Inquilab Logo Happiest Places to Work

صدیق و صادق بننا چاہتے ہو توصادقین کی ہمراہی اختیار کرو!

Updated: May 23, 2025, 4:02 PM IST | Dr. Umme Kulsoom | Mumbai

خود سچ پر قائم رہنے اور سچ بولنے والوں کا ساتھ دینے کی اہمیت پر ملاحظہ کیجئے یہ مضمون جس میں قرآنی آیات کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔

The companionship of the righteous is mentioned in many places in the Holy Quran, sometimes even described with events. Photo: INN
قرآن مجید میں کئی مقامات پر صادقوں کی معیت کا ذکر کیا گیا ہے، کہیں کہیں واقعات کے ساتھ بھی بیان ہوا ہے۔ تصویر: آئی این این

’’ اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔ ‘‘ (التوبۃ:۱۱۹)
ایمان کیا ہے؟
مان لینا، یقین کرنا اور حقیقت کا ادراک کرلینا، ایمان ہے۔ قرآن ’اہلِ ایمان‘ کن لوگوں کو کہتا ہے؟ ’اہلِ ایمان‘ وہ ہیں جو اللہ کی ذات و صفات کا اس درجہ اِدراک حاصل کرلیں کہ پھر کوئی اور ان کی نظروں میں جچے ہی نہیں، وہ شدت سے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، فرمایا ’’اور ایمان رکھنے والے لوگ تو سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ ‘‘ (البقرہ :۱۶۵) خطاب ان لوگوں سے ہے جن کا محبوب اللہ ہے۔ ’محبوب‘ کا حکم ہے کہ اس سے محبت کرنے والے لوگ، اللہ (محبوب) ہی کا تقویٰ اختیار کریں۔ 
تقویٰ کیا ہے؟
تقویٰ کا مادہ تقٰی یا وِقٰی ہے۔ اس کے معنی ہیں بچنا، خود کو کسی خطرے سے بچانا۔ قرآن متقی اس کو کہتا ہے جو اللہ سے شدید محبت کی وجہ سے خود کو اس کی ناراضی سے بچاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جب ایمان اور عملِ صالح (محبوب کو راضی کرنے والے کام) جمع ہوتے ہیں تو تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والا ہمیشہ محتاط رہتا ہے کہ اس سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہونے پائے جو محبوب کی نظرِ التفا ت سے محرومی کا سبب بن جائے۔ 
’تقویٰ‘ کے اس مقام کی حفاظت کے لئے محبوب کی جانب سے دوسری اہم ہدایت ہے کہ ’’اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔ ‘‘ یہاں امر کا صیغہ ہے۔ َکُوْنُوْا ’’ہوجائو، ہمیشہ رہو‘‘۔ مَعَ ’’ہمراہ، ساتھ، معیت میں ‘‘۔ 
اس ہدایت میں ایک تنبیہ ہے: ’’اکیلے نہ رہنا، اکیلے رہنا خطرے سے خالی نہیں۔ ‘‘ ہرذی روح اسی کی ہمراہی پسند کرتا ہے جو زیادہ سے زیادہ اس سے مماثلت رکھتا ہے، جن کی محبت، نفرت، منزلِ مقصود یکساں ہو۔ لہٰذا تم الصّٰدِقِیْنَ کی ہمراہی اختیار کرنا۔ تمہارا باطن بھی ان کے ہمراہ ہوجائے اور ظاہر بھی ان کی مانند ہو۔ تمہاری نیت، ارادہ، تمہاری شکل و صورت، اعمال و افعال سب صادقین کی طرح ہوں۔ یہاں تاکید کے لئے ’ال‘ لگایا گیا ہے یعنی خاص طور پر، انتہائی، بہت زیادہ صادق۔ 

یہ بھی پڑھئے:حج: حسین ترین عبادت کی تیاری بھی اس کے شایانِ شان ہونی چاہئے

صدق کیا ہے؟
بہت سچا، جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، بلکہ سچ کا اس قدر خُوگر کہ اس سے جھوٹ بن ہی نہ پاتا ہو۔ قول و اعتقاد میں سچا! اپنی سچائی کی تصدیق اپنے عمل سے بھی کردکھائے۔ اس کا ہر کام ظاہر و باطن کے اعتبار سے فضیلت کے ساتھ متصف ہو۔ یہ تمام انبیا علیہم السلام کی صفت ہے۔ حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں فرمایا: اُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ (المائدہ : ۷۵)، یعنی وہ ایک راست باز عورت تھی۔ یہ جنت کی سردار خاتون کی صفت ہے۔ 
صدیقین: فضیلت میں انبیائے علیہم السلام سے کچھ کم درجے کے ہوتے ہیں۔ ان کے جانشین ہیں، ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ غوروفکر کرنے والے، سنجیدہ اور سلیم الفطرت لوگ ہیں۔ شہید: فعال، بھاگ دوڑ کرنے والے، خوش گفتار، عملی جدوجہد میں پیش پیش، بے خطر معرکوں میں کود جانے والے۔ یہ دونوں قسم کی صفات توازن کے ساتھ صرف انبیائے علیہم السلام میں جمع ہوتی ہیں۔ ہمارے سامنے کامل مثال ایک ہی ہے اور وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ نیتوں کا اخلاص اور عمل کی پاکیزگی، صدیق اور شہید دونوں کو ’مقربین‘ میں شامل کروا لیتے ہیں۔ 
صدیقین کے ایمان کی کیفیت
صدیقین انبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعوت کو قبول کرتے ہیں، والہانہ پیش قدمی کرتے ہیں، ذرا بھی توقف نہیں کرتے۔ انہیں اس بارے میں ذرا شک و شبہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ کوئی اعتراض کرتے ہیں ، نہ جرح۔ دعوتِ حق کو قبول کرنے میں کسی تذبذب، تامّل یا تردّد میں مبتلا نہیں ہوتے۔ حق کی دعوت انہیں اپنی فطرت کی پکار معلوم ہوتی ہے۔ ان کے ایمان میں ایک والہانہ پن ہوتا ہے۔ فلسفۂ دین اور حکمت ِ قرآن کے لحاظ سے یہ ایک اہم بات ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’میں نے جس کے سامنے بھی دعوت پیش کی، اس نے تھوڑی دیر کے لئے کچھ نہ کچھ توقف ضرور کیا سوائے ابوبکرؓ کے، انہوں نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر میری تصدیق کردی۔ ‘‘
ایمان کا ایسا ہی مظاہرہ واقعۂ معراج کے بعد ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ نے واقعۂ معراج سنتے ہی تصدیق کی جس پر بارگاہِ رسالتؐ سے انہیں ’صدیق‘ کا خطاب ملا۔ پوری اُمت کا اجماع ہے کہ وہ صدیقِ اکبر ہیں۔ یہ جذبۂ صدق و وفا اس درجے کا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی ایسی بات کا ذکر فرماتے جس پر لوگ تعجب کا اظہار کرتے تو حضرت ابوبکرؓ فرماتے:
 ’’(تم تعجب کرتے ہو تو کرو) مَیں اس پر ایمان لایا۔ اور عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہما) بھی ایمان لائے۔ ‘‘ (بخاری)
زندگی کے ہرلمحے میں صدیق کی فطرتِ صالحہ کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ وہ اپنے جان و مال سے حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ہرمشکل اور کٹھن مرحلہ ان کے ایمان و عمل کو فزوں تر کرتا ہے۔ وہ تسلیم و رضا کے پیکر ہوتے ہیں۔ اپنے رب کے ہرفیصلے پر راضی، حتیٰ کہ ان کا رب ان کے بارے میں گواہی دیتا ہے:
’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ ‘‘ (الاحزاب :۲۳ )
صدیقین کے برعکس رویہ منافقین کا ہے۔ منافقین کم ہمت، بزدل اور مفاد پرست ہوتے ہیں، خودغرض اور خواہشات کے اسیر۔ ہرمعاملے کو خواہش اور مفاد پر تولتے ہیں، جہاں سے مفاد حاصل ہوتا نظر آئے، اس کے ہمراہ چل پڑتے ہیں، ورنہ ٹھٹھک کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ 
بخاری میں سورئہ توبہ کی آیت ۱۱۹؍ کی تشریح میں، حضرت عبداللہؓ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صدق (سچائی) آدمی کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی بہشت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور آدمی سچ بولتا ہے، حتیٰ کہ صدیق کا مرتبہ حاصل کرلیتا ہے۔ اور کذب (جھوٹ) فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور (نافرمانی) آگ کی طرف۔ اور آدمی جھوٹ بولتا چلاجاتا ہے، حتیٰ کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ ‘‘(بخاری)
صدیق کی زندگی کا سفر
صدیق کی زندگی میں، حرا سے بدر تک کے مراحل ہیں۔ اس میں ہجرت ہے، اُحد اور خندق کے معرکے ہیں، جان ومال کی قربانی ہے۔ قدم قدم پر قیامت ہے اور پھر فتح و کامرانی ہے۔ زندگی کا یہ سفر اکیلے طے کرنا بڑا مشکل ہے۔ کٹھن کام، ہم مزاج ساتھیوں کے ہمراہ آسان اور خوش گوار ہوجاتے ہیں۔ اس لئے حکم دیا جا رہا ہے کہ: صدیق و صادق بننا چاہتے ہو تو پھر صادقین کی ہمراہی اختیار کرو۔ سورئہ کہف میں اس امر کی یاددہانی ان الفاظ میں کروائی گئی:
’’اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو، جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر، صبح و شام اسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ ‘‘ (الکہف :۲۸) 
انبیائے علیہم السلام کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ اہلِ ایمان (اللہ سے شدید محبت کرنے والے لوگوں ) کے ہمراہ رہیں۔ انبیائے علیہم السلام کو کہا گیا کہ وہ اعلان کردیں :
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں۔ ‘‘ (یونس :۱۰۴) اور یہ کہ
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بن کر رہوں۔ ‘‘ (النمل :۹۱)
حضرت یوسف علیہ السلام حکومت میں ایک مؤثر اور اعلیٰ مقام ملنے کے بعد بھی، ایک ہی دعا مانگتے ہیں : ’’میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔ ‘‘ (یوسف :۱۰۱) حضرت سلیمان علیہ السلام تمام تر شاہانہ عظمت و جبروت کے باوجود اپنے رب کی نعمتوں پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے دعاگو ہیں : ’’اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔ ‘‘(النمل : ۱۹) حضرت ابراہیم علیہ السلام فلاح و کامیابی کی خوش خبری کے باوجود ملتجی ہیں : ’’اے میرے رب! مجھے حکم عطا کر اور مجھے صالحوں کے ساتھ ملا۔ ‘‘ (الشعراء :۸۳) 
دانش مندی یہ ہے کہ سچے اور صالح افراد کی ہمراہی نصیب ہوجائے۔ نجات اسی کے لئے ہے جواہلِ حق کے ساتھ رہا: ’’آخرکار ہم نے اپنی مہربانی سے اسے (ہود ؑ) اور اس کے ساتھیوں کو نجات (عذاب سے) دے دی۔ ‘‘ (الاعراف : ۷۲) یہی معاملہ اس سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ہوا: ’’پس ہم نے اسے اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچا لیا اور انہی کو زمین میں جانشین بنایا۔ ‘‘(یونس :۷۳) حق اور اہلِ حق کا ساتھ نہ دینے والا غرق ہوکر رہتا ہے، اگرچہ وہ اہلِ حق کے سرکردہ افراد میں سے کسی کا قریب ترین عزیز ہی ہو۔ فرمایا: ’’آخرکار ہم نے اسے (لوطؑ) اور ان کے ساتھیوں کو بچالیا سواے اس کی بیوی کے، وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔ ‘‘ (الاعراف ۷:۸۳) 
معاشرے کے کمزور اور کم حیثیت افراد بھی حق کا ساتھ دینے کے سبب معزز ہوجاتے ہیں۔ قوم کے اکابرین انہیں اراذل خیال کرتے ہیں۔ لیکن اکابرین کی حمایت حاصل ہونے کی اُمید پر بھی انبیائے علیہم السلام حق کا ساتھ دینے والے کمزور افراد کو خود سے دُور نہیں کرتے اور صاف صاف کہتے ہیں : ’’اور میں ان لوگوں کو دھتکارنے والا نہیں جو ایمان لے آئے‘‘ (ھود:۲۹)، بلکہ وہ اپنے اللہ کے خوف سے لرزتے ہوئے کہتے ہیں : ’’اور اے قوم! اگر میں دھتکار دوں تو مجھے اللہ (کے عذاب) سے کون بچائے گا۔ ‘‘(ھود :۳۰) ’’اور یہ بھی مَیں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر مَیں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا۔ ‘‘ (ھود :۳۱) (باقی آئندہ ہفتے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK