سورئہ یوسف کی افادیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس میں ایک مومن کیلئے امید، حوصلہ اور کامیابی کا پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک فرد کی کس کس طرح سے مدد کرتا ہے اور بالآخر اسے منزلِ مقصود تک پہنچا کر رہتا ہے خواہ بظاہر اسے کیسے ہی مصائب کا سامنا ہو۔ (قسط:۱)
EPAPER
Updated: May 10, 2024, 3:58 PM IST | Prof. Muhammad Ayaz Khan | Mumbai
سورئہ یوسف کی افادیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس میں ایک مومن کیلئے امید، حوصلہ اور کامیابی کا پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک فرد کی کس کس طرح سے مدد کرتا ہے اور بالآخر اسے منزلِ مقصود تک پہنچا کر رہتا ہے خواہ بظاہر اسے کیسے ہی مصائب کا سامنا ہو۔ (قسط:۱)
سورئہ یوسف کا قرآنِ حکیم میں ایک منفرد مقام ہے۔ اس میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ سارے کا سارا ایک ہی جگہ اور ایک ہی ساتھ بیان کردیا گیا ہے، جب کہ کتاب اللہ میں دوسرے قصص کا اسلوب اور انداز یہ ہے کہ موضوع سخن کے لحاظ سے جہاں ضروری ہو وہاں اتنا ہی بیان کردیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے قصۂ یوسف دیگر قصص قرآنی سے منفرد، ممتاز اور نمایاں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے ’احسن القصص‘ قرار دیا گیا ہے۔
سورئہ یوسف کی افادیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس میں ایک مومن کیلئے امید، حوصلہ اور کامیابی کا پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک فرد کی کس کس طرح سے مدد کرتا ہے اور بالآخر اسے منزلِ مقصود تک پہنچا کر رہتا ہے خواہ بظاہر اسے کیسے ہی مصائب کا سامنا ہو۔ بندہ تو کوشش کی حد تک مکلف ہے، معاملات کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے تو انسان مایوس نہیں ہوتا، کسی ذہنی اُلجھن کا شکار نہیں ہوتا، اور اپنے فرض کی ادائیگی کیلئے مستعد رہتا ہے۔ اسی طرح اُمت مسلمہ کو آج جن مصائب کا سامنا ہے اور جس آزمائش سے وہ دوچار ہے، سورئہ یوسف کے مطالعے سے یہ اُمید اور حوصلہ ملتا ہے کہ بالآخر حق غالب آکر رہتا ہے بظاہر حالات کتنے ہی غیرموافق اور کیسے ہی مصائب کا سامنا ہو۔ اہلِ ایمان کے خلاف کیسے ہی حربے آزمائے جائیں اور تدابیر کی جائیں بالآخر اللہ کی تدبیر ہی غالب آکر رہتی ہے۔ گویا اس دورِ فتن میں اس سورہ کا مطالعہ اہلِ ایمان کیلئے تزکیہ و تربیت، ہمت و حوصلے کا ساماں اور دلوں کیلئے ایک ولولۂ تازہ ہے۔
احسن القصص
عربی زبان کے بلندپایہ ادیب اور مفسرِ قرآن سید قطب شہیدؒ اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں اس قصے کی علمی، ادبی اور فنی خوبیوں کو اُجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ جس طرح قرآن حکیم میں لایا گیا ہے وہ اسلام کے منہج ِقصہ گوئی کی ایک حسین، عمدہ اور خوب صورت مثال ہے۔ اس میں انسانی فطرت، نفسیات، جذبات، نظریات، حرکات اور تاثرات کی عکاسی کی گئی ہے، اور یہ اسلام کے طرزِ تعلیم و تربیت، نیز اسلامی دعوت کے مقاصد کو بھی خوب بیان کرتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں قصص لانے کا انداز عموماً ایک سا ہی ہے لیکن حضرت یوسف ؑ کے قصے کا اپنے طرزِ ادائیگی کے لحاظ سے اور فنی خوبیوں کے اعتبار سے ایک مخصوص انداز ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ اس قصے کے بعض اہم پہلوئوں کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’عام طور پر لوگ ان قصوں سے بہت دلچسپی لیتے ہیں جن میں کچھ چاشنی حسن و عشق کی ہو لیکن ایسے قصے بالعموم اخلاق کو بگاڑنے والے ہوتے ہیں۔ اس قصے کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں حسن و عشق کی چاشنی بھی ہے اور پھر پوری سرگزشت ہر پہلو سے حضرت یوسف ؑ کے اعلیٰ کردار و صفات کا ایک مرقع ہے۔ جو مواقع خاص آزمائش کے آئے ہیں ان میں حضرت یوسف ؑ نے اپنی اعلیٰ فطرت کے جو جوہر نمایاں کئے ہیں وہ ایسے شاندار ہیں کہ ہر پڑھنے والے کے اندر ان کی تقلید کا جذبہ اُبھرتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ یہ تقلید ناممکن نہیں بلکہ ممکن محسوس ہوتی ہے۔ ‘‘(تدبر قرآن، ج۳، ص ۴۳۱)
یہ بھی پڑھئے: رب العالمین کے قوانین و سنن زندگی پر حکمراں ہیں
اس سورہ کی ضرورت و اہمیت اور شانِ نزول پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اس طرح روشنی ڈالتے ہیں کہ ’’اس سورہ کے مضمون سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ بھی زمانۂ قیامِ مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی، جبکہ قریش کے لوگ اس مسئلے پر غور کر رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) قتل کردیں، یا جلاوطن کریں یا قید کر دیں۔ اس زمانے میں بعض کفارِ مکہ نے (غالباً یہودیوں کے اشارے پر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لینے کیلئے آپؐ سے سوال کیا کہ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا کیا سبب ہوا؟ چونکہ اہلِ عرب اس قصے سے ناواقف تھے، اس کا نام و نشان تک ان کے ہاں کی روایات میں نہ پایاجاتا تھا اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سناگیا تھا، اس لئے انھیں توقع تھی کہ آپؐ یا تو اس کا مفصل جواب نہ دے سکیں گے، یا اس وقت ٹال مٹول کرکے بعد میں کسی یہودی سے پوچھنے کی کوشش کریں گے، اور اس طرح آپ کا بھرم کھل جائے گا لیکن اس امتحان میں کفار کو الٹی منہ کی کھانی پڑی۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ فوراً اسی وقت یوسف علیہ السلام کا یہ پورا قصہ آپؐ کی زبانِ مبارک پر جاری کردیا، بلکہ مزیدبرآں اس قصے کو قریش کے اُس معاملے پر چسپاں بھی کر دیا جو وہ برادرانِ یوسف ؑ کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر رہے تھے۔ ‘‘ (تفہیم القرآن، دیباچہ، سورئہ یوسف)
اس سورہ میں باپ کی محبت، بھائیوں کا سوتیلاپن، سگے بھائیوں کا آپس کا پیار، گمراہ انسانوں کی ظالمانہ فطرت، ان کی سازشیں اور چالیں، آزاد خیال اور اُونچے طبقے کی خواتین کی علاحدہ معاشرتی اقدار اور ان کا اخلاقی دیوالیہ پن، اس طبقے کے مردوں کے دُہرے کردار اور پھر انسانی شرمندگیاں و ندامتیں، معافیاں، جدائیاں، ملاپ اور انسانی فطرت کے مختلف پہلوئوں پر ہر زاویے سے خوب روشنی ڈالی گئی ہے۔ انسانی جذبۂ جنس اور اس کی حدود کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ قصہ اسلامی ادب کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس کا انداز فنی ہے۔ اس میں حیرت کا اظہار (Creation Of Suspense) بھی پایا جاتا ہے اور انسانی فطرت کی عکاسی بھی موجود ہے۔ غرض یہ اسلامی ادب کی حدود تحفظات واقعیت، صداقت اور صحت مند مواد کا ایک عظیم سرمایہ ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو احسن القصص کا نام دیا ہے۔ سورئہ یوسف کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس سے بہت سے اسباق اور نصائح اخذ ہوتے ہیں۔ یہاں چند پہلوئوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:
اللہ کی مدد اور نگرانی
اللہ تعالیٰ انبیا علیہم السلام کی خصوصی نگرانی اور تربیت فرماتے ہیں۔ اسی لئے ان پر وحی کا مسلسل نزول ہوتا ہے۔ پیغمبرانہ مشن، زندگی کی تگ و دو، کٹھن حالات اور مصائب و آلام میں ان کو ہمت و حوصلہ، استقامت و استقلال اور ایمان و یقین کی دولت عطا کی جاتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے اسوہ میں ہمیں بارہا ایسے مواقع نظر آتے ہیں۔ حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے انہیں اندھے کنویں میں پھینک دیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کی کہ ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی حرکت بتائے گا، یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں۔ (یوسف :۱۵) اسی طرح عزیز ِ مصر کی بیوی نے جب انہیں رِجھانے کی کوشش کی تو اللہ نے ان کی مدد کی۔ بظاہر انہیں جیل میں قید کیا گیا لیکن یہی جیل ان کے لئے عظمت و سربلندی کا ذریعہ ثابت ہوئی۔
برادرانِ یوسف ؑ اپنے بھائی یوسف ؑ کو کنویں میں پھینک کر اپنے والد یعقوب علیہ السلام کے پاس پہنچے اور ان کے سامنے یوسف ؑکو بھیڑیے کے کھا جانے کا ڈراما رچایا تو بوڑھے باپ پیغمبر یعقوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ہمت و حوصلہ عطا فرمایا اور انہوں نے کہا میں اس پر صبر کروں گا اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگوں گا۔ (:۱۷-۱۸) اسی طرح جب حضرت یوسف ؑ مصر سے اپنے والد یعقوب ؑ کے لئے اپنی قمیص روانہ کرتے ہیں، تو یہ ایک نشانی تھی کہ یوسف ؑ زندہ ہیں۔ حضرت یعقوب ؑ کنعان میں ان کی خوشبو سونگھ لیتے ہیں۔ پھر جب خوش خبری لانے والا آیا تو اس نے یوسف ؑ کا قمیص حضرت یعقوب ؑ کے منہ پر ڈال دیا اور یکایک ان کی بینائی لوٹ آئی۔ ایک عام انسان کیلئے بھی اس میں رہنمائی ہے کہ انسان کو زندگی میں پیش آنے والی رکاوٹوں اور آزمائشوں سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ اگر وہ اپنے رب کی رضا اور خوشنودی کے پیش نظر جدوجہد کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی رہنمائی اور مدد کرتا ہے اور بالآخر وہ اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ کر رہتا ہے۔
آزمائش: تربیت اور سربلندی کا ذریعہ
بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کٹھن، غیرمعمولی اور آزمائش کے حالات میں مبتلا کر کے انسان کی تعلیم و تربیت اور آئندہ کی قسمت تعمیر کرتے ہیں۔ اللہ کے نبی یوسف ؑ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس آیت قرآنی کا بھی یہی مفہوم ہے:
’’اس طرح ہم نے یوسف ؑکیلئے اس سرزمین (مصر) میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔ ‘‘ (۲۰)۔ کنعان اور شمالی عرب کے علاقے میں اس وقت نہ کوئی منظم ریاست تھی اور نہ تمدن و تہذیب نے کوئی بڑی ترقی کی تھی۔ کچھ آزاد قبائل تھے جو وقتاًفوقتاً ہجرت کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو یوسف ؑسے جو کام لینا تھا، اس کی تعلیم و تربیت کیلئے انہیں ریگستان سے نکال کر مصر جیسے تہذیب یافتہ ملک میں پہنچایا۔ اس تجربے اور بصیرت کے حصول کے لئے قسمت یوسف ؑ کو سلطنت ِ مصر کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے گھر لے آئی۔ اس شخص نے یوسف ؑ کی صلاحیتوں کو دیکھ کر اپنی جاگیر یا ریاست کا انتظام ان کے حوالے کر دیا۔ اس طرح ایک چھوٹی سی ریاست کے ذریعے انہیں وہ انتظامی اور سیاسی تجربہ حاصل ہوگیا جو آئندہ ایک بڑی ریاست کے امور سنبھالنے کیلئے ضروری تھا۔ ذراسوچئے اس سورۃ میں کتنی گہرائی ہے اور کس کس اندازمیں ہمارے لئے رہنمائی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: قرآن میں آزمائشوں کے بارے میں مسلمانوں کو خبردار کردیا گیا ہے
سورہ یوسفؑ اس سورہ میں آزاد خیال طبقے کی تصویر بھی دکھائی گئی ہے اور اس زمانے میں مصر کے اُونچے طبقے کی خواتین کی معاشرتی و اخلاقی حالت کا نقشہ بھی کھینچا گیا ہے:
’’جب [زلیخا کے] شوہر نے دیکھا کہ یوسف ؑکا قمیص پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو اس نے [یوسف ؑ کی پاک دامنی ثابت ہوتے اور زلیخا کے جرم کو دیکھ کر] کہا: یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں، واقعی بڑے غضب کی ہوتی ہیں تمہاری چالیں۔ یوسف ؑ اس معاملے سے درگزر کر اور اے عورت تو اپنے قصور کی معافی مانگ، تو ہی اصل میں خطاکار تھی۔ ‘‘ ( ۲۷-۲۹)
قاریٔ قرآن کو مزید باخبر کرنے کے مقصد سے اُس وقت کی زنانِ مصر کی ایک تکیہ دار مجلس کا منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبت نے اس کو بے قابو (دیوانہ) کر رکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے۔ پس جب اس (زلیخا) نے ان کی مکارانہ باتیں سنیں (تو) انہیں بلوا بھیجا اور ان کے لئے مجلس آراستہ کی (پھر ان کے سامنے پھل رکھ دیئے) اور ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری دے دی اور (یوسف علیہ السلام سے) درخواست کی کہ ذرا ان کے سامنے سے (ہوکر) نکل جاؤ (تاکہ انہیں بھی میری کیفیت کا سبب معلوم ہو جائے)، سو جب انہوں نے یوسف (علیہ السلام کے حسنِ زیبا) کو دیکھا تو اس (کے جلوۂ جمال) کی بڑائی کرنے لگیں اور وہ (مدہوشی کے عالم میں پھل کاٹنے کے بجائے) اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور (دیکھ لینے کے بعد بے ساختہ) بول اٹھیں : اﷲ کی پناہ! یہ تو بشر نہیں ہے، یہ تو بس کوئی برگزیدہ فرشتہ (یعنی عالمِ بالا سے اترا ہوا نور کا پیکر) ہے۔ ‘‘ (۳۰-۳۱)
یہ اس وقت کے مصر کی اُونچے طبقے کی عورتوں کی اخلاقی اور معاشرتی حالت تھی کہ ایک پُررونق مجلس امرا ءو اولیاء مصری خواتین کی سجائی گئی اور اس میں زلیخا نے اپنے خوب صورت محبوب کو دکھایا اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ تم بتائو میں ایسے حسین نوجوان پر نہ مروں تو کیا کروں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آزاد منش، عیاش، آوارہ مزاج اور جنسی ہوس کے شکار لوگوں کا رویہ اور بے باکی، ہر دور میں ایک ہی رہی ہے۔ یہ کوئی نئی چیز، روشن خیالی، نرمی اور نئی تہذیب نہیں ہے بلکہ پرانی اور گھسی پٹی تاریک خیالی، تنزل، بدتہذیبی اور جاہلیت اور دقیانوسیت ہی ہے۔
آزمائش میں مومن کا رویہ
اس سورہ میں متقی، پرہیزگار اور نیک لوگوں کے ایمان کی وہ کیفیت بھی بیان کی گئی ہے جو آزمائش کے مرحلے میں ان کی ہوتی ہے کہ ان کا خدا پر ایمان اور اپنے اُوپر ضبط کمال کا ہوتا ہے۔ ان پر بڑے سے بڑا حربہ ناکام ہوتا ہے۔ وہ نازک لمحات میں بڑے سے بڑے لالچ و ترغیب میں نہیں پھنستے۔ ایسے موقع پر بھی وہ خدا سے مدد، توفیق اور دُعا کرتے ہیں۔ ان کا خدا پر یقین پختہ ہوتا ہے اور ان کے دل و دماغ پر خدا کا احساس ہر وقت طاری رہتا ہے، اور زبان پر خدا کا ذکر جاری ہوتا ہے یہاں تک کہ گناہِ کبیرہ سے بچنے کے لئے بڑی سے بڑی تکلیف قید تک کو قبول کرلیتے ہیں۔ ذیل کی آیات میں ایمان اور آزمائش کی کشمکش کی طرف واضح اشارہ کیا گیا ہے:
’’عزیز کی بیوی نے (اپنی محفل کی سہیلیوں سے) کہا: دیکھ لیا! یہ ہے وہ شخص جس کے معاملے میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں۔ بے شک میں نے اسے رِجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا۔ اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہوگا۔ (حضرت) یوسف ؑنے کہا: اے میرے رب، مجھے قید منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں، اور اگر تو‘ نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جائوں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں گا۔ ‘‘ (۳۲-۳۴)
اس حالت میں یہ خدا پرست نوجوان جس کامیابی کے ساتھ ان شیطانی ترغیبات کا مقابلہ کرتا ہے وہ بجائے خود کچھ کم قابلِ تعریف نہیں ہے۔ مگر ضبطِ نفس کے اس حیرت انگیز کمال پر عرفانِ نفس اور طہارتِ فکر کا مزید کمال یہ ہے کہ اس پر بھی اس کے دل میں کبھی یہ متکبرانہ خیال نہیں آتا کہ واہ رے، کیسی مضبوط ہے میری سیرت کہ ایسی ایسی حسین اور جوان عورتیں میری گرویدہ ہیں اور پھر بھی میرے قدم نہیں پھسلتے۔ اس کے بجائے وہ اپنی بشری کمزوریوں کا خیال کر کے کانپ اُٹھتا ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ خدا سے مدد کی التجا کرتاہے کہ اے رب، میں ایک کمزور انسان ہوں، میرا اتنا بل بوتا کہاں کہ ان بے پناہ ترغیبات کا مقابلہ کر سکوں، تو مجھے سہارا دے اور مجھے بچا، ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے قدم پھسل نہ جائیں۔ درحقیقت یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اخلاقی تربیت کا اہم ترین اور نازک ترین مرحلہ تھا۔ دیانت، امانت، عفت، حق شناسی، راست روی، انضباط اور توازن ذہنی کی غیرمعمولی صفات جو اَب تک ان کے اندر چھپی ہوئی تھیں اور جن سے وہ خود بھی بے خبر تھے، وہ سب کی سب اس شدید آزمائش کے دَور میں اُبھر آئیں، پورے زور کے ساتھ کام کرنے لگیں اور انہیں خود بھی معلوم ہوگیا کہ ان کے اندر کون کون سی قوتیں موجود ہیں اور وہ ان سے کیا کام لے سکتے ہیں۔ ‘‘ (تفہیم القرآن، ج۲، ص ۳۹۸-۳۹۹)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی شخص کو شرائط ِ انصاف کے مطابق عدالت میں مجرم ثابت کئے بغیر بس یونہی پکڑ کر جیل بھیج دینا، بے ایمان حکمرانوں کا پرانا وطیرہ رہا ہے۔ اس معاملے میں بھی آج کے شیاطین چار ہزار برس پہلے کے اشرار سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ فرق اگر ہے تو بس یہ کہ وہ ’جمہوریت‘ کا نام نہیں لیتے تھے، اور یہ اپنے اِن کرتوتوں کے ساتھ یہ نام بھی لیتے ہیں۔ وہ قانون کے بغیر اپنی غیرقانونی حرکتیں کیا کرتے تھے، اور یہ ہر ناروا اور بے جا زیادتی کیلئے پہلے ایک قانون بنا لیتے ہیں۔
حکمت ِ دعوت
قیدخانے میں حضرت یوسف ؑ کی سیرت و کردار سے متاثر ہوکر دو قیدی اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھنے کے لئے آپ ؑ کے پاس آتے ہیں۔ موقع کا فائدہ اُٹھا کر اللہ کے نبی یوسف ؑاپنی دعوتِ توحید ان کے سامنے نہایت ہی دانائی، حکمت، مؤثر اور مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کو ان کے خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں، آپ ؑنے فرمایا:
’’اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے۔ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباواجداد نے رکھ لئے ہیں۔ اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لئے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی راست اور سیدھا طریق زندگی ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ ( ۳۹-۴۰)
اس سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کے سامنے دعوتِ دین پیش کرنے کا صحیح ڈھنگ کیا ہے۔ حضرت یوسف ؑچھوٹتے ہی دین کے تفصیلی اصول اور ضوابط پیش کرنے شروع نہیں کر دیتے بلکہ ان کے سامنے دین کے اُس نقطۂ آغاز کو پیش کرتے ہیں جہاں سے اہلِ حق کا راستہ اہلِ باطل کے راستے سے جدا ہوتا ہے، یعنی توحید اور شرک کا فرق۔ پھر اس فرق کو وہ ایسے معقول طریقے سے واضح کرتے ہیں کہ عقلِ عام رکھنے والا کوئی شخص اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خصوصیت کے ساتھ جو لوگ اس وقت ان کے مخاطب تھے ان کے دل و دماغ میں تو تیر کی طرح یہ بات اُتر گئی، کیونکہ وہ نوکر پیشہ غلام تھے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات کو خوب محسوس کرسکتے تھے کہ ایک آقا کا غلام ہونا بہتر ہے یا بہت سے آقائوں کا، اور سارے جہان کے آقا کی بندگی بہتر ہے یا بندوں کی بندگی۔ پھر وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ اپنا دین چھوڑو اور میرے دین میں آجائو، بلکہ ایک عجیب انداز میں ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو، اللہ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنے سوا ہم کو کسی کا بندہ نہیں بنایا مگر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور خواہ مخواہ خود گھڑگھڑ کر اپنے رب بناتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنے مخاطبوں کے دین پر تنقید بھی کرتے ہیں، مگر نہایت معقولیت کے ساتھ اور دل آزاری کے ہر شائبے کے بغیر۔ بس اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ معبود جن میں سے کسی کو تم اَن داتا، کسی کو خداوند نعمت، کسی کو مالکِ زمین اور کسی کو ربِّ دولت یا مختارِ صحت و مرض وغیرہ کہتے ہو، یہ سب خالی خولی نام ہی ہیں۔ ان ناموں کے پیچھے کوئی حقیقی اَن داتائی و خداوندی اور مالکیت و ربوبیت موجود نہیں ہے۔ اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے جسے تم بھی کائنات کا خالق و رب تسلیم کرتے ہو، اور اُس نے اِن میں سے کسی کے لئے بھی خداوندی اور معبودیت کی کوئی سند نہیں اتاری ہے۔ اس نے تو فرماں روائی کے سارے حقوق اور اختیارات اپنے ہی لئے مخصوص رکھے ہیں اور اس کا حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: نیند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک اور عظیم نعمت ہے
تدبیر اور توکل:اس قصے میں تدبیر اور توکل کا سبق بھی موجود ہے۔ انسان کو اپنے کام نہایت ہی سوچ بچار، تدبیر، احتیاط، منصوبہ بندی اور تمام حالات کا جائزہ لے کر شروع کرنے چاہئیں اور اللہ پر بھروسا و توکل کرکے نتیجہ اس اعلیٰ ذات پر چھوڑ دینا چاہئے۔ اس کے بعد جو بھی نتیجہ نکلے اسے اللہ کی مشیت اور مرضی سمجھ کر قبول کرلینا چاہئے۔ جیساکہ حضرت یعقوب ؑنے اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے بچوں کو مصر میں داخلے کے وقت احتیاطاً مختلف دروازوں سے داخل ہونے کی ہدایت کی مگر ان کی تدبیر اللہ کی مشیت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آسکی۔
یہ صحیح توازن اپنی باتوں میں اور اپنے کاموں میں صرف وہی شخص قائم کرسکتا ہے جو حقیقت کا علم رکھتا ہو۔ جو یہ بھی جانتا ہو کہ حیاتِ دنیا کے ظاہری پہلو میں اللہ کی بنائی ہوئی فطرت انسان سے کس سعی و عمل کا تقاضا کرتی ہے، اور اس سے بھی واقف ہو کہ اس ظاہر کے پیچھے جو حقیقتِ نفس الامری پوشیدہ ہے اس کی بنا پر اصل کارفرما طاقت کون سی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اپنی سعی و عمل پر انسان کا بھروسا کس قدر بے بنیاد ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (تفہیم القرآن)
دین کی وسعت: سورۂ یوسف میں ملکی قانون (Law of Land) کے لئے اللہ تعالیٰ نے دین کا لفظ استعمال کیا ہے:
’’وہ اپنے بھائی کو بادشاہِ (مصر) کے قانون کی رو سے (اسیر بنا کر) نہیں رکھ سکتے تھے مگر یہ کہ (جیسے) اﷲ چاہے۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں۔ ‘‘ (یوسف :۷۶)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دین کی وسعت بیان کی ہے کہ دین مذہبی عبادت کے ساتھ قانون، عدالت، سیاست، معیشت، معاشرت اور انسانی تمدن تک حاوی ہے۔ جس طرح نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، دین ہیں اسی طرح ملکی قانون، شریعت، عدالتی امور، ملکی نظم و نسق اور انتظامی امور بھی دین میں شامل ہیں۔ پس انبیاءؑ کی دعوت محض چند مذہبی رسومات، اور عقائد تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تو زندگی کے تمام شعبوں سیاسیات، معاشیات، عمرانیات، قانون و عدالت اور مکمل تہذیب و تمدن کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
عظمت ِ کردار: سورئہ یوسف میں حضرت یوسف ؑ کی ایک دعا کا تذکرہ بھی ہے۔ اپنے خواب کی تعبیر سچ ہونے پر انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کی:
’’اے میرے رب! بیشک تو نے مجھے سلطنت عطا فرمائی اور تو نے مجھے خوابوں کی تعبیر کے علم سے نوازا، اے آسمانوں اور زمین کے پیدا فرمانے والے! تو دنیا میں (بھی) میرا کارساز ہے اور آخرت میں (بھی)، مجھے حالت ِ اسلام پر موت دینا اور مجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا دے۔ ‘‘ (۱۰۱)
یہ چند فقرے جو اس موقع پر حضرت یوسف ؑ کی زبان سے نکلے ہیں ہمارے سامنے ایک سچے مومن کی سیرت کا عجیب دلکش نقشہ پیش کرتے ہیں۔ صحرائی گلہ بانوں کے خاندان کا ایک فرد، جس کو خود اس کے بھائیوں نے حسد کے مارے ہلاک کر دینا چاہا تھا، زندگی کے نشیب و فراز دیکھتا ہوا بالآخر دنیوی عروج کے انتہائی مقام پر پہنچ گیا ہے۔ اس کے قحط زدہ اہلِ خاندان اب اس کے دست نگر ہوکر اس کے حضور آئے ہیں اور وہ حاسد بھائی بھی، جو اس کو مار ڈالنا چاہتے تھے، اس کے تخت شاہی کے سامنے سرنگوں کھڑے ہیں۔ یہ موقع دنیا کے عام دستور کے مطابق فخر جتانے، ڈینگیں مارنے، گلے اور شکوے کرنے، اور طعن و ملامت کے تیر برسانے کا تھا۔ مگر ایک سچا خداپرست انسان اس موقع پر کچھ دوسرے ہی اخلاق ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے اس عروج پر فخر کرنے کے بجائے اس خدا کے احسان کا اعتراف کرتا ہے جس نے اسے یہ مرتبہ عطا کیا۔ وہ خاندان والوں کو اُس ظلم وستم پر کوئی ملامت نہیں کرتا جو اوائل عمر میں انھوں نے اس پرکئے تھے۔ اس کے برعکس وہ اس بات پر شکر ادا کرتا ہے کہ خدا نے اتنے دنوں کی جدائی کے بعد ان لوگوں کو مجھ سے ملایا۔ حاسد بھائیوں کے خلاف شکایت کا ایک لفظ زبان سے نہیں نکالتا، حتیٰ کہ یہ بھی نہیں کہتا کہ انھوں نے میرے ساتھ برائی کی تھی۔ بلکہ ان کی صفائی خود ہی اس طرح پیش کرتا ہے کہ شیطان نے میرے اور ان کے درمیان برائی ڈال دی تھی۔ چند الفاظ میں یہ سب کچھ کہہ جانے کے بعد وہ بے اختیار اپنے خدا کے آگے جھک جاتا ہے، اس کا شکر ادا کرتا ہے کہ تو نے مجھے بادشاہی دی اور آخر میں خدا سے کچھ مانگتا ہے تویہ کہ دنیا میں جب تک زندہ رہوں تیری بندگی و غلامی پر ثابت قدم رہوں، اور جب اس دنیا سے رخصت ہوں تو مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملا دیا جائے۔ کس قدر بلند اور کتنا پاکیزہ ہے یہ نمونۂ سیرت۔
حق غالب آکر رہتا ہے!: ’’اس قصے سے قرآنِ حکیم ایک اور گہری حقیقت بھی انسان کے ذہن نشین کرتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ بہرحال پورا ہوکر رہتا ہے۔ انسان اپنی تدبیروں سے اُس کے منصوبوں کو روکنے اور بدلنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی جب ان کو کنویں میں پھینک رہے تھے تو ان کا گمان تھا کہ ہم نے اپنی راہ کے کانٹے کو ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا۔ مگر فی الواقع انہوں نے یوسف ؑ کو اُس بامِ عروج کی پہلی سیڑھی پر اپنے ہاتھوں لاکھڑا کیا جس پر اللہ ان کو پہنچانا چاہتا تھا اور اپنی اس حرکت سے انہوں نے خود اپنے لئے اگر کچھ کمایا تو بس یہ کہ یوسف ؑ کے بامِ عروج پر پہنچنے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے بھائی کی ملاقات کو جاتے انھیں ندامت و شرمساری کے ساتھ اسی بھائی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ عزیزمصر کی بیوی یوسف ؑ کو قیدخانے بھجواکر اپنے نزدیک تو اُن سے انتقام لے رہی تھی، مگر فی الواقع اس نے ان کے لئے تخت ِ سلطنت پر پہنچنے کا راستہ صاف کیا اور اپنی اس تدبیر سے خود اپنے لئے اس کے سوا کچھ نہ کمایا کہ وقت آنے پر فرماں روائے ملک کی مربیہ کہلانے کے بجائے اس کو علی الاعلان اپنی خیانت کے اعتراف کی شرمندگی اُٹھانا پڑی۔ یہ محض دوچار مستثنیٰ واقعات نہیں ہیں بلکہ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جو اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ اللہ جسے اٹھانا چاہتا ہے، ساری دنیا مل کر بھی اس کو نہیں گرا سکتی۔ اس کے برعکس خدا جسے گرانا چاہتا ہے اسے کوئی تدبیر سنبھال نہیں سکتی، بلکہ سنبھالنے کی ساری تدبیریں اُلٹی پڑتی ہیں اور ایسی تدبیریں کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ اس حقیقت ِ حال کو اگر کوئی سمجھ لے تو اسے پہلا سبق تو یہ ملے گا کہ انسان کو اپنے مقاصد اور اپنی تدابیر، دونوں میں اُن حدود سے تجاوز نہ کرنا چاہئے جو قانونِ الٰہی میں اس کےلئے مقرر کردی گئی ہیں۔
دوسرا اہم سبق اس سے توکل علی اللہ اور تفویض الی اللہ کا ملتا ہے۔ جو لوگ حق اور صداقت کے لئے سعی کر رہے ہوں اور دنیا انہیں مٹا دینے پر تلی ہوئی ہو وہ اگر اِس حقیقت کو پیش نظر رکھیں تو انہیں اس سے غیرمعمولی تسکین حاصل ہوگی، اور مخالف طاقتوں کی بظاہر نہایت خوفناک تدبیروں کو دیکھ کر وہ قطعاً ہراساں نہ ہوں گے۔
مگر سب سے بڑا سبق جو اس قصے سے ملتا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک مردِ مومن اگر حقیقی اسلامی سیرت رکھتا ہو اور حکمت سے بھی بہرہ یاب ہو، تو وہ محض اپنے اخلاق کے زور سے ایک پورے ملک کو فتح کرسکتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کو دیکھئے، ۱۷ برس کی عمر، تن تنہا، بے سروسامان، اجنبی ملک اور پھر کمزوری کی انتہا یہ کہ غلام بناکر بیچے گئے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ ایک شدید اخلاقی جرم کا الزام لگا کر انھیں جیل بھیج دیا گیا۔ اس حالت تک گرا دیئے جانے کے بعد وہ محض اپنے ایمان اور اخلاق کے بل پر اُٹھتے ہیں اور بالآخر پورے ملک کو مسخر کرلیتے ہیں۔ (تفہیم القرآن)