• Sun, 28 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشیانہ: ’زیرو کلک‘ اور اے آئی جوابات کے سبب بدلتی ڈجیٹل معیشت

Updated: December 28, 2025, 12:44 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

اب گوگل صرف راستہ دکھانے والا پلیٹ فارم نہیں رہا بلکہ خود جواب دینے والا پلیٹ فارم بنتا جا رہا ہے، اسلئے سرچ ٹریفک پر انحصار کرنےوالی کمپنیوں کا نقصان ہورہا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ایک زمانہ تھا جب انٹرنیٹ کی دنیا میں کمپنیوں کیلئے کامیابی کا مطلب ایک ہی تھا: گوگل سے آنے والا ٹریفک۔ سرچ کیجئے، لنک پر کلک کیجئے، ویب سائٹ کھولئے اور مطلوبہ معلومات دیکھ لیجئے۔ یوں خبروں، بلاگز، تعلیمی پورٹلز اور کاروباری ویب سائٹس کی معیشت چلتی رہتی تھی مگر اب یہ ماڈل خاموشی سے بکھر رہا ہے۔ وجہ ہے گوگل کی نئی اے آئی حکمتِ عملی جسے ماہرین Google Traffic Apocalypse (گوگل ٹریفک اپوکالیپس) یا Zero-Click Nightmare (زیرو کلک نائٹ میئر) کہہ رہے ہیں۔ 
اہم سوال یہ ہے کہ زیرو کلک کیا ہے؟ اور یہ مسئلہ کیوں بنا؟ آج جب صارف گوگل پر کوئی سوال لکھتا ہے، پھر چاہے وہ صحت کے متعلق ہو، تعلیم کا ہو، کاروبار کا ہو، موسم کا ہو یا سفر کا، اس کا جواب اکثر سرچ پیج پر ہی مل جاتا ہے۔ نہ کسی ویب سائٹ پر جانا پڑتا ہے اور نہ ہی کسی لنک پر کلک کرنا ہوتا ہے۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ گوگل کے اے آئی جوابات نے سرچ پیج ہی پر معلومات کو خلاصے کی صورت میں پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ صارف کیلئےیہ سہولت ہے، وقت بچتا ہے، اور جواب فوراً مل جاتا ہے مگر ویب سائٹس کیلئے یہ ایک معاشی جھٹکا ہے۔ یہ انڈسٹری آہستہ آہستہ دب رہی ہے۔ دنیا بھر میں ڈجیٹل پبلشرز(نیوز پورٹلز، تعلیمی بلاگز، ہیلتھ اور فنانس سائٹس وغیرہ) کا انحصار سرچ ٹریفک پر تھا۔ اشتہارات، سبسکرپشن، اسپانسرڈ مواد، سب کلک سے جڑے تھے۔ اب گوگل صرف راستہ دکھانے والا پلیٹ فارم نہیں رہا بلکہ خود جواب دینے والا پلیٹ فارم بنتا جا رہا ہے۔ 
یورپ اور امریکہ میں کئی ادارے رپورٹ کر چکے ہیں کہ ان کے آرگینک ٹریفک میں نمایاں کمی آئی ہے اور اشتہارات سے آمدنی گھٹی ہے جس سے عملے میں کٹوتیاں کی جارہی ہیں۔ خیال رہے کہ یہ محض میڈیا کا مسئلہ نہیں، یہ ڈجیٹل معیشت کا مسئلہ ہے۔ ہندوستان میں ہندی، اردو اور علاقائی زبانوں کی ہزاروں ویب سائٹس ہیں جو طلبہ، روزگار کے متلاشیوں، چھوٹے کاروباروں اور عام قارئین کیلئے معلومات فراہم کرتی ہیں۔ ان میں سے اکثر چھوٹے یا درمیانے درجے کے ادارے اور گوگل ایڈسینس پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ ایس ای او اور سرچ ٹریفک پر قائم ہیں۔ جب صارف کو ’’آئی اے ایس امتحان کی عمر کی حد‘‘ یا ’’شوگر کنٹرول کے طریقے‘‘ گوگل سرچ پیج پر ہی مل جائیں، تو وہ کوئی ویب سائٹ کیوں کھولے گا؟ مگر یہ سوال صرف ٹریفک کا نہیں، زبانوں کی بقا کا بھی ہے۔ 
گوگل کہتا ہے کہ وہ صارف کے تجربے کو بہتر بنا رہا ہے لیکن یہ بات جزوی طور پر درست ہے۔ صارف کو تیز، سادہ اور براہِ راست معلومات ملتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا صارف کی سہولت کی قیمت پوری انڈسٹری ادا کرے؟ یہ وہی کہانی ہے جو ٹیکنالوجی کی تاریخ میں بار بار دہرائی گئی ہے، یعنی پلیٹ فارم طاقتور ہوا اور چھوٹے کھلاڑی دب گئے۔ فرق یہ ہے کہ اس بار داؤ پر علم، معلومات اور آزاد آوازیں ہیں۔ ڈجیٹل بزنس اب ایک مشکل موڑ پر کھڑا ہے، اور یہ ماڈل کمزور پڑ رہے ہیں : صرف ایس ای او پر مبنی ویب سائٹس، کم معیار، ری رائٹ یا سطحی مواد، اور صرف کلک بیسڈ اشتہارات۔ جبکہ یہ ماڈل آگے بڑھ سکتے ہیں :مضبوط برانڈ شناخت (جسے لوگ جانتے اور مانتے ہوں )، سبسکرپشن اور ممبرشپ، گہرائی سے تجزیہ، تحقیق اور رائے (جو اے آئی آسانی سے نہیں دے سکتا) اور ویڈیو، پوڈکاسٹ اور کمیونٹی پر مبنی پلیٹ فارمز۔ اہم بات یہ ہےکہ ہندوستانی میڈیا کیلئے یہ بحران بھی ہے اور موقع بھی۔ یہ اپنی قدر نئے سرے سے ثابت کرنے کا وقت ہے۔ 
ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ صارفین کیلئے کتنا مفید ہے؟ قلیل مدت میں صارف کو فائدہ ہے؛ کم وقت میں موبائل پر ہی جواب مل جاتا ہے۔ طویل مدت میں خدشات ہیں، مثلاً ایک ہی ذریعۂ معلومات پر انحصار، محدود نقطۂ نظر، اور چھوٹی اور آزاد آوازوں کا خاتمہ۔ اگر زیرو کلک کے سبب ہزاروں ویب سائٹس بند ہو گئیں تو معلومات پر اجارہ داری بڑھے گی اور تنوع کم ہو جائے گا۔ یہ محض’ٹریفک کا بحران‘ نہیں، ڈجیٹل طاقت کی ازسرِنو تقسیم ہے۔ یاد رکھئے کہ گوگل اب صرف سرچ انجن نہیں رہا؛ وہ بیک وقت ایڈیٹر، ناشر اور فیصلہ ساز بنتا جا رہا ہے۔ 
اصل سوال یہ نہیں کہ گوگل بدل گیا ہے یا نہیں ؟ اصل سوال یہ ہے کہ کاروبار اور میڈیا خود کو کیسے بدلیں گے؟کیونکہ ایک بات واضح ہے :کلکس کا دور اب زوال کی جانب گامزن ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK