نبی کریمؐ نے دعا فرمائی:’’اے اللہ! ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہو، اُس کے ذریعے اسلام کو قوت عطا فرما؛ ابوجہل یا عمر بن خطاب!‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کا انتخاب فرمایا۔ اللہ کا انتخاب ظاہری وجاہت یا نسبی رتبہ پر نہیں ہوتا — بلکہ باطن کی شفافیت، حق کی طلب اور عمل کی قابلیت ہی اصل معیار ہے۔
تاریخ ِنبوت کے اوراق میں کچھ واقعات ایسے رقم ہیں جنہیں محض روایت کی سطح پر پڑھ لینا دراصل ان کی معنوی وسعتوں کے ساتھ بے انصافی ہے۔ یہ واقعات اپنی ذات میں ایک جہانِ معانی رکھتے ہیں، جن میں آسمانی تدبیر کی وہ باریکیاں مضمر ہوتی ہیں، جو فکر و فہم کی بالادست پرواز کے بغیر ہاتھ نہیں آتیں۔
اسلام کی ابتدائی جدوجہد کے افق پر دو چہرے ایسے ابھرے جو بظاہر ایک جیسے دکھائی دیتے تھے: دونوں قریش کے ممتاز افراد، سیاست و معاشرت کے ستون، فکری بصیرت اور لسانی شوکت کے نمائندے۔ ایک کا نام عمر بن خطاب، دوسرا ابوجہل۔ دونوں اسلام کے راستے میں سدِ راہ بنے رہے، دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو کچلنے کی بھرپور کوشش کی، دونوں نے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب ان میں کوئی نمایاں فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ مگر صرف تاریخ کی آنکھ ہی نہیں، تقدیر کا قلم بھی دونوں کے باطن کا فرق نوٹ کر رہا تھا۔
ابوجہل کی مخالفت محض سیاسی نہ تھی، وہ ایک شعوری انکار کی بنیاد پر کھڑا تھا۔ اسے حق کی پہچان تھی، مگر اس کا دل تکبر، عناد، اور خودپسندی کی دھند میں بند ہو چکا تھا۔ وہ سچائی کے سامنے جھکنے کو تذلیل سمجھتا تھا۔ برخلاف اس کے، عمر کی ضد بھی شدید تھی، مگر اس میں صداقت کی تڑپ، عدل کی طلب، اور اصولی کشمکش موجود تھی۔ گو وہ بظاہر دشمنِ اسلام تھا، مگر اس کی مخالفت میں باطن کی ایک بےتابی اور فطری حق جوئی نظر آتی تھی، جو درحقیقت ایمان کے لئے زمین ہموار کر رہی تھی۔ انہی میں سے ایک واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دعا ہے، جس میں آپؐ نے فرمایا:’’اے اللہ! ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہو، اُس کے ذریعے اسلام کو قوت عطا فرما؛ ابوجہل یا عمر بن خطاب!‘‘ (جامع الترمذی:۳۶۸۱)
یہ بھی پڑھئے:صدیق و صادق بننا چاہتے ہو توصادقین کی ہمراہی اختیار کرو!
یہ دعا کوئی سادہ تمنا نہیں، بلکہ اس میں ربانی علم پر اعتماد، کائناتی توازن کی طلب، اور انسانِ کامل کی حکمتِ نظری جھلکتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ اللہ نے حضرت عمرؓ کو کیوں چنا ؟ اصل سوال یہ ہے کہ نبوت کا انتخابی پیمانہ کیا تھا؟ اور ابوجہل جیسے ذہین، سیاسی، بااثر انسان کی تردید کیوں ہوئی؟
قرآن کہتا ہے:’’اللہ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ ‘‘
اللہ نے حضرت عمرؓ کو چُنا کیونکہ ان کے سینے میں وہ سچائی، صداقت اور جرأت موجزن تھی جو کسی آسمانی مشن کو زمین پر نافذ کرنے کے لئے درکار ہوتی ہے۔ ان کے مزاج میں جو سختی، جلال، اور عدل کی طلب تھی، وہ جب نورِ ایمان سے منور ہوئی تو اسلام کی ایک ناقابلِ تسخیر فصیل میں بدل گئی۔
ابوجہل کی عقل چمکتی تھی، مگر وہ تکبر کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی؛ جبکہ حضرت عمر کا جذبہ ممکن ہے بظاہر خصمانہ رہا ہو، مگر اس میں صداقت، غیرت، اور سچ کی للکار چھپی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا اسلام لانا نہ صرف انفرادی تبدیلی تھی بلکہ اجتماعی انقلاب کا آغاز ثابت ہوا۔
ابوجہل نے اسلام کو دفن کرنے کی کوشش کی، اور عمرؓ نے اسے سینے سے لگا کر تاریخ کی پیشانی پر ثبت کر دیا۔ ابوجہل کی قیادت قریش کو تنگ گلیوں میں لے گئی، جب کہ عمر ؓکی قیادت نے اسلام کو دنیا کی وسعتوں میں جلوہ گر کر دیا۔
یہاں ایک نہایت باریک مگر گہرا سوال پیدا ہوتا ہے: کیا اللہ نے ابوجہل کو محروم رکھا، یا وہ خود رحمت سے منہ موڑ گیا؟
علمِ کلام کی زبان میں کہا جائے تو:’’ فضل اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، اور محرومی انسان کے اپنے نفس کی پیداوار۔ ‘‘
حضرت عمرؓ کی زندگی ایک ایسی کتاب بن گئی، جس کے اوراق میں عدل، تقویٰ، بصیرت اور جرأتِ ایمانی کی روشن سطریں قیامت تک کے لئے محفوظ ہو چکی ہیں۔ ابوجہل کا نام آج بھی ذکر ہوتا ہے، مگر بطورِ نفی، بطورِ ضد، بطورِ ابرِ سیاہ۔ جبکہ عمرؓ وہ چراغ ہے جس کی روشنی قصرِ ایمان کے ہر کونے میں ضوفشاں ہے۔ اللہ کا انتخاب ظاہری وجاہت، نسبی رتبہ، یا فکری مکاری پر نہیں ہوتا بلکہ باطن کی شفافیت، حق کی طلب، اور عمل کی قابلیت ہی اصل معیار ہے۔ آج بھی جب ہم قیادت، دعوت، اصلاح یا دین کے خادمین کا انتخاب کرتے ہیں تو کیا ہم اللہ کے پیمانوں کو ملحوظ رکھتے ہیں ؟ کیا ہم عمر جیسے حق پرستوں کو چنتے ہیں یا ابوجہل جیسے چالاکوں کو؟
یہ بنیادی اصول ہر دور میں روشنی کا منار رہتا ہے۔ جو شعور اس نور سے رشتہ قائم کرتا ہے، وہ انتخاب کی ہر سطح پر فہم، عدل اور توازن کی راہ اختیار کرتا ہے — اور جو اس روشنی سے منہ موڑتا ہے، وہ تاریخ کے اندھیروں میں گم ہو جاتا ہے۔
اسلام کے لئے ان دونوں شخصیات کے انتخاب میں قبائلی اور نسلی پس منظر کا بھی نہایت گہرا اور مؤثر کردار تھا، جسے سمجھنا حضرت عمرؓ کے انتخاب کی حکمت کو بہتر طور پر ادراک کرنے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے؛
بنی ہاشم کے شدید ترین دشمن قریش کے دو بڑے قبائل، بنی مخزوم اور بنی عدی، کے درمیان سیادت اور قیادت کی لڑائی تاریخ اسلام کے آغاز میں نمایاں تھی۔ بنی مخزوم کی قیادت ابوجہل کے ہاتھ میں تھی، جو نہ صرف اسلام کا سخت ترین مخالف بلکہ اپنے قبیلے میں سیادت کا بے حد حریص اور تکبر کا مظہر تھا۔ اس کے برعکس، بنی عدی میں حضرت عمر بن خطاب کی شخصیت نے اسلام قبول کرنے میں پہل کی اور اپنی شجاعت، عدل پسندی اور قیادت کی صلاحیتوں کے ذریعے اسلام کی طاقت کا سہارا بنی۔ اسلام قبول کرنے میں بنی عدی نے پہل کی جبکہ بنی مخزوم کے اہم افراد، جیسے خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابی جہل، بعد میں اسلام کی صفوں میں شامل ہوئے۔ اس تاریخی پس منظر میں سیادت کی خواہش دونوں قبائل میں موجود تھی، لیکن ابوجہل نے اسے تکبر اور عناد کے ساتھ اسلام دشمنی میں بدل دیا، جبکہ حضرت عمرؓ نے اپنی قیادت کو حق و انصاف کے راستے پر گامزن کر کے اسلام کی بقا اور ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
یہ واقعہ ایک اصولی معیار پیش کرتا ہے کہ افراد یا قائدین کی قدر پیمائی محض ان کے ظاہری علم، جاہ و حشمت، یا گفتگو کی سحر انگیزی سے نہ کی جائے، بلکہ ان کے باطن کی جہت، اخلاقی ساخت، اور حق کے ساتھ داخلی ہم آہنگی کو معیار بنایا جائے۔ وہی قومیں بقا پاتی ہیں جو ایسے ہی معیار پر اپنی قیادت کو پرکھتی ہیں، اور جن کے علَم بردار حق کے بار اٹھانے کے اہل اور صداقت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ یہاں سے الٰہی انتخاب کا راز آشکار ہوتا ہے۔ تاریخِ نبوت یہ اصول فراہم کرتی ہے کہ اللہ کا انتخاب محض ظاہری مخالفت یا ظاہری عمل کی سطح پر نہیں ہوتا، بلکہ وہ باطن کی سمت، نیت کی گہرائی، اور فطرت کی صداقت کو تول کر فیصلہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شخص جو’’فرعونِ امت‘‘ کے لقب کا مستحق ٹھہرا، وہ ذلت و نامرادی کا نشان بنا، اور دوسرا جس کے دل میں جرأت، غیرت اور صداقت کی شعلہ گری تھی، وہ ’’فاروقِ اعظم‘‘ کی بلند چوٹی پر پہنچا۔
یہیں سے وہ نکتہ جنم لیتا ہے جو فرد کے باطن اور اللہ کے انتخاب کے مابین تعلق کو آشکار کرتا ہے۔ محض ظاہری شخصیت، فصاحت، یا اثر و رسوخ اللہ کی نظر میں معیار نہیں بلکہ: انسانی تاریخ اس نکتے کی گواہی دیتی ہے کہ اقوام کی بقا اور دعوتوں کی کامیابی کا دارومدار ان کے انتخابی اصولوں پر ہوتا ہے۔