Inquilab Logo

معاشیانہ: اقوام متحدہ کے متعدد اہداف میں غربت ختم کرنے کا ہدف، ڈیٹا کیا کہتا ہے؟

Updated: March 17, 2024, 11:19 AM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

کیا امیری اور غریبی کا خلاءکم ہورہا ہے؟ مختلف تحقیقات کا حوالہ دے کر اس سوال پر بحث کی جاسکتی ہے۔

An economic report has revealed that the market value of the world`s 3 largest companies, Apple, Amazon and Microsoft, is 90% of the total GDP of the 193 member states of the United Nations. Photo: INN
ایک معاشی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا کی ۳؍ بڑی کمپنیوں، ایپل، امیزون اور مائیکروسافٹ کا مارکیٹ ویلیو، اقوام متحدہ کے ۱۹۳؍ رکن ممالک کی مجموعی جی ڈی پی کا ۹۰؍ فیصد ہے۔ تصویر : آئی این این

کیا امیری اور غریبی کا خلاءکم ہورہا ہے؟ مختلف تحقیقات کا حوالہ دے کر اس سوال پر بحث کی جاسکتی ہے۔ تاہم، ۲۰۱۹ء سے قبل، یا، کورونا وائرس کی وباء پھیلنے سے پہلے بین الاقوامی سطح پر امیری اور غریبی کا خلاء سکڑ رہا تھا۔ وبا پھیلنے کے چند ماہ تک پوری دنیا میں لاک ڈاؤن لگ گیا اور سبھی ممالک کے کام کاج رُک گئے۔ اس دوران سبھی کو اندازہ تھا کہ آئندہ چند برسوں تک عالمی معیشت پر مندی کے بادل چھا جائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ ہر ملک افراط زر کا شکار ہوگا۔ مہنگائی اس قدر بڑھ جائے گی کہ غریبوں کیلئے بنیادی اشیاء خریدنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ 
 ۲۰۲۱ء کے بعد سے امیری اور غریبی کے خلاء پر جتنی تحقیقات ہوئیں اور جتنی رپورٹیں شائع ہورہی ہیں، ان سبھی میں اس جانب توجہ دلائی جارہی ہے کہ امیری اور غریبی کا جو خلاء سکڑنے لگا تھا، وہ دوبارہ بڑھنے لگا ہے۔ اگر ہم معاشی طور پر ایک خوشحال دنیا کی طرف قدم بڑھا رہے تھے تو اَب وہی قدم پیچھے آنے لگے ہیں۔ بالفاظ دیگر خوشحالی کی طرف بڑھتی دنیا کے قدم رُک گئے، اور پھر گراف نیچے گرنے لگا۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ۲۰۱۹ء کے مقابلے میں لوگوں کے اخراجات اب کافی بڑھ چکے ہیں جس کی متعدد وجوہات میں سے چند یہ ہیں : مہنگائی کا بڑھنا، قوت خرید کا کم ہونا اور سوشل میڈیا۔ 
 گزشتہ دنوں اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ بہت سے ممالک اب بھی وبائی حالات کی مار سے اُبھرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر جو غریب ممالک تھے، وہ غریبی کی دلدل سے نکلنے کے بجائے اس میں دھنستے جا رہے ہیں۔ گزشتہ ۲۰؍ سال میں غریبی کو ختم کرنے کا ’عالمی عزم ‘ اب کمزور پڑنے لگا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ہر ملک اپنی معیشت کو مضبوط کرنے پر توجہ دے رہا ہے۔ امیر اور متوسط درجے کے ممالک، اپنے آپ کو مزید بہتر بنانے میں مصروف ہوگئے ہیں جبکہ غریب ممالک کی طرف سے سبھی کی نظریں ہٹ گئی ہیں۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دو دہائی میں غریب ممالک میں جتنی ترقی ہوئی ہے، وہ وبائی حالات کے درمیان ٹھہر گئی اور اب ترقی کا گراف بڑھنے (یا آہستہ آہستہ بڑھنے) کے بجائے تیزی سے نیچے جارہا ہے۔ 
 امیر اپنی دولت کو دگنا کرنے میں مصروف ہیں جبکہ غریب ایک وقت کا کھانا پانے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ متوسط طبقے میں اتنی ہی استطاعت رہ گئی ہے کہ وہ اپنی بنیادی ضرورتوں کے علاوہ چند لگژری اشیاء خرید سکے۔ امیری غریبی کے خلاء کے علاوہ عدم مساوات بڑھ رہی ہے اور کمزور مزید کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ ۲۰۲۱ء کی ایک معاشی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی ۳؍ بڑی کمپنیوں، ایپل، امیزون اور مائیکروسافٹ کا مارکیٹ ویلیو، اقوام متحدہ کے ۱۹۳؍ ممالک کی مجموعی جی ڈی پی کا ۹۰؍ فیصد ہے۔ بعض کمپنیاں ایسی ہیں جن کا مارکیٹ ویلیو گھانا جیسے غریب افریقی ممالک کی معیشت سے ۱۰؍ گنا زیادہ ہے۔ یہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ آج کی تاریخ میں دنیا امیروں اور غریبوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: ملینیئلس تاریخ کی امیر ترین نسل مگر حقیقت کچھ اور ہے

 آج سے ۳۰؍ سال پہلے دنیا کے متعدد مسائل میں سے سب سے اہم غربت تھی جسے ختم کرنے کا عزم اقوام متحدہ میں کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں اقدامات بھی کئے گئے مگر ٹیکنالوجی خاص طور پر سوشل میڈیا کے سیلاب میں تمام عزائم دھرے کے دھرے رہ گئے اور ہر ملک اپنی امارت اور طاقت ظاہر کرنے میں مصروف ہوگیا۔ آج کی تاریخ میں سبھی ممالک کا ایک ہی ہدف ہے؛ زیادہ سے زیادہ دولت کو اپنے معاشی نظام میں داخل کرنا، جس کیلئے سیاحت کے ساتھ مختلف کمپنیوں کا سہارا لیا جارہا ہے کہ وہ دیگر ممالک کے وسائل کو اپنے ملک میں لانے کی کوشش کریں۔ 
 ۲۱؍ ویں صدی میں دنیا متعدد مسائل سے دوچار ہے جن میں سب سے اہم ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی حدت ہے۔ ایسے میں دنیا کے امیر ترین افراد ہوں، امیر ترین خاندان ہوں، امیر ترین کمپنیاں ہوں، یا امیر ترین ممالک، سبھی کو ان کمزور ممالک کو اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہئے جو ۲۰۱۹ء کی اپنی ترقی کی شرح سے مزید نیچے چلے گئے ہیں۔ ان ممالک میں قدرتی وسائل ہیں مگر وہ ان کا بہتر استعمال نہیں جانتے۔ ان کے وسائل پر قابض ہونےکے بجائے انہیں با اختیار بناتے ہوئے آگے بڑھنے ہی سے عالمی ترقی ممکن ہوگی۔ ایک قوم کے طورپر ایسا کرنا مشکل ثابت ہوگا مگر جب دنیا کو ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی حدت سے بچانے کا سبھی کا ہدف ایک ہوسکتا ہے تو ایک ساتھ مضبوط ہونے کا ہدف طے کرنا اور اسے پانے کی کوشش کرنا بھی ممکن ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK