انسان کو اللہ عزوجل نے بے شمار صلاحیتوں کا مالک بنایا ہے۔ آج ہم ماضی و حال کے بہت سے انسانوں کے متعلق پڑھتے ہیں کہ انہوں نے فلاں فلاں محیر العقول کارنامے انجام دئیے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کامیابی کے حصول کے لئے مستقل کوششیں کی تھیں۔
EPAPER
Updated: May 23, 2025, 3:29 PM IST | Dr. Mujahid Nadwi | Mumbai
انسان کو اللہ عزوجل نے بے شمار صلاحیتوں کا مالک بنایا ہے۔ آج ہم ماضی و حال کے بہت سے انسانوں کے متعلق پڑھتے ہیں کہ انہوں نے فلاں فلاں محیر العقول کارنامے انجام دئیے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کامیابی کے حصول کے لئے مستقل کوششیں کی تھیں۔
انسان کو اللہ عزوجل نے بے شمار صلاحیتوں کا مالک بنایا ہے۔ آج ہم ماضی و حال کے بہت سے انسانوں کے متعلق پڑھتے ہیں کہ انہوں نے فلاں فلاں محیر العقول کارنامے انجام دئیے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کامیابی کے حصول کے لئے مستقل کوششیں کی تھیں۔ اللہ عزوجل کا ایک غیر معلنہ نظام اس کائنات میں یہ ہے کہ انسان جس مقصد کے حصول کے لئے کوشش میں لگا رہتا ہے، دیر سویر سہی، انسان کو اللہ عزوجل اس مقصد میں کامیابی ضرور عطا فرماتا ہے۔ اس لئے کہ ثابت قدمی اور مضبوط ارادہ ہی وہ عادتیں ہیں جن کا رشتہ کامیابی سے بہت اٹوٹ اور گہرا ہے۔
اسی بات کو جب ہم کلامِ الٰہی میں تلاش کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ قرآن مجید میں حضور اکرمؐ کو اپنے عزم وارادے پر مکمل وثوق کے ساتھ جم جانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ انسانی زندگی کے ہر مرحلے کو اللہ رب العزت کی قدرت سے جوڑتا ہے تاکہ انسان یہ بات ہمیشہ یادرکھے کہ وہ چاہے کتنا ہی مضبوط وطاقتور کیوں نہ بن جائے، اللہ تعالیٰ کے درکا محتاج ہے۔ اسی لئے عزم مصمم کی تعلیم دیتے ہوئے اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: ’’پھر جب تم رائے پختہ کرکے کسی بات کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ اللہ یقیناً توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘ (آل عمران:۱۵۹)
امام طبریؒ، اللہ عزوجل کے اس حکم کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’اور اللہ عزوجل کا یہ فرمانا کہ جب تم رائے پختہ کرکے کسی بات کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہماری رہنمائی وہدایت کی روشنی میں آپؐ کا ارادہ ایک سمت پاچکا ہو، تو جو حکم ہم نے آپ کو دیا ہے، اس پر اسی طریقے سے عمل کیجئے جیسا کہ حکم دیا گیا ہے، چاہے ساتھیوں کی رائے اور ان کے مشورے اس کے موافق ہوں یا مخالف۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے:مسئلۂ فلسطین اُمت ِمسلمہ کےاحساسِ بیداری کا امتحان ہے!
دراصل اللہ کے رسول کریمؐ اور صحابہ کرامؓ کو جس معاشرے اور قوم سے سابقہ پڑا تھا وہ ظلم کے معاملے میں تاریخ کی ایک بے دل اور احساس سے عاری قوم تھی۔ جس طرح میدان جنگ میں ان کی تلواریں چلتی تھیں، اسی طرح امن کے دنوں میں ان زبانیں نشتر کی طرح کام کرتی تھیں۔ اور ہر کوئی جانتا ہے کہ تنقید کس طرح ایک انسان کے حوصلوں کو پست کرتی ہے۔ ایسی قوم سے مقابلے کے لئے پہاڑ جیسا مستحکم ارادہ ہی کام آسکتا تھا۔ اسی لئے اللہ عزوجل نے اہل ایمان کو اس صفت سے خود کو مزین کرنے کا حکم دیا۔ سورۃ المائدہ (۵۴) میں مومنین کی تعریف کرتے ہوئےوارد ہوا کہ: ’’وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ ‘‘ یعنی جب ان کو اطمینان ہوجاتا ہے کہ وہ حق پر ہیں تو پھر چاہے کوئی ان پرتنقیدکی کتنی ہی بوچھارکردے، ان پہاڑوں جیسے حوصلے والوں کے قدموں میں ذرا بھی جنبش پید انہیں ہوتی، وہ کسی بھی صورت متزلزل نہیں ہوتے۔
ثابت قدمی اور پکے ارادے کے متعلق بات کرتے وقت اگر ہم اس عنصر کو تلاش کریں جو انسان کے یقین اور اس کے عزم وحوصلے کو سب سے زیادہ پست کرتی ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ شیطانی وسوسہ ہے جو نیکی کے کاموں میں سب سے زیادہ حائل ہوتا ہے۔ اسی لئے قرآن مجید کی تلاوت کے آغاز میں ہی شیطان مردود کے شرسے پناہ مانگنے کا عمل سکھایا گیا۔ اس کے باوجود بھی اگر ابلیس کے پینترے انسان کے ذہن کو بھٹکانے لگیں تو اسلام نے اس کے اور بھی علاج بتلائے ہیں۔ مثلاً نماز میں اگر شیطان یہ بات بھلادے کہ رکعت دو ہوئی ہیں یا تین، تو نماز پڑھنے والے کو غور کرنے اور اپنی صوابدید پر فیصلہ کرکے جس طرف رجحان زیادہ ہو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا گیاہے۔ مقصد یہ ہے کہ شیطان، مومنین کو حق سے دور کرنے میں کامیاب نہ ہو۔
اس طرح کا ثابت قدم اور مطمئن دل ہی شیطان کے وسوسوں کا منہ توڑ جواب دے کر اعمالِ خیر کی راہ پر گامزن رہتا ہے یہاں تک کہ اس دنیا سے وداعی کا وقت آجاتا ہے اور رب کریم کی طرف سے ’’اے نفسِ مطمئن، تو اس حالت میں اپنے پروردگار کی طرف چل کہ تواس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ‘‘ کا پروانہ حاصل ہوجاتا ہے۔ اسی لئے ہمیں ایمان لانے کے بعد اسلامی احکامات میں جس چیز پر سب سے زیادہ زور ملتا ہے وہ ہے ’’استقامت۔ ‘‘ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: ’’ جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ‘‘ (الفصلت:۳۰) ایمان پر یہ ثابت قدمی اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ ہر ایمان والے کو نیکی پر بھی اسی طرح جم جانا چاہئے اور اپنے عزم اور ارادے میں کسی قسم کا رعشہ برداشت نہیں کرنا چاہئے۔ ایک حدیث شریف میں آپؐ نے بہترین عمل اس کو قرار دیا جس پر ہمیشہ کیاجائے پھر چاہے وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ یہ کام وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں جو نیکی کے ارادے سے ہٹنا بالکل بھی برداشت نہیں کرتے۔
استقامت اور مداومت اور پختہ یقین و عمل کی بات کرتے وقت یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں صرف ایمان اور نیک عمل کے سلسلے میں ہی ارادہ مضبوط رکھنا چاہئے۔ اگر کوئی شخص گناہ کے کام کرے، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے اور پھر یہ کہے کہ میں مکمل پابندی کے ساتھ اس کو انجام دوں گا، تو اسلام اس طرح کی باتوں کی حمایت نہیں کرتا بلکہ سختی کے ساتھ ان سے منع کرتا ہے۔ ایک طویل حدیث میں تین صحابہؓ نے تین الگ الگ عزم کئے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ساری زندگی شادی نہیں کروں گا اور مجرد زندگی گزاروں گا تاکہ اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ بندگی کر سکوں۔ دوسرے نے کہا کہ میں ساری زندگی رات بھر نہیں سوؤں گا اور اللہ اللہ کیا کروں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں ساری زندگی بلاناغہ روزے رکھوں گا۔ لیکن یہ تینوں امور اسلام کی روح اور اسلام کی مبنی بر اعتدال تعلیمات کے خلاف تھے۔ جب آپؐ کو اس کا علم ہوا تو آپؐ نے ان تینوں کی بات کو سختی کے ساتھ رد کیا اور ان امور سے منع فرمادیا۔ اس لئے کہ اسلام غلط کاموں پر جم جانے اور ان پر ثابت قدم رہنے کی تلقین نہیں کرتا اور اگر کوئی اس طرح کے کام انجام دینے کی کوشش کرتا ہے تو اسے منع بھی کردیتا ہے۔
ان ساری باتوں کے بعد اب ہمیں اپنی روزمرہ کی زندگی کی طرف لوٹنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ انفرادی طورپر بھی اور اجتماعی طور پر بھی ہم کتنے پھسپھسے اور کمزور ارادے والے ثابت ہو رہے ہیں۔ تعلیم کا مسئلہ ہو یا تجارت کا، مجبوروں کی مدد کی بات ہو یا رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق نبھانے کی، نیکی کے ہر شعبہ میں ہماری استقامت، ثابت قدمی اور ہمارادوام قصۂ ماضی بن چکا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر بھلائی، نیکی اور دنیوی اور اخروی ترقی کے کاموں سے باز آجانا ہماری عادت بن چکی ہے۔ اِس کا خمیازہ ہم دینی و دنیوی طور پر پچھڑے پن کا شکار ہوکر چکا رہے ہیں۔ جبکہ مذہب اسلام دینی اور دنیوی نیکی اور بھلائی کے ہر معاملے میں ہمیں ثابت قدمی اور مضبوطی سے اپنے عزم وارادے پر جمے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ائے کاش کہ ہم مستقل مزاجی کی ان تعلیمات کو سمجھیں اور خیر کے ہر کام میں ان پر عمل پیرا ہوجائیں تو ہماری دنیا بھی سنور جائے گی اور آخر ت بھی، ان شاء اللہ۔