Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشیانہ: دس منٹ میں رعایتی گروسری: روایتی کرانہ اسٹورز کیلئے خطرہ؟

Updated: August 17, 2025, 12:30 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

گروفرس نے اپنا نام ’’بلنک اِٹ‘‘ کرلیا اور ۹۰؍ منٹ کے بجائے ۳۰؍ منٹ میں اشیاء کی ڈیلیوری کرنے لگا۔ اسے یومیہ ایک لاکھ ۲۵؍ ہزار سے زائد آرڈر موصول ہونے لگے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

’’اب آپ کو گروسری خریدنے کیلئے گھر کے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے ایپ پر آرڈر کیجئے، ۹۰؍ منٹ میں سامان آپ کے دروازے پر ہوگا۔ ‘‘ اس پیغام کے ساتھ ہندوستان میں کوئک کامرس (تیزی سے خرید و فروخت، کیو کامرس) خدمات کا آغاز ہوا تھا۔ یہ پس منظردہلی ۲۰۱۳ء کا ہے اور متذکرہ ایپ کا نام تھا ’’گروفرس۔ ‘‘ اس کمپنی نے مختلف کرانہ اسٹورز کو اپنے ایپ سے جوڑنے کا کام کیا تاکہ اطراف کے لوگوں کو گروسری خریدنے کیلئے دکان پر نہ جانا پڑے۔ چند برسوں تک ہندوستانی مارکیٹ میں اسی کا دبدبہ تھا مگر ۲۰۱۶ء میں ’’ڈونزو‘‘ کی آمد ہوئی۔ اس دوران ’’گروفرس‘‘ نے اپنا بزنس ماڈل تبدیل کرلیا، یعنی اب اس نے اسٹور روم بنالئے اور کرانہ اسٹورز سے جزوی طور پر علاحدگی اختیار کرلی۔ کووڈ ۱۹؍ کے وبائی حالات سے قبل تک اس کمپنی کا منافع ۲۵۰۰؍ کروڑ روپے تک پہنچ گیا تھا۔ تاہم، وبائی حالات نے کوئک کامرس کانقشہ بدل دیا۔ 
گروفرس نے اپنا نام ’’بلنک اِٹ‘‘ کرلیا اور ۹۰؍ منٹ کے بجائے ۳۰؍ منٹ میں اشیاء کی ڈیلیوری کرنے لگا۔ اسے یومیہ ایک لاکھ ۲۵؍ ہزار سے زائد آرڈر موصول ہونے لگے۔ ۲۰۲۴ء تک اس میدان میں متعدد اسٹارٹ اپس آگئے، جیسے زیپٹو، سویگی انسٹا مارٹ اور فلپ کارٹ منٹس جن سے مقابلہ کرنے کیلئے بلنک اٹ نے ۱۰؍ سے ۱۵؍ منٹ میں اشیاء پہنچانا شروع کردی۔ ہندوستان بھر میں یہ چار بڑی کمپنیاں ۲؍ کروڑ سے زائد صارفین تک ان کی اشیاء ۱۰؍ سے ۲۰؍ منٹ میں پہنچاتی ہیں۔ بلنک اِٹ کا مارکیٹ شیئر ۴۰؍  فیصد ہے اور سب سے زیادہ آرڈر اسے ہی موصول ہوتے ہیں۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کے ۱۰۰؍ سے زائد شہروں میں ہے اور ایک کروڑ ۶۰؍ لاکھ صارفین کی خدمت کرتی ہے جبکہ دیگر تین کمپنیاں (زیپٹو، سویگی انسٹامارٹ، فلپ کارٹ منٹس) کو مجموعی طور پر ۴؍ لاکھ ۳۰؍ ہزار آرڈر موصول ہوتے ہیں۔ 
کیا ان کمپنیوں کی آمد کی وجہ سے ملک میں کرانہ اسٹورز کی تعداد کم ہوگئی ہے یا ان کے منافع میں کمی آئی ہے؟ درجنوں سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ کیو کامرس کی آمد سے روایتی کرانہ اسٹور کا منافع نہ صرف کم ہوا ہے بلکہ گزشتہ سال ملک بھر میں ۲؍ لاکھ سے زائد کرانہ اسٹور بند بھی ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ کیو کامرس کمپنیاں کرانہ اسٹور کے ساتھ کاروبار کرنے کے ساتھ شہر کے مختلف حصوں میں اپنا اسٹور روم بھی بناتی ہیں۔ ان کی وجہ سے کرانہ اسٹور کا کاروبار متاثر ہوتا ہے۔ ڈیٹم انٹیلی جنس کی رپورٹ کہتی ہے کہ کیو کامرس نے کرانہ اسٹورز کو ۱ء۴۶؍ بلین ڈالر (کم و بیش ڈیڑھ کھرب روپے) کا نقصان پہنچایا ہے۔ 
تشویشناک بات یہ ہے کہ کیو کامرس کمپنیوں کو بھی منافع نہیں ہورہا ہے جس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان کے آپریشنل اخراجات زیادہ ہیں کیونکہ انہیں اسٹور رومز، ڈیلیوری دینے والا بڑا عملہ، اور بڑے پیمانے پر فعال سافٹ ویئر کی دیکھ بھال کرنے کیلئے خطیر رقم خرچ کرنی ہوتی ہے۔ یہ لاگتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں کیونکہ کیو کامرس کمپنیاں تیزی سے وسیع ہوتی جارہی ہے۔ بیشتر صارفین ایک سے ۲؍ اشیاء خریدتے ہیں جس پر کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں صفر منافع ہوتا ہے۔ ان کا ڈیلیوری کرنے والا عملہ اکثر مناسب قانونی اور سماجی تحفظ کے بغیر کام کرتا ہے، اور مختصر وقت (۱۰؍ سے ۲۰؍ منٹ) میں آرڈر ڈیلیور کرنے کی کوشش میں حادثات کے خطرات کا سامنا کرتا ہے۔ کیو کامرس کمپنیاں ہفتے بھر ۲۴؍ گھنٹے کام کرتی ہیں۔ ایسا چنندہ شہروں میں ہے البتہ ان کے کام عام اوقات صبح ۶؍ بجے سے رات ۱۱؍ بجے تک ہیں۔ ممبئی جیسے میٹرو شہروں میں ان کمپنیوں کا عملہ رات بھر ڈیلیوری پہنچاتا ہے، پھر چاہے شدید سردی ہو یا موسلا دھار بارش۔ 
رات کے ڈیڑھ دو بجے گھر کے پُرسکون ماحول میں بیٹھے جب کچھ کھانے یا پینے کا دل کررہا ہو تو ذہن میں فوراً آتا ہے کہ ’’بلنک اِٹ‘‘ ہے نا جو پلک جھپکتے ہی مطلوبہ سامان آپ تک پہنچا دے گا۔ اس صورتحال میں اسمارٹ فون اٹھایئے، اسکرین پر چند جگہوں پر کلک کیجئے، اور یوں آرڈر مکمل ہوگیا۔ آرڈر دینے والا یہ نہیں سوچتا کہ ڈیلیوری بوائے شدید موسم میں کن حالات میں اس تک پہنچے گا۔ سکے کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ وہ ملازم ہے اور اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے یہ کام کرنا اس کی مجبوری ہے۔ مگر اس ضمن میں کمپنیاں اتنا تو کرہی سکتی ہیں کہ انہیں سماجی اور قانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کریں۔ گروسری ڈیلیوری کے ’’۱۵؍ منٹ کے انقلاب‘‘ نے کیو کامرس کمپنیوں کو کسی حد تک مستحکم ضرور کیا ہے لیکن اس کے سبب خود ان کے منافع اور روایتی کرانہ اسٹورز کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے کیونکہ سستے اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ ہندوستانی صارفین کی خرید و فروخت کی عادات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ اس صورتحال میں کیو کامرس شعبے کے منفی یا مثبت مستقبل کے متعلق یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK