اگر مسلمان ممالک اپنی سیاسی وابستگیوں، اقتصادی مفادات اور داخلی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک مظلوم قوم کی حمایت میں یک زبان ہو جائیں تو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا جاسکتا ہے۔
EPAPER
Updated: May 23, 2025, 3:24 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
اگر مسلمان ممالک اپنی سیاسی وابستگیوں، اقتصادی مفادات اور داخلی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک مظلوم قوم کی حمایت میں یک زبان ہو جائیں تو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا جاسکتا ہے۔
احساس، انسانی زندگی کی روح اور بقا کا بنیادی ستون ہے۔ یہ محض جذباتی کیفیت نہیں بلکہ ایک ایسے باطنی شعور کی علامت ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے۔ احساس کے ذریعہ انسان دوسروں کے درد کو محسوس کرتا ہے، ان کی خوشیوں میں شریک ہوتا ہے اور یوں ایک مربوط سماجی نظام تشکیل پاتا ہے۔ اگر انسان سے احساس چھن جائے تو وہ بظاہر زندہ ہوتے ہوئے بھی باطن میں مردہ ہو جاتا ہے، کیونکہ اس کے اندر کی حرارت، انسانیت کی پہچان اور باہمی ربط کا جوہر ختم ہو جاتا ہے۔
مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو احساس دراصل وہ نکتہ ہے جو انسان کو محض جسمانی وجود سے بلند کر کے ایک معنوی و اخلاقی ہستی میں ڈھالتا ہے۔ اسی وجہ سے اسلامی تعلیمات میں احساس کو بیدار رکھنے پر بہت زور دیا گیا ہے، کیونکہ اسلام انسانیت کو ایک جسم کے مانند قرار دیتا ہے، جس کے کسی ایک حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم بے قرار ہو جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اہل ایمان کی باہمی محبت، رحمت اور ہمدردی کی مثال ایک جسم کی مانند ہے، کہ اگر جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ‘‘ (بخاری)
یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر میں دوسروں کے جذبات، دکھ درد اور ضروریات کا احساس ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔
نبیؐ اکرم کی سیرتِ طیبہ انسانیت کی اعلیٰ ترین مثالوں سے مزین ہے اور آپؐ کی تعلیمات ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ احساس، ہمدردی اور رحم دلی صرف ایمان والوں تک محدود نہیں بلکہ انسانیت کے ہر فرد تک پہنچنی چاہئے، خواہ وہ کسی بھی مذہب، نسل یا قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ ایک روشن مثال اس وقت کی ہے جب کفارِ مکہ قحط سالی اور بھوک کے سخت بحران میں مبتلا ہوئے۔ حالانکہ وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے آپؐ کو ایذا دی، ظلم کئے، آپؐ کو مکہ سے نکالا، اس کے باوجود نبی کریمؐ نے ان کی تکلیف کو محسوس کیا۔ آپؐ نے مدینہ منورہ سے ان کے لئے غلہ بھیجنے کا اہتمام فرمایا، تاکہ انسانیت کی بھوک اور مصیبت کو کم کیا جا سکے۔ (دلائل النبوۃ)
اسلامی فلسفے کے مطابق یہ واقعہ اس عظیم اصول کی نمائندگی کرتا ہے کہ احساسِ انسانیت کسی سرحد، عقیدے یا دشمنی کا پابند نہیں ہوتا۔ یہ وہ باطنی قوت ہے جو انسان کو اپنے نفس کی تنگی سے نکال کر کائناتی وسعت میں لے جاتی ہے، جہاں انسان ہر دکھتی روح کے لئے دوا اور ہر روتی آنکھ کے لئے تسلی بننے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:گرمائی تعطیل اسلامی نہج پر نوعمروں کی تربیت کیلئے سنہرا موقع ہے
سرکار دو عالمؐ کی یہ عملی ہدایت ہمیں سکھاتی ہے کہ سچا احساس وہی ہے جو ردعمل سے پاک ہو، جو محض انسان کی قدر و کرامت کو بنیاد بنائے اور جس کا مقصد انسانیت کی بھلائی ہو، نہ کہ صرف اپنے گروہ کی خیر خواہی۔ اسی طرح یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ نبیؐ کریم نے نہ صرف نظری سطح پر انسانیت کی تعلیم دی بلکہ عملی سطح پر بھی دشمنوں کی بھوک مٹانے جیسے احسانات سے ایک ایسا اخلاقی نمونہ پیش کیا جو رہتی دنیا تک کے لیے قابلِ تقلید ہے۔
اس پس منظر میں انتہائی افسوسناک اور دل کو چیر دینے والی حقیقت یہ ہے کہ آج نبی ٔ رحمتؐ کی امت فلسطینیوں کے درد پر یا تو خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے یا بے حسی کی چادر اوڑھے سو رہی ہے۔ آخر ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم فلسطینی بہن بھائیوں، جوانوں، بوڑھوں، بچوں، ماؤں کو خون میں لت پت دیکھ کر بھی محض بیانات اور مذمتوں تک محدود ہو چکے ہیں ؟ آج جبکہ فلسطین کی خاک لہو سے سرخ ہو چکی ہے اور آسمان معصوم بچوں کی چیخوں سے گونج رہا ہے، امت کا ضمیر یا تو سو چکا ہے یا مردہ ہو چکا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب صرف آنکھوں سے نہیں، دل کے اندر سے بھی آنسو بہنے چاہئیں کہ ہم نے اپنے نبیؐ کی سیرت کو بھلا دیا اور احساس کو محض الفاظ تک محدود کر دیا۔
فلسطین کی موجودہ صورتِ حال نہ صرف دلخراش ہے بلکہ انسانیت کے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان بھی ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، غزہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ۵۳؍ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ سیکڑوں عمارتیں، اسپتال، اسکول اور عبادت گاہیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، غزہ میں ۸۰؍ فیصد سے زائد آبادی انسانی امداد کی شدید محتاج ہے، جبکہ بھوک اور ادویات کی قلت سے حالات روز بروز ابتر ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں عالمی ضمیر کی خاموشی اور مسلم دنیا کی عملی بے بسی، اس المیے کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ یہ صرف ایک انسانی بحران نہیں بلکہ انصاف، احساس اور عالمی اقدار کی کھلی ناکامی کا مظہر ہے، جو چیخ چیخ کر پکار رہا ہے کہ دنیا نے فلسطین کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ ہائے افسوس! وہ فلسطینی جو کبھی خوشحال زندگی گزار رہے تھے، جن کے بچے قہقہوں سے گھروں کو آباد رکھتے تھے، آج وہی لوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیں۔ جن کے چولہوں سے کبھی خوشبو اٹھتی تھی، آج ان کے گھر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ بازار اجڑ چکے ہیں، اسکول ویران ہو چکے ہیں، اور اسپتالوں کی عمارتیں منہدم ہیں، فضا میں زخمیوں کی آہیں اور کراہیں ہیں ، معصوم چہرے جو کبھی خوابوں سے روشن تھے، اب فاقوں سے زرد پڑ چکے ہیں۔ غزہ کی گلیاں آج بھوک، پیاس، خوف اور ماتم کا مرقع بن چکی ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کبھی خود دار تھے، مہمان نواز تھے اور عزت سے جیتے تھےمگر آج عالمی بے حسی اور وحشیانہ جارحیت نے انہیں اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے کہ وہ ایک لقمہ نان کے لئے بھی تڑپ رہے ہیں۔ یہ انسانیت کا زوال نہیں تو اور کیا ہے؟آخر اسرائیل کی جارحیت اور اس کے ناپاک عزائم پر لگام کون لگائے گا؟ یہ سوال صرف سیاسی یا جغرافیائی نہیں، بلکہ انسانی شعور، عالمی ضمیر اور اخلاقی اقدار کے وجود پر بھی ایک گہرا سوالیہ نشان ہے۔ جب ظلم حد سے بڑھ جائے، خون پانی سے سستا ہو جائے، اور عالمی طاقتیں خاموشی کو مصلحت کا نام دے دیں، تو سوال یہ نہیں رہتا کہ ظالم کون ہے، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ انسانیت کہاں ہے؟ فلسفیانہ نظر سے دیکھا جائے تو ہر طاقت اگر اخلاق سے خالی ہو جائے تو وہ درندہ بن جاتی ہے، اور اگر عالمی نظام انصاف سے عاری ہو تو وہ صرف طاقتور کے تحفظ کا آلہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اسرائیل کی بے لگام جارحیت دراصل اسی اخلاقی انحطاط اور دہرے عالمی معیاروں کی پیداوار ہے۔
جب تک انسان اپنے ضمیر کو بیدار نہیں کریگا، اور ظلم کے خلاف بغیر مفادات کے کھڑا ہونے کا حوصلہ پیدا نہیں کرے گا، تب تک ظلم کی زنجیریں مظلوموں کے گلے کا طوق بنی رہیں گی۔ یہ سوال صرف فلسطین کا نہیں، انسانیت کے مستقبل کا ہے۔
اس پس منظر میں دنیا بھر کے مسلمانوں پر ایک بھاری اخلاقی، دینی اور انسانی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف نہ صرف آواز بلند کریں بلکہ اس آواز کو متحد اور منظم انداز میں پوری دنیا تک پہنچائیں۔ فلسطین کا مسئلہ ایک قوم یا خطے کا نہیں ہے۔ یہ امت مسلمہ کی عزت، حمیت اور بیداری کا امتحان ہے۔ آج اگر مسلمان ممالک اپنی سیاسی وابستگیوں، اقتصادی مفادات اور داخلی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صرف ایک مظلوم قوم کی حمایت میں یک زبان ہو جائیں تو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا جا سکتا ہےاور عالمی سطح پر اسرائیل کی جارحیت کو قانونی اور سفارتی محاذ پر چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں اسلامی ممالک کی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ اپنی معاشی طاقت، سفارتی حیثیت اور عالمی فورموں پر اپنے اثر و رسوخ کو استعمال میں لا کر اسرائیل کے خلاف مؤثر کارروائی کا خاکہ تیار کریں۔ او آئی سی جیسے ادارے صرف علامتی اجلاس تک محدود نہ رہیں بلکہ ایک واضح مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیں جس میں بائیکاٹ، پابندیاں، قانونی چارہ جوئی اور عالمی برادری کو متحرک کرنے جیسے عملی اقدامات شامل ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ انصاف پسند اقوام، انسان دوست تنظیمیں اور ضمیر رکھنے والے افراد کو بھی ساتھ ملایا جائے تاکہ اسرائیلی ظلم کو صرف ایک مذہبی مسئلہ نہ سمجھا جائے بلکہ ایک عالمی انسانی بحران کے طور پر لیا جائے اور دُنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ جب تک مسلمان متحد ہو کر اس طرح کے اقدامات نہیں کرینگے، فلسطین کی فریاد صحراؤں میں گونجتی رہے گی، اس کے آگے نہیں نکلے گی۔
ایک طریقہ جو سب کے اختیار میں ہے وہ دُعا کا ہے۔ آئیے! ہم سب مل کر خدا کے دربار میں عاجزی سے ہاتھ اٹھائیں، دل کی گہرائیوں سے دعا کریں اور اس مقدس سرزمین کے لئے امن کی بھیک مانگیں، جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا:’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد ِحرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی، جس کے آس پاس میں ہم نے برکتیں رکھ دی ہیں۔ ‘‘ (بنی اسرائیل: ۱)۔ یہ وہ سرزمین ہے جسے اللہ نے برکت دی، جہاں انبیاء نے سجدے کئے اور جس کی مٹی گواہ ہے شہداء کے لہو کی۔