Inquilab Logo

معاشیانہ: جیٹ کی دوبارہ اُڑان کیونکر ممکن ہوئی!

Updated: October 01, 2023, 2:23 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

اپریل ۲۰۱۹ء میں ملک کی مشہور ایئرلائن کمپنیوں میں شمار کی جانےو الی جیٹ ایئرویز نے اپنے تمام آپریشنز اس لئے بند کردیئے تھے کہ کمپنی پر ۱ء۲؍ بلین ڈالر کا قرض تھا اورکمپنی اپنی بقاء کیلئے جدوجہد کررہی تھی۔ چونکہ یہ کاروباری معاملہ خالص ہندوستانی نہیں تھا بلکہ اس میں نیدرلینڈس کی بھی دو کمپنیاں شامل تھیں اس لئے اسے ملکی سطح پر ختم نہیں کیا جاسکتا تھا۔

Jet Airways is have always spent more than his income, leading to deep debt. Photo: INN
کہا جاتا ہے کہ جیٹ نے ہمیشہ اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کیا، جس کی وجہ سے قرض میں ڈوبتی چلی گئی۔ تصویر:آئی این این

اپریل ۲۰۱۹ء میں ملک کی مشہور ایئرلائن کمپنیوں میں شمار کی جانےو الی جیٹ ایئرویز نے اپنے تمام آپریشنز اس لئے بند کردیئے تھے کہ کمپنی پر ۱ء۲؍ بلین ڈالر کا قرض تھا اورکمپنی اپنی بقاء کیلئے جدوجہد کررہی تھی۔ چونکہ یہ کاروباری معاملہ خالص ہندوستانی نہیں تھا بلکہ اس میں نیدرلینڈس کی بھی دو کمپنیاں شامل تھیں اس لئے اسے ملکی سطح پر ختم نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ این سی ایل ٹی (نیشنل کمپنی لاء اپیلٹ ٹریبونل) نے سرحد پار دیوالیہ پن کی کارروائی کی اجازت دی جس کے تحت ڈچ انتظامیہ بھی اس میں شامل ہے۔ اس دوران ملک اور بیرون ملک کی چند بڑی کمپنیوں نے جیٹ کو خریدنے کی کوشش کی لیکن اس کے مالی حالات کو دیکھتے ہوئے اپنا ارادہ ترک کردیا۔
گزشتہ دنوں خبریں آئیں کہ جالان کالراک کنسورشیم (جے کے سی) اس کے مالکانہ حقوق حاصل کرچکا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ ۲۰۲۴ء میں جیٹ ایئرویز دوبارہ اڑان بھرے گا۔ خیال رہے کہ اس تعلق سے جے کے سی نے باقاعدہ کوئی بیان نہیں دیا ہے۔
 ہندوستانی ایئر لائن جیٹ ایئرویز اس سال کے آخر تک متحدہ عرب امارات کے بزنس مین مراری لال جالان اور برطانیہ کی کالراک کپیٹل پارٹنرس (جالان کالراک کنسورشیم) کی ملکیت ہوگی۔ کمپنی کو دوبارہ فعال کرنے کیلئے بنائے گئے منصوبے کے مطابق کنسورشیم نے ۳۱؍ اگست ۲۰۲۳ء کو قرض خواہوں کو ۳۵۰؍ کروڑ روپے میں سے ۱۰۰؍ کروڑ روپے ادا کر دیئے ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کنسورشیم نے پائلٹ، اسٹاف اور مینوفیکچررز سے ملاقاتوں کا آغاز کردیا ہے تاکہ۴؍ سال بعد جیٹ کی پروازوں کو بحال کیا جاسکے۔ابتداء ۶؍ طیاروں سے ہوگی اور آئندہ ۵؍ سال میں ان کی تعداد ۱۲۰؍ تک بڑھائی جائے گی۔ 
 اگر ہندوستان کو ایئرلائن کمپنیوں کا قبرستان کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ گزشتہ ۲؍ دہائی میں ملک کی ۱۵؍ ایئر لائن کمپنیاں بند ہوچکی ہیں ، جن میں کنگ فشر، ایئر ڈیکن، ایئر انڈیا کارگو، انڈین ایئرلائنس اور سہارا کے نام قابل ذکر ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام کمپنیوں میں ایک نکتہ مشترک ہے، وہ یہ کہ اپنے بزنس کے کسی نہ کسی موڑ پر ان کا انضمام ہوا تھا۔ کنگ فشر نے ایئر ڈیکن کے ساتھ انضمام کیا تھا۔ اس نے ایئر ڈیکن میں چند تبدیلیاں کیں اور پھر چند برسوں بعد ہی دونوں کمپنیاں بند ہوگئیں ۔ ایئر انڈیا اور انڈین ایئرلائنس جب تک انفرادی کمپنیوں کے طور پر اپنے امور انجام دے رہی تھیں ، دونوں کامیاب تھیں لیکن انضمام کے بعد ایئر انڈیا کے قدم اکھڑنے لگے۔ ۲۰۲۱ء میں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہندوستان کی پہلی ایئرلائن کمپنی (ایئر انڈیا) اب پرواز نہیں کرسکے گی لیکن ٹاٹا گروپ نے اسے خرید لیا، اور اب امید ہے کہ آئندہ چند برسوں میں یہ ایک منافع بخش کمپنی بن جائے گی۔ 
جیٹ ایئرویز نے ۲۰۰۷ء میں سہارا کے ساتھ انضمام کیا تھا۔ ابتداء میں سب ٹھیک نظر آرہا تھا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ جیٹ ایئرویز کی مشکلات بڑھنے لگیں اور ۲۰۱۹ء میں اسے مکمل طور پر اپنا کاروبار بند کرنا پڑا۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایئر لائن بزنس (خاص طور پر ہندوستان) میں ’’انضمام اور حصولیابی‘‘ ایک خطرناک کاروباری قدم ہوسکتا ہے۔ جیٹ ایئرویز کے ساتھ کئی مشکلات تھیں جن میں سے ایک سہارا کو خریدنا تھا، جو اس وقت ۵۰۰؍ ملین ڈالر میں خریدی گئی تھی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سہارا اپنی قدر سے زیادہ قیمت پر فروخت کی گئی تھی۔ جیٹ نے سہارا کا نام تبدیل کرکے اسے ’’جیٹ لائٹ‘‘ کردیا تھا۔ اب آپ سوچئے کہ اُس وقت ہندوستان کے ہر خاص وعام کی زبان پر ’’سہارا‘‘ کا نام تھا، جیٹ نے اس کی ’’ری برانڈنگ‘‘ کرکے عوام کے ذہنوں کو بدلنے کی کوشش کی جبکہ ہندوستانی اس کیلئے تیار نہیں تھے چنانچہ سہارا کے ساتھ ان کا رابطہ منقطع ہوگیا اور انہوں نے جیٹ لائٹ کو قبول نہیں کیا۔ اسی طرح جیٹ ایئرویز کے بانی نریش گوئل نے اپنے آپ کو ’’عقلِ کُل‘‘ سمجھنے کی غلطی کی۔ وہ جیٹ کے تمام انتظامات خود سنبھالنا چاہتے تھے جبکہ ایئرلائن کمپنی کو سنبھالنے کیلئے باقاعدہ ایک مالی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیٹ کے پاس ایسی کوئی ٹیم نہیں تھی۔ یاد رہے کہ طیاروں کو محو پرواز رکھنے کیلئے زمین پر فنڈز کا بہاؤ مسلسل اور بہتر طریقے سے ہونا چاہئے لیکن نریش گوئل نے اس حقیقت کو نظر انداز کرنے کی غلطی کی اور ناقص مالی مینجمنٹ کے سبب کمپنی دیوالیہ ہوگئی۔ 
 ایئر لائن کمپنیاں اپنی پروازوں میں بزنس، فرسٹ، پریمیم اکنامی اور اکنامی سیکشن اس لئے بناتی ہیں کہ ایک ہی طیارے میں ملک کے مختلف طبقوں کو مختلف داموں میں پرواز کی سہولت دی جائے۔ تقریباً سبھی ایئر لائنس متوسط ​​طبقے کو مد نظر رکھتے ہوئے قیمتیں ہر ممکن حد تک کم رکھنے کی کوشش کرتی ہیں مگر جیٹ ایئرویز میں ایسا نہیں تھا۔ نریش گوئل کی قیادت میں جیٹ نے ہمیشہ اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کیا، اور قرض میں ڈوبتی چلی گئی۔
واضح رہے کہ ۲؍ ستمبر ۲۰۲۳ء کو کینرا بینک کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر کے تحت منی لانڈرنگ کیس (جیٹ ایئرویز) میں انفورسٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے جیٹ ایئرویز کے بانی نریش گوئل کو گرفتار کرلیا تھا۔ فی الحال وہ جیل میں ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ اگر جیٹ ایئرویز کے معاملے میں نیدرلینڈس کی کمپنیاں (جن کے دنیا کے کئی ممالک میں اہم اور بڑی کمپنیوں سے روابط ہیں ) شامل نہیں ہوتیں تو کیا جیٹ ایئرویز دوبارہ پرواز کے قابل ہوتی؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK