• Sun, 12 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مقصدیت، جواب دہی اور ذمہ داری

Updated: October 10, 2025, 12:44 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

وہ ستون ہیں جن پر صالح اور کامیاب زندگی کی عمارت قائم ہوتی ہے.

Islam has not limited objectivity to places of worship or religious positions, but has declared every legitimate profession and service to be worship if performed with intention and sincerity. Photo: INN
اسلام نے مقصدیت کو صرف عبادت خانوں یا مذہبی مناصب تک محدود نہیں کیا ہے بلکہ ہر جائز پیشہ اور خدمت کو نیت اور اخلاص کے ساتھ انجام دینے کی صورت میں عبادت قرار دیا ہے۔ تصویر: آئی این این
دنیا کی عارضی فطرت سے آگاہ ہونے کے باوجود زندگی کو بے مقصد گزارنا انسانی شعور کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ جب انسان جانتا ہے کہ یہ دنیا محض ایک گزرگاہ ہےاور ایک لمحاتی سایہ ہے جو سورج ڈھلنے کے ساتھ مٹ جاتا ہے، تب بھی اگر وہ اپنے وجود کے معنی کو تلاش نہیں کرتا تو وہ خود اپنی ذات کے ساتھ خیانت کرتا ہے۔ اسکے برخلاف انسان جب اپنی زندگی کو کسی اعلیٰ نصب العین سے جوڑ لیتا ہے تو اس کے سامنے فنا کی دنیا میں بقا کا مفہوم اُبھر کر آجاتا ہے۔ 
یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآنِ حکیم میں بارہا انسان کو اس کے مقصدِ حیات کی یاد دہانی کرائی ہے اور اس دنیا کی فانی حقیقت کو نمایاں انداز میں بیان فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔ ‘‘ (الذاریات: ۵۶) یہ آیت انسان کے وجود کا بنیادی مقصد واضح کرتی ہے کہ اس کی زندگی بندگی اور اطاعت ِ الٰہی کے سوا کچھ نہیں۔ اسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خود ستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے، اس کی مثال بارش کی سی ہے کہ جس کی پیداوار کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر تم اسے پک کر زرد ہوتا دیکھتے ہو پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے، اور آخرت میں (نافرمانوں کے لئے) سخت عذاب ہے اور (فرمانبرداروں کیلئے) اللہ کی جانب سے مغفرت اور عظیم خوشنودی ہے، اور دنیا کی زندگی دھوکے کی پونجی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ‘‘ (الحدید:۲۰) اس طرح قرآن انسان کو یاد دلاتا ہے کہ دنیا کی چمک دمک سراب ہے، اصل کامیابی وہ ہے جو آخرت کی ابدی زندگی میں ملے گی، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ‘‘ (آل عمران: ۱۸۵) لہٰذا جو انسان ان آیات پر غور کرتا ہے، وہ سمجھ لیتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی لمحہ مقصد کے بغیر نہیں ہے، بلکہ ایک امتحان ہے اور اس امتحان میں کامیابی صرف اس کے لئے ہے جو اپنی زندگی کو خالق کے حکم کے تابع بنا لیتا ہے۔ 
 
 
جب ہم اس قرآنی پس منظر کو سامنے رکھ کر موجودہ معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک نہایت واضح اور افسوسناک حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ انسانوں کی اکثریت نے اپنی زندگی کے اصل مقصد سے رشتہ تقریباً منقطع کر لیا ہے۔ آج کا انسان اپنی صلاحیتوں اور سرگرمیوں کا محور صرف خود کو نمایاں کرنا اور دوسروں سے اپنے آپ کو برتر ثابت کرنا بنا بیٹھا ہے۔ چنانچہ اس کی تمام محنت، جدوجہد اور فکر اسی دائرہ میں گردش کرتی ہے کہ وہ سماجی یا معاشی پیمانے پر دوسروں سے آگے نکل جائے، خواہ اس کی کاوشوں میں کوئی اعلیٰ مقصد شامل ہو یا نہ ہو۔ یہ طرزِ فکر منطقی اعتبار سے بھی غلط ہے؛ کیونکہ اگر انسان اپنی تمام توانائیاں صرف ظاہری برتری پر صرف کرے اور مقصدیت کو نظرانداز کر دے تو وہ اپنے ہی وجود کے فلسفے سے انحراف کرتا ہے۔ اس لئے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جو کوشش مقصد سے خالی ہو، وہ نتائج کے اعتبار سے لاحاصل ہوتی ہے اور ایسی کامیابی جس میں معنویت نہ ہو، ناکامی کی ایک حسین شکل کے سوا کچھ نہیں ہے۔ 
یہ ہرگز ضروری نہیں کہ بامقصد زندگی گزارنے کے لئے انسان کسی مخصوص مذہبی پیشے یا دینی خدمت سے ہی وابستہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے مقصدیت کو صرف عبادت خانوں یا مذہبی مناصب تک محدود نہیں کیا ہے بلکہ ہر جائز پیشہ اور خدمت کو نیت اور اخلاص کے ساتھ انجام دینے کی صورت میں عبادت قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے پیشے میں دیانت، خیر خواہی اور سماجی خدمت کو شامل کر لے تو بظاہر دنیاوی نظر آنے والا کام بھی دینی رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ ایک استاد تعلیم کے ذریعے، ایک تاجر ایمانداری کے ذریعے، ایک طبیب خدمتِ خلق کے ذریعے، ایک لیڈر سیاست کے ذریعے، ایک شاعر شاعری کے ذریعے، ایک مصنف تحریر کے ذریعے اور ایک مزدور اپنی محنت و وفاداری کے ذریعے اسی مقصدِ الٰہی کی تکمیل کر سکتا ہے۔ یوں اسلام انسان کو یہ شعور دیتا ہے کہ زندگی کا ہر عمل، اگر وہ جائز، مفید اور نیک نیت پر مبنی ہو تو دین کا حصہ بن جاتا ہے اور یہی طرزِ فکر دنیاوی مصروفیات کو اخروی کامیابی کا زینہ بنا دیتا ہے۔ 
انسان کی ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ جوانی اور توانائی کے زمانے کو محض لطف و انبساط کے لئے وقف سمجھتا ہے۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ ابھی زندگی میں بہت وقت باقی ہے، ابھی تو انجوائمنٹ کا دور ہے؛ مقصد اور سنجیدگی بڑھاپے کی باتیں ہیں۔ یاد رکھیں ! یہی سوچ دراصل زندگی کا سب سے بڑا دھوکہ ہے، کیونکہ وہ لمحے جو قوت، جوش اور تازگی سے بھرپور ہوتے ہیں، وہی دراصل سب سے قیمتی اور کارآمد ایام ہوتے ہیں۔ جو شخص انہیں غفلت، لہو و لعب یا محض دنیاوی مشاغل کی نذر کر دیتا ہے، وہ اپنی عمر کے سب سے قیمتی سرمایے کو خود ہی ضائع کر دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ جس ’’کل‘‘ کے انتظار میں وہ اپنی اصلاح اور مقصدکو مؤخر کر رہا ہے، وہ کل اس کی زندگی میں آئے گا بھی یا نہیں۔ اس لئے سمجھدار وہی ہے جو اپنے ’’آج‘‘ کو پہچان لے، کیونکہ جو لمحہ ہاتھ میں ہے، وہی زندگی ہے، وہی اصل ہے، باقی سب محض امیدوں کا فریب ہے۔ 
خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم با مقصد زندگی کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہمارا اشارہ اس حقیقت کی طرف ہوتا ہے کہ ہر انسان اپنی حیثیت اور موقع کے لحاظ سے ایک خاص ذمے داری کا حامل ہے۔ اگر وہ اس ذمہ داری سے پہلو تہی کرتا ہے تو اس کی زندگی مقصد و معنی سے خالی محض حرکات و سکنات کا مجموعہ رہ جاتی ہے؛ کیونکہ بامقصد زندگی وہی ہے جس میں انسان اپنی ذمہ داری کو پہچان کر اخلاص کے ساتھ اسے ادا کرنے کی کوشش کرے۔ اسی حقیقت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت جامع انداز میں بیان فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک چرواہا ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائیگا‘‘۔ (بخاری و مسلم) اس حدیث ِ مبارکہ میں گویا پوری انسانی زندگی کا فلسفہ سمو دیا گیا ہے کہ مقصدیت، جوابدہی اور ذمہ داری ہی وہ ستون ہیں جن پر ایک صالح اور کامیاب زندگی کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK