ہم قرآن مجید کی تلاوت ضرور کرتے ہیں مگر نہ تو آیات کلام پاک کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ ہی ان پر غوروفکر کرتے ہیں۔ یقین جانئے، اس کلام کے مفاہیم میں بڑی وسعت ہے، بڑی طاقت ہے، ہمہ جہتی ہے۔
EPAPER
Updated: February 09, 2024, 2:27 PM IST | Maulana Syed Jalaluddin Omari | Mumbai
ہم قرآن مجید کی تلاوت ضرور کرتے ہیں مگر نہ تو آیات کلام پاک کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ ہی ان پر غوروفکر کرتے ہیں۔ یقین جانئے، اس کلام کے مفاہیم میں بڑی وسعت ہے، بڑی طاقت ہے، ہمہ جہتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لئے جو کتابیں نازل کیں ان میں قرآن مجید سب سے آخری کتاب ہے، لیکن اپنے اثرات کے لحاظ سے اس کا مقام سب سے آگے ہے۔ انسانوں نے جو کتابیں تصنیف کیں ان کا تو شمار ہی نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے بعض کتابوں کا اثر بھی، اس میں شک نہیں، دنیا نے قبول کیا، لیکن قرآن مجید سے اس کی کوئی نسبت نہیں ہے۔ اس طرح کی ہر انسانی تصنیف نے ایک محدود دائرے میں اپنے اثرات مرتب کئے، لیکن قرآن مجید نے ایک عالم کو بدل کر رکھ دیا۔ اس نے دنیا کو نئے افراد دیے، نیا سماج دیا اور نیا طرزِحکومت عطا کیا۔
کسی فرد کو بدلنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ قرآن نے فرد کو خطاب کیا اور اس کے ذہن و فکر اور سیرت و کردار ہی کا نہیں، اس کے جذبات و احساسات تک کا رخ موڑ دیا۔ اس نے طہارتِ فکر و نظر اور اخلاق و کردار کی اساس پر ایک پاکیزہ معاشرہ کا تصور دیا اور اس طرح کا معاشرہ قائم کرکے دکھادیا۔ اس نے کہا کہ ریاست کو حرّیتِ فکر و عمل، عدل و انصاف اور مساوات کی اساس پر قائم ہونا چاہئے اور انسانی حقوق کا احترام اس کا فرض ہے۔ دنیا کو اس کے ذریعہ اس ریاست کا تجربہ ہوگیا۔ دنیا تغیرات کی آماجگاہ ہے۔ یہاں چھوٹی بڑی تبدیلیاں ہوتی ہی رہتی ہیں، لیکن انسان نے قرآن کے ذریعہ ایک ہمہ جہت تبدیلی کا مشاہدہ کیا۔ یہ تبدیلی ہمیشہ کے لیے نمونہ بن گئی۔ جب بھی انسان خیر و فلاح کا وسیع تصور کرے گا یہ نمونہ اس کے سامنے ہوگا۔
قرآن حالات کا ردِّ عمل نہیں ہے
یہ عظیم انقلاب کسی ایک خطۂ زمیں تک محدود نہیں رہا، بلکہ دنیاکے بڑے حصے نے اس کا استقبال کیا اور بخوشی اس تبدیلی کو قبول کیا۔ اس کی بہت سی توجیہات کی جاسکتی ہیں۔ ایک توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ یہ اس وقت کے عالمی اور خاص طور پر عرب کے ناگفتہ بہ حالات کا رد عمل تھا۔ پوری دنیا ایک طرح کے سیاسی انتشار میں مبتلا تھی۔ ایک طرف مذہب کے ماننے والوں کا غیر عقلی رویہ، ان کے باہمی نزاعات اور دوسری طرف بادشاہوں اور امیروں کی عیش کوشی، عوام کی معاشی بدحالی، طبقاتی کشمکش، عدم مساوات، جنسی آوارگی اور اخلاقی بندشوں سے آزادی نے دنیا کو نڈھال کررکھا تھا۔ اس کا رد عمل بھی کہیں کہیں ہوا، لیکن حالات اس سے بڑے رد عمل کا تقاضا کررہے تھے۔
جہاں تک جزیرۃ العرب کا تعلق ہے، حالات اس سے کہیں زیادہ ابتر تھے۔ وہاں کوئی مضبوط سیاسی نظام نہیں تھا۔ مختلف قبائل اپنے دائرے میں آزاد تھے۔ وہ اصنام پرستی میں مبتلا تھے، لیکن ہر قبیلہ کا بت الگ تھا۔ ان کے درمیان تعصب اور عداوت کی دیواریں حائل تھیں۔ خانہ جنگی، جہالت، معاشی بدحالی اور اخلاقی بگاڑ نے انہیں اپنے نرغے میں لے رکھا تھا۔ قرآن اسی کا رد عمل تھا اور یہ ردعمل کامیاب رہا اور عرب سے نکل کر عالمی سطح پر بھی اثر انداز ہوا۔ زبوں حال دنیا نے اس کا ساتھ دیا، جیسے وہ اس کی منتظر تھی۔
قرآن کی ہمہ گیر تعلیمات
ردِّ عمل کے اس فلسفہ میں اس حقیقت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ ردِعمل انتقام کے جذبہ سے سرشار اور حدود و قیود سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں کوئی مثبت اور بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ قرآن کے ذریعہ جو انقلاب آیا اس کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اخلاق و قانون کا پابند اور عدل و انصاف کا حامی اور محافظ تھا۔ اسے ردِّ عمل قرار دینا ناواقفیت کی دلیل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کے ذریعہ جو انقلاب آیا اس کے اسباب خارج میں نہیں، بلکہ اس کے اندر موجود تھے جس کی وجہ سے لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آرہے تھے۔ دشمنوں کے دلوں میں وہ اپنی جگہ بنا رہا تھا اور مخالف صفوں میں پیش قدمی کررہا تھا۔ ان ہی میں سے بعض اسباب کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے:
تصورِ توحید
اللہ تعالیٰ کے وجود کا تصور انسان کی فطرت میں ہے۔ دنیا کے تمام ہی مذاہب نے اس کی تائید اور تصویب کی ہے، لیکن یہ آلودۂ شرک بھی رہا ہے۔ اللہ کے رسولوں نے توحید کی دعوت دی اور اسی پر اپنی تعلیمات کی بنیاد رکھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ چشمۂ صافی گدلا ہوتا چلا گیا۔ قرآن مجید نے اسے نکھار کر رکھ دیا اور اب وہ بے آمیز اور خالص شکل میں دنیا کے سامنے تھا۔ قرآن مجید نے پوری تفصیل سے عقیدۂ توحید پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وحدہ لاشریک ہے۔ پوری کائنات، جس کی وسعت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، تنہا اس کی پیدا کردہ ہے۔ اس کی تخلیق میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ وہی اس کا مالک اور فرماں روا ہے، کسی اورکا اس میں ذرہ برابر دخل نہیں ہے۔
اللہ ہی خالق و فرماں روائے کائنات ہے
مذہب کی دنیا میں یہ خیال پایا جاتا تھا کہ اس کائنات کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ اس سے بے تعلق ہوگیا ہے۔ قرآن نے اس کی تردید کی اور بتایا کہ وہ عرشِ بریں کا مالک ہے اور پورے کارخانۂ عالم کو اپنی مرضی سے چلا رہا ہے:
’’بے شک تمہارا رب وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر عرش پر متمکن ہوا۔ جو رات کے ذریعہ دن کو ڈھانک دیتا ہے اور دن تیزی سے اس کے پیچھے چلا آتا ہے۔ اس نے سورج، چاند اور ستارے پیدا کیے۔ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ سن لو! اسی کے لیے خاص ہے پیدا کرنا بھی اور حکم دینا بھی۔ بابرکت ہے اللہ کی ذات جو ربُّ العالمین ہے۔ ‘‘
( ﴿الاعراف: ۵۴﴾)
وہ حَی و قیوم ہے۔ سارے عالم کو تھامے ہوئے ہے۔ ایک لمحہ کے لئے بھی وہ اس سے غافل نہیں ہے:
’’اللہ تعالیٰ وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے اور کائنات کو تھامے ہوئے ہے۔ نہ اسے اونگھ لاحق ہوتی ہے اور نہ نیند آتی ہے۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس کی ملکیت ہے۔ ‘‘ (البقرۃ:۲۵۵﴾)
قرآن نے شرک کی جڑکاٹ دی اورسوائے ایک ذاتِ خداوند کے ہر چھوٹے بڑے خدا کے تسلط اور اقتدار سے انکار کردیا۔ اب انسان اس دنیا پر صرف اللہ ِ واحد کی حکمرانی دیکھ رہا تھا۔
اللہ کی ذات سے انسان کا تعلق
اللہ تعالیٰ سے انسان کا تعلق غیرواضح، بلکہ ایک طرح سے منقطع رہا ہے۔ قرآن نے انسان کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے جوڑ دیا۔ اس نے کہا کہ انسان اس دنیا میں خود سے نہیں آتا، اس کی پیدائش، اس کا رزق، اس کی صلاحیتیں اور توانائیاں، اس کا مرض و صحت سے دوچار ہونا اور اس کی موت و حیات سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے، کسی دوسرے کے پاس کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا تمہارا تعلق اس سے اور صرف اس سے ہونا چاہئے۔ سورۂ فاطر میں ہے:
’’اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور پھر نطفہ سے اس نے تمہارے جوڑے بنائے، جو عورت حاملہ ہوتی ہے اور بچے کو جنم دیتی ہے سب اس کے علم میں ہے۔ کسی کو زیادہ عمر ملتی ہے اور کسی کی عمر میں کمی ہوتی ہے تو یہ سب ﴿اللہ کے ہاں ایک کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ ان میں سے کوئی کام اللہ کے لئے دشوار نہیں ہے۔ اور پانی کے دونوں ذخیرے یکساں نہیں ہیں ایک میٹھا اور پیاس بجھانے والا ہے، پینے میں خوشگوار، اور دوسرا سخت کھارا کہ حلق چھیل دے مگر دونوں سے تم تر و تازہ گوشت حاصل کرتے ہو، پہننے کے لیے زینت کا سامان نکالتے ہو، اور اسی پانی میں تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اُس کا سینہ چیرتی چلی جا رہی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور اُس کے شکر گزار بنو۔ اسی کی ذات ہے جو رات اور دن کو ایک دوسرے میں داخل کرتی رہتی ہے۔ سورج اور چاند کو اس نے مسخر کررکھا ہے، جو ایک مقررہ مدت تک گردش میں ہیں۔ وہی اللہ تمہارا رب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، اُسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پر ِکاہ کے مالک بھی نہیں ہیں، انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے، حقیقت حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں ایک خبردار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ ‘‘
(فاطر:۱۱؍تا۱۴)
اس طرح کی تصریحات پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اللہ واحد کے عقیدہ نے انسانوں کو ہر جھوٹے معبود سے نجات دی۔ انسان کی گردن میں خودساختہ خداؤں کا جو طوق غلامی پڑا ہوا تھا، اسے کاٹ دیا۔ جب کسی کے ہاتھ میں کوئی اقتدار نہیں ہے تو کیوں وہ اس سے توقع رکھے اور اسے اپنا مالک و کارساز سمجھے۔ اب کسی فرعون کو اجازت نہ تھی کہ اپنی بادشاہت و حکومت کا ڈنکا پیٹے اور دوسروں کو غلام بنائے۔
اللہ تعالیٰ تک براہ راست رسائی ہوسکتی ہے
اللہ تعالیٰ تک رسائی کےلئے انسان ذرائع اور واسطوں کو ضروری خیال کرتا تھا۔ مشرکین کہتے تھے: ’’ہم ان معبودوں کی صرف اس لئے عبادت کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔ ‘‘ (الزمر:۳﴾)۔ قرآن نے بتایا کہ اللہ تک پہنچنے اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لئے انسان کو کسی واسطہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے وہ براہِ راست تعلق قائم کرسکتا ہے۔ وہ سب سے زیادہ اس سے قریب ہے اور اس کی دعائیں سنتا ہے اور جواب دیتا ہے۔ ان کا کام یہ ہے کہ وہ اس پر ایمان رکھیں اور اس کی ہدایات پر عمل کریں :
’’جب میرے بندے میرے متعلق آپ سے سوال کریں تو بتادیجئے کہ میں قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں بھی چاہیے کہ میری پکار کا جواب دیں اور مجھ پر ایمان رکھیں۔ امید ہے وہ ہدایت پائیں گے۔ ‘‘ (البقرہ: ۱۸۶﴾)
یہا ں ایک اور آیت مبارکہ سے استفادہ ضروری ہے جس میں اللہ دریافت فرماتا ہے:
’’کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔ ‘‘ (النمل:۶۲)
یہ بھی پڑھئے:ڈپریشن : اسلام نے ۱۴؍سو سال قبل اس کاعلاج بتادیا تھا
انسان گناہ سے مشکل ہی سے بچ پاتا ہے۔ بعض اوقات بڑے بڑے گناہ بھی اس سے سرزد ہوجاتے ہیں، لیکن اس کا ضمیر گناہ کی خلش کو محسوس کرتا ہے، ارتکابِ گناہ اس کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا گناہ دُھل جائے اور وہ اس کی سزا سے بچ جائے۔ اس کیلئے وہ ضروری سمجھتا تھا کہ خود ساختہ خداؤں کو خوش کیا جائے ورنہ وہ ان کے غضب کا شکار ہوجائیگا۔ اس مقصد سے وہ طرح طرح کی رسوم ادا کرتا اور یہ رسوم مذہبی رہنمائوں کے ذریعہ انجام پاتی تھیں۔ شرک کی دنیا میں اب بھی یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ گناہ کی زندگی گزارنے کے بعد انسان کبھی مایوس بھی ہوجاتا ہے کہ اب اس کیلئے ہدایت کی راہ بند ہوچکی ہے۔ قرآن مجید نے معصیت پرور انسانوں اور بڑے بڑے مجرموں کو اللہ کا پیغام سنایا اور ہمت دلائی کہ توبہ کے دروازے تاحیات کھلے ہوئے ہیں۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ وہ بڑے سے بڑے مجرم کو معاف کرنے کیلئے تیار ہے:
’’اے میرے بندو، جنہوں نے گناہوں کے ارتکاب سے اپنے اوپر زیادتی کی ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو۔ اللہ سارے گناہ معاف کردیگا۔ وہ تو غفور و رحیم ہے۔ اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کے مطیع و فرماں بردار بن جائو، قبل اس کے کہ اللہ کا عذاب آجائے اور کہیں سے تمہاری کوئی مدد نہ ہو۔ ‘‘ (الزمر: ۵۳-۵۴﴾)
’’اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور انہیں معافی عطا کرتا ہے اور وہ ﴿تمہارے ارادوں اور جو کچھ تم کرتے ہو ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ ‘‘ (الشوریٰ: ۲۵﴾)۔ قرآن مجید نے جس طرح بگڑے ہوئے افراد، قاتلوں اور سیہ کاروں کو، اللہ سے براہ راست تعلق قائم کرنے اور گناہوں سے توبہ کی دعوت دی، اس سے اس راہ کی بندشیں اور واسطے ختم ہورہے تھے اور انسان توبہ و استغفار کے ساتھ سیدھے اللہ کی طرف متوجہ ہورہا تھا۔ یہ قرآن ہی کی تعلیمات کا نتیجہ تھا۔
آخرت کا تصور:
دنیا انسان کے سامنے ہے۔ اس سے وہ انکار نہیں کرسکتا۔ اس میں غیرمعمولی کشش ہے، اس لئے وہ اس میں پوری طرح غرق رہا ہے اور اب بھی اسی میں مدہوش ہے۔ آخرت گناہوں سے اوجھل ہے۔ اس سے وہ غافل اور بے خبر ہے۔ حالانکہ یہ دنیا انسان کا حال اور آخرت اس کا مستقبل ہے۔ یہ دنیا فانی ہے اور آخرت کو بقائے دوام حاصل ہوگا۔ یہاں فکر و عمل کیلئے انسان آزاد ہے اور وہاں اس کا حساب کتاب ہوگا اور انسان اپنے اچھے یا برے انجام سے دوچار ہوگا۔ آخرت کا تصور کسی نہ کسی شکل میں مذاہب ِ عالم میں رہا ہے لیکن افراد اور قوموں کے احساس برتری اور اللہ کے دربار میں سفارش و شفاعت کے غلط تصور جیسے باطل خیالات نے اسے غبار آلود کردیا ہے۔
قرآن مجید نے ان سب کی تردید کی اور آخرت کا خالص عقیدہ پورے زور اور قوت سے پیش کیا اور اس کے حق میں اس قدر مضبوط دلائل فراہم کئے کہ وہ خواب و خیال نہیں، بلکہ زندہ حقیقت بن گیا۔ اس نے دعوت دی:
’’(اے بندو!) تم اپنے رب کی بخشش کی طرف تیز لپکو اور جنت کی طرف (بھی) جس کی چوڑائی (ہی) آسمان اور زمین کی وسعت جتنی ہے، اُن لوگوں کیلئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے اسے عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ عظیم فضل والا ہے۔ ‘‘ (الحدید:۲۱)
اس جنت کو پانے کیلئے جس کردار کی ضرورت ہے، قرآن مجید نے بہت تفصیل سے اس کا ذکر کیا ہے۔ صرف ایک حوالہ دیا جارہا ہے: فرمایا گیا: ’’اے ایمان والو! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتائوں جو دردناک عذابِ ﴿جہنم سے نجات دے؟ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو، اللہ تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کریگا، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور پاکیزہ مکانات عطا کریگا جو ہمیشہ رہنے والے باغات میں ہوں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ ‘‘ (الصف:۱۰؍تا۱۲)
یہ ایک نئی دنیا کا تصور تھا۔ جو لوگ موجودہ عیش و عشرت ہی کو سب کچھ سمجھ رہے تھے وہ تو اس میں گم رہے، لیکن آخرت کی فلاح کے تمنائی اس کی طرف دوڑ پڑے۔
مادّیت و روحانیت میں توازن:
دنیا کے سامنے مادیت اور روحانیت کا مسئلہ شروع ہی سے رہا ہے۔ دونوں میں تضاد سمجھا گیا اور اس کیلئے راستے بھی جدا جدا اختیار کئے گئے۔ اس حقیقت کو فراموش کردیا گیا کہ انسان کی مادی ضرورتیں بھی ہیں اور اس کی روح کے مطالبات بھی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انسان بالعموم مادی خواہشات کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ اس سے اس کی روح کی تسکین نہیں ہو پاتی۔ بعض لوگ روح کی تسکین کیلئے مادی تقاضوں سے صرفِ نظر کرنے لگتے ہیں۔ قرآن نے ان دونوں میں توازن قائم کیا۔ اس نے اس خیال کی تردید کی کہ مادی تقاضوں کو پورا کرنا، بہتر خوراک، صاف ستھرا لباس یا آرام دہ رہائش کا استعمال روحانی ارتقاء کے منافی ہے۔ جائز حدود میں ان کی تکمیل کو اس نے کارِثواب قرار دیا اور اس کی ترغیب دی۔ فرمایا: ’’اے بنی آدم! مسجد کی ہر حاضری میں اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھائو اور پیو اور اسراف نہ کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ اسراف کو پسند نہیں کرتا۔ ان سے کہو، ﴿بتاؤ، کس نے اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کی ہے اور کھانے کی صاف ستھری چیزوں کو حرام کیا ہے؟ ان سے کہو کہ یہ نعمتیں دنیا کی زندگی میں ﴿اصلاً ان لوگوں کیلئے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں، قیامت میں تو خاص ان ہی کیلئے ہوں گی۔ اس طرح ہم آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کیلئے جو جانتے ہیں۔ ‘‘ (الاعراف:۳۱-۳۲﴾)
روح کے سکون اور اطمینان کیلئے قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کے احکام کی اطاعت کو ضروری قرار دیا اور اللہ تعالیٰ سے محبت، ذکر، اخلاص، توبہ اور انابت جیسے پاکیزہ جذبات ابھارے اور بتایا کہ اللہ کی یاد ہی سے اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے۔ ( ﴿الرعد:۲۸﴾)
قرآن نے اس طرح روحانیت اور مادیت کی کشمکش ختم کی اور دنیا کو ایک متوازن راہِ عمل دکھائی۔
انسان سب سے برتر مخلوق:
انسان اپنی عظمت سے ناواقف تھا۔ وہ اس عظیم کارخانۂ عالم کو ڈر اور خوف کی نظر سے دیکھتا، اس کے ذرہ ذرہ کو دیوتا یا خدا سمجھتا اور اس کے سامنے اپنی جبینِ نیاز جھکا دیتا۔ قرآن نے بتایا کہ وہ یعنی انسان دنیا کی ہر شے سے برتر اور اشرف المخلوقات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی عظمت کا اعلان اس طرح ہوا: ’’ہم نے بنی آدم کو عزت کا مقام دیا ہے اور اس قابل بنایا ہے کہ خشکی اور سمندر میں سفر کرسکے اور اس کی غذا کے لئے صاف ستھری اور پاکیزہ چیزیں فراہم کی ہیں اور اپنی بہت سی مخلوقات پر اسے فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔ ‘‘ (الاسراء:۷۰﴾)
یہ عالمِ ہست و بود اپنی تمام وسعتوں اور وسائل کے ساتھ اس کیلئے مسخر کردیا گیا ہے۔ اسے ایسے فطری قوانین کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھاتا چلا آرہا ہے اور مزید استفادے کی راہیں اس کے سامنے کھلی ہیں۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ اس میں کسی دوسرے کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ قرآن ہی کے الفاظ میں سنئے کہ: ’’وہ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کردیا، تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تم اس کا فضل ﴿رزق تلاش کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ اسی نے تمہارے لئے اپنی طرف سے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں مسخر کردی ہیں، بے شک اس میں ان لوگوں کیلئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔ ‘‘( ﴿الجاثیۃ: ۱۲-۱۳﴾)
یہ مضمون مزید وضاحت کے ساتھ سورۂ ابراہیم میں بیان ہوا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے:
’’اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور آسمان کی جانب سے پانی اتارا پھر اس پانی کے ذریعہ سے تمہارے رزق کے طور پر پھل پیدا کئے، اور اس نے تمہارے لئے کشتیوں کو مسخر کر دیا تاکہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی رہیں اور اس نے تمہارے لئے دریاؤں کو (بھی) مسخر کر دیا، اور اس نے تمہارے فائدہ کے لئے سورج اور چاند کو (باقاعدہ ایک نظام کا) مطیع بنا دیا جو ہمیشہ گردش کرتے رہتے ہیں، اور تمہارے لئے رات اور دن کو بھی (ایک نظام کے) تابع کر دیا، اور اس نے تمہیں ہر وہ چیز عطا فرما دی جو تم نے اس سے مانگی، اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو (تو) پورا شمار نہ کر سکو گے، بیشک انسان بڑا ہی ظالم بڑا ہی ناشکرگزار ہے۔ ‘‘( ﴿ابراہیم:۳۱؍تا۳۴﴾)
اطاعت و بندگی کا حق:
قرآن نے اس حقیقت سے پردہ ہٹایا کہ یہ دنیا اس لئے ہے کہ انسان اس سے فائدہ اٹھائے، نہ یہ کہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے۔ اطاعت اور بندگی کا حق صرف اس ذات کا ہے جو اس دنیا کا خالق و مالک ہے۔ خدا اور اس کی پیدا کردہ کائنات کے بارے میں اس تصور سے انسان نے اس وسیع دنیا کو اپنے تابع دیکھا اور بغیر کسی خوف اور اندیشے کے اس سے فائدہ اٹھانے کی تدبیر کی۔ وہ اس اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا کہ وہ خدا کا بندہ ہے اور خدا نے یہاں کی ہر چیز سے استفادے کا اس کو حق دیا ہے۔ قرآن نے انسان کو ’خلیفۃ اللہ فی الارض ‘ کہا۔ وہ زمین میں خدا کا خلیفہ ہے۔ اس کا کام دوسروں کی غلامی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین پر عمل کرنا اور دنیا میں اس دین کو نافذ کرنا ہے۔ اس پہلو سے اس نے انسان کو جو مقام ِبلند عطا کیا وہ کسی بھی زاویئے سے محتاج وضاحت نہیں ہے۔ انسان کے فکر و عمل کی دنیا محدود تھی۔ وہ خاندانوں، قوموں اور ملکوں میں تقسیم تھا اور ان ہی کے نفع و ضرر کے بارے میں سوچتا تھا۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔ قرآن نے انسان سے بہ حیثیت انسان خطاب کیا۔ اس نے آواز دی ’یاایہا الانسان‘ ﴿اے انسان! ’ایہا الناس‘ ﴿اے لوگو! ’یا بنی آدم‘ ﴿اے اولادِ آدم۔
’’اے انسان! کس چیز نے تجھے تیرے رب کریم سے دھوکے میں ڈال دیا۔ ‘‘ (الانفطار:۶) ’’اے لوگو! اپنے رب کی بندگی کرو جس نے تم کو بھی پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ امید ہے تم اللہ کی نافرمانی سے بچو گے۔ ‘‘ (البقرۃ:۲۱﴾) ’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو۔ ﴿قیامت آنے والی ہے، بے شک قیامت کا زلزلہ بڑی ﴿بھیانک چیز ہے۔ ‘‘ (الحج:۱) ’’اے بنی آدم اگر تمہارے پاس تم ہی میں سے اللہ کے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنائیں تو جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے اور اپنی اصلاح کریں گے تو ان کے لئے ﴿قیامت میں خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ‘‘ (الاعراف:۳۵﴾)
انسان جو تنگ دائروں میں بند تھا، قرآن مجید نے اسے نوع انسانی کے وسیع میدان میں پہنچایا اور قومی و نسلی مفادات کی جگہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے اولاد آدم کی صلاح و فلاح کے بارے میں سوچنا سکھایا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن کا پیغام جغرافیائی حدود سے آزاد ہوگیا اور دنیا کے ہر انسان نے محسوس کیا کہ قرآن اس سے مخاطب ہے اور اس کی فلاح وکام رانی کی راہ دکھاتا ہے۔ اس کے سامنے قومیت یا علاقائیت کی جگہ آفاقیت اور بین الاقوامیت تھی۔ دنیا کے ہر انسان کے لئے اس میں جگہ تھی۔
غیر ضروری بندشوں سے آزادی:انسان، آباء و اجداد کی تقلید، بے معنی رسوم و روایات اور مذہب کے نام پر طرح طرح کی بندشوں میں جکڑا ہوا تھا۔ قرآن نے اسے ان بندشوں سے آزاد کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا گیا کہ ’’آپ ﴿اہل کتاب کو معروف کا حکم دیتے اور منکر سے منع کرتے ہیں، ان کے لئے پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ان پر جو بوجھ ہے اسے اتارتے ہیں اور جن طوق و سلاسل میں وہ جکڑے ہوئے ہیں انہیں ختم کرتے ہیں۔ ‘‘ (الاعراف:۱۵۷﴾)
قرآن مجید، حرّیتِ فکر و عمل کا علم بردار بن کر ابھرا اور اس نے کسی بھی معاملہ میں جبر واکراہ کو غلط قرار دیا۔ اس نے اپنا عقیدہ اور فکر، دلائل کے ساتھ پیش کیا اور اس پر غور و فکر کی دعوت دی۔ وہ اس اطمینان کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرتا ہے کہ آدمی ہوش مندی اور دانائی سے کام لے تو اس کا انکار نہیں کرسکتا، لیکن اس کے باوجود اس کے تسلیم کرنے پر وہ کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ اس نے علی الاعلان کہا ’’دین میں کوئی جبر نہیں۔ ‘‘مزید وضاحت ہے:’’کہہ دو، حق تمہارے رب کی طرف سے آیا ہے جس کا جی چاہے اسے قبول کرے اور جو اس کا انکار کرنا چاہے انکار کرے۔ ‘‘ (الکہف:۲۹﴾)اس طرح انسان کو کھلی فضا ملی اور آزادی کے ساتھ اپنے لئے راہ حیات طے کرنے کا حق حاصل ہوا۔ یہ سب سے بڑی نعمت تھی جس سے وہ اب تک محروم تھا۔
عقیدہ کا تعلق پوری زندگی سے:مذہب عام طور پر انسان سے بعض رسوم و رواج کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کا کردار ختم ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید نے توحید، رسالت اور آخرت کو ایک حیات آفریں عقیدہ کی حیثیت سے پیش کیا اور اس کی بنیاد پر ایک پورا نظامِ شریعت عطا کیا۔ اس میں عبادات بھی ہیں، اخلاق بھی ہے، معاشرت، معیشت اور قانون سے متعلق ہدایات بھی ہیں جو اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ اس عقیدے کے تحت کس طرح کی زندگی گزاری جاتی ہے۔ عقیدے سے مربوط اس طرح کا مکمل نظام حیات دنیا کو پہلی مرتبہ ملا، جس سے مذہب کی دنیا ناآشنا تھی۔ قرآن نے عقیدہ کے ساتھ نظام شریعت بھی دیا۔ اس کے بغیر عقیدہ و مذہب کی معنویت باقی نہیں رہتی۔
یہ فکر و نظر کے نئے آفاق تھے، سعی و عمل کی دنیائے تاباں تھی۔ اس میں شرک کی تمام راہیں مسدود تھیں اور اللہ واحد کی عبادت کا عقیدہ پورے آب و تاب کے ساتھ موجود تھا۔ یہاں بے شمار خداؤں کے اقتدار کی جگہ ایک خدا کا اقتدار تھا اور پوری زندگی پر صرف اس کی حکمرانی تھی، اس میں بے قید زندگی اپنا جواز کھو چکی تھی اور ہر قدم پر جواب دہی کا احساس ابھر رہا تھا، یہاں مادی اور روحانی تقاضوں کی تکمیل تھی اور دنیا و آخرت کی فوز و فلاح تھی۔ یہاں عظمت آدم کا ادراک تھا۔ یہاں وہ بندشیں ٹوٹ رہی تھیں جو انسان کی ترقی کی راہ میں حائل تھیں۔ یہاں فکر و عمل کی آزادی تھی اور آدمی کو خود سے اپنی راہِ حیات طے کرنے کا حق تھا، اس وجہ سے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کا انسان اس کی طرف لپک رہا تھا۔ وہ آگے بڑھ کر اسے اس طرح سینے سے لگا رہا تھا جیسے یہ اس کی متاع گم گشتہ ہے۔ اسے وہ سب کچھ مل رہا ہے جس سے وہ اب تک محروم تھا۔