بظاہر یہ ایک شادی ہے، مگر اصل میں یہ ایک قسم کا ’معاہدہ‘ یا ’ڈیل‘ ہے، جس میں دل سے زیادہ دماغ اور جذبات سے زیادہ حساب کتاب شامل ہوتا ہے۔
EPAPER
Updated: October 05, 2025, 12:36 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
بظاہر یہ ایک شادی ہے، مگر اصل میں یہ ایک قسم کا ’معاہدہ‘ یا ’ڈیل‘ ہے، جس میں دل سے زیادہ دماغ اور جذبات سے زیادہ حساب کتاب شامل ہوتا ہے۔
شادی کو ہمیشہ ہی سے محبت، ذمہ داری اور خاندان سازی کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ لیکن آج کی تیز رفتار دنیا میں ایک نیا رجحان جنم لے رہا ہے، جسے مغرب میں ’لیوینڈر میریج‘ (Lavender Marriage) کہا جاتا ہے اور اب آہستہ آہستہ ہندوستان میں بھی یہ بحث کا موضوع بن رہا ہے۔ بظاہر یہ ایک شادی ہے، مگر اصل میں یہ ایک ’’معاہدہ‘‘ یا ’’ڈیل‘‘ ہے، جس میں دل سے زیادہ دماغ اور جذبات سے زیادہ حساب کتاب شامل ہوتا ہے۔
ذرا سوچئے، ایک نوجوان بزنس مین کو اپنے خاندان اور سرمایہ کاروں کے سامنے ایک ’کامیاب‘ اور’مستحکم‘ زندگی کا تاثر دینا ہے۔ دوسری طرف ایک پڑھی لکھی، آزاد خیال خاتون ہے، جو سماجی دباؤ سے بچنا چاہتی ہے۔ دونوں اپنی اپنی آزادی اور شناخت برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسا رشتہ قائم کرتے ہیں جسے ’لیوینڈر میریج‘ کہا جاتا ہے۔ یہ رشتہ زیادہ تر ’ظاہری سچائی‘ اور ’سماجی اطمینان‘ کیلئے قائم کیا جاتا ہے، نہ کہ خالص محبت یا جذبات کیلئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رجحان صرف ذاتی زندگی تک محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک بڑا معاشی کھیل بھی ہے۔ شادی شدہ ہونا بہت سی جگہوں پر اعتبار، اعتماد اور ساکھ بڑھاتا ہے۔
کاروباری دنیا میں اس سے ہونے والے فوائد یہ ہیں ؛ شادی شدہ ہونے کی حیثیت میں بینکوں سے لون لینا، سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنا اور حتیٰ کہ سیاسی یا سماجی حلقوں میں عزت پانا آسان ہوجاتا ہے۔ ایک ’’مستحکم خاندان‘‘ کا تصور بزنس معاہدوں کو ہموار کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اسی طرح شادی شدہ جوڑوں کیلئے تقریبات، تحفے، گھریلو اخراجات، سفر اور لائف اسٹائل انڈسٹری پر اثرات بڑھ جاتے ہیں۔ لیوینڈر میریج میں بھی، چاہے دل قریب نہ ہوں، مگر دکھاوے کی سطح پر معاشی سرگرمیاں وہی رہتی ہیں بلکہ بعض معاملات میں زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ مشترکہ طور پر جائیداد لینا یا کرایہ پر مکان حاصل کرنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات ٹیکس میں بھی راحت ملتی ہے۔ یوں لیوینڈر میریج ایک طرح کی ’اکنامک پارٹنرشپ‘ بھی بن جاتی ہے۔
یہ رجحان معاشی اعتبار سے پرکشش لگتا ہے مگر ذہنی و جذباتی طور پر کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ایک طرف لوگ سماجی دباؤ سے آزادی محسوس کرتے ہیں، کیونکہ ’’شادی شدہ‘‘ ہونے کی مہراُن کی زندگی کو آسان کردیتی ہے۔ دوسری طرف یہ رشتہ اکثر اندرونی تنہائی، تضادات اور نفسیاتی دباؤ پیدا کرتا ہے، کیونکہ رشتہ حقیقی محبت اور جذبات سے خالی ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں شادی کو صرف ذاتی معاملہ نہیں بلکہ خاندانی اور سماجی تقریب سمجھا جاتا ہے، لیوینڈر میریج ایک خاموش مگر بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ خاص طور پر شہروں میں رہنے والی نئی نسل، جو ایک طرف کریئر اور آزادی کو ترجیح دیتی ہے اور دوسری طرف روایتی سماج کے دباؤ سے بچنا چاہتی ہے، اس رجحان کی طرف زیادہ متوجہ ہے۔ اگر غور کریں تو احساس ہوگا کہ اس رشتہ کے بیشتر فوائد مالی معاملات تک محدود ہیں، جیسے سماجی دباؤ اور تنقید سے بچاؤ، خاندان اور بزنس میں ایک ’’مستحکم تاثر‘‘ پیدا ہوتا ہے، مالی اعتبار سے کئی سہولتیں اور مواقع حاصل ہوتے ہیں، اور دونوں فریق اپنی ذاتی آزادی اور شناخت کو برقرار رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے نقصانات زیادہ ہیں جن میں سے چند یہ ہیں : یہ رشتہ جذباتی خلا اور تنہائی کو بڑھا سکتا ہے، سچائی اور دکھاوے کے درمیان مستقل تضاد ذہنی دباؤ پیدا کرتا ہے، وقت کے ساتھ یہ معاہدہ بوجھ میں تبدیل ہوسکتا ہے، اور اگلی نسل اور خاندان کے نظام پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
لیوینڈر میریج ایک دلچسپ مگر پیچیدہ رجحان ہے۔ یہ صرف شادی کا نیا ماڈل نہیں بلکہ معیشت، کاروبار اور سماجی ڈھانچے پر اثر انداز ہونے والا ایک بڑا رجحان ہے۔ جہاں یہ آزادی اور سہولت فراہم کرتا ہے، وہیں یہ انسانی رشتوں کی گہرائی اور جذباتی صداقت پر سوال بھی اٹھاتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شادی ایک ’معاشی منصوبہ‘ ہے یا ’باہمی رضامندی سے زندگی گزارنے کا جذبہ؟‘ لیوینڈر میریج اس بحث کو اور زیادہ پیچیدہ بناتی ہے۔ شاید آنے والے برسوں میں یہ فیصلہ سماج اور معیشت کو بدلنے والا ثابت ہو، مگر فی الحال یہ رجحان ہمارے سامنے ایک آئینہ رکھتا ہے: کیا انسان رشتے دل سے نبھانا چاہتا ہے، یا محض معاہدے میں بندھنا چاہتا ہے؟