یہ گروپ عالمی معیشت سے متعلق اہم مسائل جیسے بین الاقوامی مالیاتی استحکام، موسمیاتی تبدیلیوں میں تخفیف اور پائیدار ترقی کے حل کیلئے کام کرتا ہے، ہندوستان اس گروپ کا تشکیل کے وقت ہی سے رکن ہے لیکن میزبانی پہلی بار ملی ہے۔
EPAPER
Updated: September 17, 2023, 4:41 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
یہ گروپ عالمی معیشت سے متعلق اہم مسائل جیسے بین الاقوامی مالیاتی استحکام، موسمیاتی تبدیلیوں میں تخفیف اور پائیدار ترقی کے حل کیلئے کام کرتا ہے، ہندوستان اس گروپ کا تشکیل کے وقت ہی سے رکن ہے لیکن میزبانی پہلی بار ملی ہے۔
۲۰۲۳ء میں ہونے والی جی ۲۰؍ کانفرس کی غیرمعمولی کامیابی کے بعد اب اس کے آئندہ اجلاس کی میزبانی برازیل کرے گا۔ دسمبر ۱۹۹۹ء یعنی جی ۲۰؍ کی تشکیل ہی سے ہندوستان اس گروپ کا حصہ ہے۔ تاہم، پہلی مرتبہ اس نے دنیا کے اہم اور طاقتور لیڈران کی میزبانی کی ہے۔ اس گروپ میں یورپی اور افریقی یونین کے علاوہ ارجنٹائنا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، ہندوستان، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، کوریا، میکسیکو، روس، سعودی عربیہ، جنوبی افریقہ، ترکی، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں ۔ یہ گروپ عالمی معیشت سے متعلق اہم مسائل جیسے بین الاقوامی مالیاتی استحکام، موسمیاتی تبدیلیوں میں تخفیف اور پائیدار ترقی کے حل کیلئے کام کرتا ہے۔ اس طاقتور گروپ کی عالمی جی ڈی پی میں شراکت ۸۵؍ فیصد، بین الاقوامی تجارت میں ۷۵؍ فیصد اور دنیا کی آبادی میں دو تہائی ہے۔یہ ایک بڑا گروپ ہے جو عالمی معیشت کو مستحکم کرنے اور دنیا میں امن و امان قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ تاہم، اس گروپ کے دیگر ممالک کے ساتھ ہندوستان کا موازنہ کافی دلچسپ ہے۔
آبادی کے معاملے میں (۱۴۲؍ کروڑ ) ہمارا ملک سرفہرست ہے جبکہ چین دوسرے اور یورپی یونین (جو ۲۷؍ ممالک کا مجموعہ ہے جس کی آبادی ۴۴؍ کروڑ سے زائد ہے) تیسرے نمبر پر ہے۔
فی کس جی ڈی پی کے معاملے میں سب سے کمزور ہندوستان ہے، یعنی یہاں کام کرنے والا ہر شہری ملک کی معیشت میں صرف ۷؍ ہزار ۹۶؍ روپے کی شراکت داری کرتا ہے جبکہ اس معاملے میں امریکہ سر فہرست ہے جہاں ایک شہری ۶۴؍ہزار ۷۰۳؍ روپے کی شراکت داری کرتا ہے۔ ہم سے پہلے انڈونیشیا ہے جہاں کے ایک شہری کی شراکت داری ۱۲؍ہزار ۴۱۰؍ روپے ہے۔ ہمارے اورانڈونیشیا کے درمیان ۵؍ہزار ۳۱۴؍ روپے کا فرق ہے۔
صحت کے شعبے میں بھی ہندوستان سب سے کمزور ہے۔ یہ اپنی جی ڈی پی کا صرف ۳؍ فیصد اس شعبے پر خرچ کرتا ہے۔ یہاں بھی ہم سے پہلے انڈونیشیا ( جی ڈی پی کا ۳ء۴؍ فیصد) ہے۔ اس محاذ پر بھی سب سے مستحکم امریکہ ہے جس کی شراکت داری ۱۸ء۸؍ فیصد ہے۔
جی ڈی پی میں تعلیمی اخراجات کا فیصد سب سے کم ترکی اور جاپان کا ہے۔ اس کے بعد انڈونیشیا (۳ء۵؍ فیصد)، چین (۳ء۶؍ فیصد)، روس (۳ء۷؍ فیصد)، میکسیکو اور اٹلی(۴ء۳؍ فیصد)، پھر ہندوستان (۴ء۵) کا نمبر آتا ہے۔ اس محاذ پر سب سے آگے سعودی عربیہ (۷ء۸؍ فیصد) ہے۔
انٹرنیٹ تک رسائی کے معاملے میں ارجنٹائنا سر فہرست ہے جہاں کی ۸۷ء۲؍ فیصد آبادی انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔ ۴۶ء۳؍ فیصد آبادی کے ساتھ ہم آخری نمبر پر ہیں ۔فوج پر سب سے زیادہ خرچ (جی ڈی پی کا ۶ء۶؍ فیصد) سعودی عربیہ کرتا ہے۔ ۲ء۷؍ فیصد کے ساتھ ہم ۵؍ ویں نمبر پر ہیں ۔
گرین ہاؤس گیس اخراج معاملے میں چین سرفہرست ہے جس نے ایک کروڑ ۳۰؍ لاکھ کلو ٹن گیس خارج کی ہے۔ اس معاملے میں ۳۲؍ لاکھ کلو ٹن کے ساتھ ہم تیسرے نمبر پر ہیں ۔ واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار ۲۰۲۰ء تا ۲۰۲۲ء کے ہیں ، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستان متعدد محاذوں پر کمزور ہے۔ اگر ہماری حکومت اپنے دعوؤں کے مطابق صرف عوام کی سہولیات اور بہتری کیلئے کام کرتی ہے تو ہمیں متعدد محاذوں پر مضبوط ہونا چاہئے تھا۔
جی ۲۰؍ عالمی معیشت میں ۸۵؍ فیصد کی شراکت داری کررہا ہے اور یہی گروپ آلودگی بھی سب سے زیادہ پھیلا رہا ہے۔ ہر سال آلودگی کے سبب عالمی معیشت کو ۲ء۶؍ ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جی ۲۰؍ کی طرز پر جتنے بھی گروپ ہیں ، سبھی اپنے مثبت اقدامات اور نتائج دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں ، جو درست بھی ہے کیونکہ انہوں نے عالمی معیشت کو مستحکم کرنے جیسا اہم کام انجام دیا ہے لیکن انہیں اپنے گروپ کے نقصانات مثلاً آلودگی میں ان کا اشتراک، ان ممالک میں صحافتی آزادی، نقل و حمل کے ذرائع، عوام کی قوت خرید، غربت، بے روزگاری، بنیادی انفرا اسٹرکچر کا فقدان،وغیرہ کے بارے میں بھی دنیا کو آگاہ کرنا چاہئے۔ انہیں ان مسائل پر گفتگو کرکے اس کے اہم نکات عوام کے سامنے پیش کرنے چاہئیں اور انہیں یہ بتانا چاہئے کہ وہ ان کی فلاح و بہبود کیلئے کیا کام کررہے ہیں ۔ چونکہ جی ۲۰؍ میں دنیا کے بڑے ممالک شامل ہیں ، اسلئے دنیا کو ان سے امیدیں بھی زیادہ ہیں ۔ یورپی یونین اور افریقی یونین کے ممالک کو ملا کر جی ۲۰؍ میں کل ۱۰۱؍ جبکہ پوری دنیا میں ۱۹۵؍ ممالک ہیں ۔ جی ۲۰؍ میں آپ کو ان تمام ممالک کے نام ملیں گے جن کے بارے میں دنیا کا ایک بڑا حصہ جانتا ہے۔ اگر اس گروپ کے ’طاقتور‘ ممبران دنیا کے بنیادی مسائل کو ختم یا کم کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے اپنی اپنی معیشت کو مستحکم کرنے یا اپنی امارت ظاہر کرنے اور اسے بڑھانے کیلئے ہر سال صرف کانفرس ہی کرتے رہے تو یہ ایک ایسی عظیم الشان تقریب ہوگی جس میں ایک میزبان ملک خطیر رقم خرچ کرکے سربراہان مملکت کو ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرے گا جہاں پرتکلف عشائیہ کے بعد وہ اپنے اپنے ملک کی راہ لیں ۔ زمینی حقائق سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوگا اور نہ ہی اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے۔ واضح رہے کہ ہندوستان نے جی ۲۰؍ پر ۴۱۰۰؍ کروڑ روپے خرچ کئے ہیں ۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ آخر اتنا خرچ کس قیمت پر کیا گیا ہے؟