کو اسی کی جانب ہجرت کرنے کا حکم دیا تھا۔ مدینہ کی بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ یہاں مسجد نبوی تعمیر ہوئی جس کی بنیاد خالصتاً تقویٰ پر تھی، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’ یقیناً وہ مسجد، جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی، زیادہ حق رکھتی ہے کہ آپ اس میں قیام کریں۔ اس میں ایسے آدمی ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘(التوبة:۱۰۸)
اس بابرکت مسجد کے مناقب میں یہ بھی شامل ہے کہ: یہ ان تین مساجد (مسجد الحرام، میری یہ مسجد اور مسجد اقصیٰ) میں سے ایک ہے جن کی جانب رخت سفر باندھنا جائز ہے۔ (متفق علیہ)۔ یہ بھی اس کی فضیلت ہے کہ : یہاں علمائے کرام کے صحیح ترین موقف کے مطابق فرض یا نفل کوئی بھی نماز ہو اس کا ثواب زیادہ ہے؛ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میری اس مسجد میں نماز مسجد الحرام کے علاوہ دیگر مساجد کی نمازوں سے ایک ہزار گنا افضل ہے۔ ‘‘ (متفق علیہ)
مسجد نبوی میں ایک جگہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے؛ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے منبر اور گھر کے درمیان کی جگہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔ ‘‘( متفق علیہ)
اللہ تعالیٰ نے مدینہ کو عالیشان بناتے ہوئے حرم پاک کو پُرامن قرار دیا، یہاں کسی کا خون نہیں بہایا جائے گا، اس میں لڑنے کیلئے اسلحہ اٹھانا جائز نہیں؛ چنانچہ صحیح مسلم میں سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاتھ سے مدینہ کی جانب اشارہ فرمایا اور کہا:یہ حرم اور پُرامن ہے۔
جو شخص مدینہ منورہ میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو پناہ دے تو وہ اپنے آپ کو شدید وعید کا حق دار بناتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’عیر سے لے کر ثور پہاڑ تک مدینہ حرم ہے، چنانچہ جو شخص بھی اس میں کوئی بدعت ایجاد کرتا ہے یا کسی بدعتی کو پناہ دیتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی کوئی نفل یا فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔ ( متفق علیہ)۔ مدینہ منورہ کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ: یہ شہر، نبیؐ کا محبوب ترین شہر ہے، میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، آپؐ فرماتے تھے: یا اللہ! مدینہ ہمارے دلوں میں مکہ کی طرح محبوب بنا دے یا اس سے بھی زیادہ۔ ‘‘ ( متفق علیہ) رسولؐ اللہ جس وقت سفر سے آتے اور مدینہ کی دیواریں، درخت اور ٹیلے دیکھتے تو مدینہ کی محبت میں اپنی سواری تیز دوڑاتے، پھر جب بالکل سامنے آ جاتے تو فرماتے: ’’یہ طابہ ہے، اور یہ احد پہاڑ ہے، ہم اس سے محبت کرتے ہیں اور یہ ہم سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘
ایمانی بھائیو! مدینہ کے صاع اور مد میں، یہاں کے پیمانوں میں اور تھوڑی ہوں یا زیادہ سب کھجوروں میں برکت ہے، نبی ﷺ نے ان کیلئے برکت کی دعا فرمائی ہے: ’’یا اللہ! مدینہ میں مکہ کی بہ نسبت دگنی برکت فرما دے، اور دونوں طرح کی برکتیں فرما۔ ‘‘ ( متفق علیہ)
اس کا نام طابہ ہے، اس کا نام طیبہ بھی ہے، یہ سید الابرار ﷺ کا شہر ہے، اس کے فضائل بے شمار ہیں، اس کی برکتیں لا تعداد ہیں، صدیاں گزر جانے کے باوجود یہ شہر ہر دور میں عالی شان رہا، ایمان اور اخوت کیلئے مضبوط قلعہ ثابت ہوا، عقیدہ کا نشیمن اور دعوت کا ماخذ بنا رہا۔
اللہ اکبر! طیبہ شہر میں دائمی یادوں کی مہک ہے، اور یہاں پر شان و شوکت سے لبریز معرکوں کی خوشبو آتی ہے۔
مدینہ شریف کی مکمل دیکھ بھال لازمی امر ہے، اس کی حرمت کا پاس رکھنا ہمہ قسم کی بھلائی کا ضامن ہے، مدینے کی شان و شوکت پھیلانا مفید عمل ہے، اس شہر میں رہنے کے عہد و پیمان پورے کرنا فضیلت کا عمل ہے، یہ ایسی جگہ ہے جہاں پر وحی اور قرآن نازل ہوتا رہا، جہاں جبریل اور میکائیل چلتے پھرتے تھے، جہاں سے ملائکہ اور روح القدس آسمانوں کی طرف جاتے تھے، اس کے آنگن کی عظمت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ فرمایا گیا:
’’اس کے بعد، جو بھی اللہ تعالی کے شعائر کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ کی نشانی ہے۔ ‘‘(الحج:۳۲)
اس کی فضا میں سانس لینے، یہاں قیام کو غنیمت جاننے اور ڈھیروں نیکیاں کمانے کیلئے کوشش کرنی چاہئے۔
مدینہ میں قیام یا مدینے کی زیارت کا ارادہ رکھنے والا شخص نرم خوئی، متواضع اور منکسر المزاج ہونا چاہئے، وہ مدینے کی حرمت کا پاسبان ہو، اس عظیم شہر کے باسیوں کا خیال رکھے، اہل مدینہ کے ساتھ مجالس میں محض کھانے پینے کی طرف دھیان نہ رکھے بلکہ ان سے تربیت حاصل کرے، روزی کمانے میں نہ لگا رہے بلکہ اپنی زندگی کو اچھے کاموں کیلئے غنیمت سمجھے، اہل مدینہ کے کھانے پینے پر نظر نہ رکھے بلکہ ان کا اخلاق سیکھے، ان سے نیکی کے طور طریقے حاصل کرے، مال و دولت پر ٹکٹکی مت باندھے، ان کی مالداری کے بجائے دینداری اور کردار کو اپنائے۔
زائرین کرام!الله کے برگزیدہ نبیؐ، میرے ماں باپ آپؐ پر قربان اور آپؐ پر ڈھیروں درود و سلام، کے شہر کی زیارت کے لئے آتے ہوئے آپؐ کی سنت اپنانے، آپؐ کے نقش قدم پہ چلنے اور آپؐ کی سیرت سے سیراب ہونے کی اہمیت نہ بھولیں، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’آپ فرما دیں کہ اگر تم الله سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو الله خود تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ ‘‘ (آل عمران:۳۱)
آپؐ کی اطاعت و محبت کا یہ تقاضا ہے کہ مسجد نبوی کی زیارت، آپ ﷺ پر سلام پیش کرنے اور مدینہ نبویہ – جو کہ ہمیشہ سے برکتوں سے مالا مال ہے، میں رہنے کے آداب سیکھیں، آپؐ کے اخلاق عالیہ اورصفات فاضلہ کی پیروی کریں، آپؐ سے آگے بڑھنے سے اجتناب کریں، اور آپؐ کے پاس آواز بلند کرنے سے بچیں، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں احساس تک نہ ہو۔ بیشک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ کے پاس پست رکھتے ہیں انہی لوگوں کے دلوں کا اللہ تعالیٰ نے تقوی کے لئے امتحان لیا، ان کیلئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔ ‘‘ (الحجرات:۲۔ ۳)
اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو، رسول اللہ ﷺ کے پیارو! تقویٰ اختیار کرو، سید الابرار کے شہر میں مکمل با ادب رہو اور خیر الخلق ﷺ کی مسجد میں تمام اسلامی آداب اپنانے کا اہتمام کرو، یہ بہت بڑی سعادت ہے۔
(مسجد نبویؐ میں دیئے گئے ایک خطبے سے ماخوذ)