• Sun, 23 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشیانہ: ایڈونچر ٹورزم کی عالمی دوڑ اور ہندوستان کی پوزیشن

Updated: November 23, 2025, 5:10 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

اب چھٹیوں کا مطلب ہے چیلنج، جوش اور خطرات سے کھیلنا! پہاڑوں کی بلندی، سمندر کی گہرائی یا جنگل کی خاموشی، لوگ اب صرف دیکھتے نہیں بلکہ ان تجربات کو محسوس کرتے ہیں۔

Picture: INN
تصویر:آئی این این
آرام، قدرتی مناظر، اور سکون؛ ان چیزوں کیلئے سفر کرنے والے انسان اب کہیں کھو سے گئے ہیں۔ صحت افزا مقام پر سیاحت کی غرض سے جانے والے افراد کیلئے سفر کا مفہوم بدل دیا گیا ہے۔ اب چھٹیوں کا مطلب ہے چیلنج، جوش، اور خطرات سے کھیلنا! پہاڑوں کی بلندی، سمندر کی گہرائی، یا جنگل کی خاموشی، لوگ اب یہ چیزیں صرف دیکھنے نہیں جاتے بلکہ ان تجربات کو محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ یہی جذبہ آج دنیا بھر میں ایڈونچر ٹورزم (Adventure Tourism) کو اربوں ڈالر کی انڈسٹری میں تبدیل کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، گزشتہ دہائی میں عالمی سیاحت کی شرح میں سب سے تیز اضافہ ایڈونچر ٹورزم کے شعبے میں ہوا ہے۔ ۲۰۲۴ء میں اس مارکیٹ کی مالیت تقریباً ۲ء۱؍ کھرب ڈالر تھی اور ۲۰۳۰ء تک یہ دو گنا بڑھ سکتی ہے۔ سوئزرلینڈ کے برف پوش پہاڑوں سے لے کر نیوزی لینڈ کے بَن جی جمپنگ پوائنٹس تک، ایڈونچر صرف تفریح نہیں بلکہ معیشت کا اہم حصہ بن چکا ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے ہر ملک نے اس رجحان کو پہچان لیا ہے۔ جس کی اہم ترین مثال ہے نیپال، جو ایوریسٹ ٹریکنگ سے سالانہ کروڑوں ڈالر کماتا ہے۔ کنیڈا اور آسٹریلیا نے اپنے قدرتی پارکس کو ایڈونچر زون میں تبدیل کر کے سیاحتی آمدنی میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اس دوڑ میں ہندوستان کی کیا پوزیشن ہے؟ ہندوستان قدرتی لحاظ سے دنیا کے چند منفرد ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ شمال میں برفانی ہمالیہ، جنوب میں نیل گِری کی پہاڑیاں، مشرق میں گھنے جنگلات، جنوب مشرقی اور جنوب مغربی حصے میں ساحل، اور مغرب میں صحرائی مہمات؛  یہ تمام باتیں ملک کو ایڈونچر ٹورزم کیلئے مثالی بناتی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایڈونچر ٹورزم کی شرحِ ترقی سالانہ تقریباً ۲۰؍ فیصد ہے۔ لداخ، رِشی کیش، منالی، سیِکِم، اور انڈمان جزائر اب بین الاقوامی سطح پر مشہور مقامات بن چکے ہیں۔ لیکن اس ترقی کے باوجود ملک کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے ، خاص طور پر سیکوریٹی، تربیت، اور ریگولیشن کے میدان میں۔
ایڈونچر ہمیشہ خطرے کے ساتھ آتا ہے، مگر کئی ممالک میں یہ خطرہ غفلت میں بدل جاتا ہے۔ ہندوستان، نیپال اور انڈونیشیا جیسے ممالک میں گزشتہ چند برسوں میں پیراگلائیڈنگ، ریور رافٹنگ، اور بَن جی جمپنگ کے دوران متعدد حادثات پیش آئے ہیں۔ سنگاپور جیسے ترقی یافتہ ملک میں اسکوبا ڈائیونگ کے دوران ہندوستانی گلوکار زوبین گرگ کی موت نے بھی ’’سیفٹی‘‘ پر کئی سوالات قائم کئے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ کیا ہمارے ملک میں سیفٹی کے معیارات عالمی سطح کے ہیں؟ یورپ اور نیوزی لینڈ میں ایڈونچر اسپورٹس کے ہر مرحلے پر تربیت یافتہ عملہ، میڈیکل بیک اپ، اور انشورنس لازمی ہے۔ وہاں مہم جوئی خطرہ نہیں بلکہ نظم و ضبط کا مظہر ہے۔ ہندوستان میں اگرچہ وزارتِ سیاحت نے ’’نیشنل ایڈونچر ٹورزم پالیسی‘‘ متعارف کرائی ہے، مگر اس پر عمل درآمد کی رفتار سست ہے۔ مقامی آپریٹرز میں سے اکثر غیر رجسٹرڈ ہیں، اور سیاح حادثات کی صورت میں قانونی تحفظ سے محروم رہتے ہیں۔
ایڈونچر ٹورزم صرف تفریح نہیں بلکہ معاشی موقع بھی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، ملک میں اس صنعت سے ۵؍ لاکھ سے زائد لوگ براہِ راست یا بالواسطہ منسلک ہیں ، جن میں مقامی گائیڈز، ہوٹل مالکان، گیئر سپلائرز، اور ٹرانسپورٹ کمپنیاں شامل ہیں۔ اگر حکومت اس شعبے کو منظم کرے تو نہ صرف غیر ملکی زرِ مبادلہ بڑھے گا بلکہ گاؤں اور پہاڑی علاقوں میں روزگار کے بے شمار دروازے کھل سکتے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان اپنی قدرتی تنوع اور سستی لاگت کے سبب ’’ایڈونچر کیپٹل آف ایشیا‘‘ بن سکتا ہے ، بشرطیکہ سیکوریٹی، تربیت، اور لائسنسنگ کو بین الاقوامی معیار پر لایا جائے۔
دنیا بھر میں ’’سسٹین ایبل ایڈونچر ٹورزم‘‘ کا تصور بھی ابھر رہا ہے جس کی وجہ غیر منظم مہمات پہاڑی علاقوں میں آلودگی، کوڑا کرکٹ، اور قدرتی نقصان ہیں۔ بیشتر سیاح ان علاقوں میں کوڑا کرکٹ چھوڑ جاتے ہیں۔ کئی اسٹارٹ اپس اب بایو ڈیگریڈیبل سامان، لوکل گائیڈز، اور محدود گروپس کے اصولوں پر کام کر رہے ہیں ، جو نہ صرف ذمہ دار سیاحت کی مثال ہیں بلکہ ایک نیا کاروباری ماڈل بھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہندوستان اپنے ایڈونچر ٹورزم سیکٹر کو منظم کر لے تو یہ آئندہ پانچ برسوں میں دوگنی آمدنی دے سکتا ہے۔ لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ ہر ریاست میں سیفٹی پروٹوکول، لائسنسنگ، اور انشورنس کے ضابطے سختی سے نافذ کئے جائیں۔ ساتھ ہی مہم جوئی کو پائیدار سیاحت (Sustainable Tourism) سے جوڑنا ہوگا تاکہ قدرتی ماحول متاثر نہ ہو۔ ہندوستا ن میں فطرت کی جانب سے عطا کردہ وہ تمام چیزیں ہیں جو دنیا کے چند ہی ممالک کے پاس ہیں، مگر انہیں محفوظ رکھنے کیلئے ہمیں ایڈونچر ٹورزم کے ہر شعبے کو مستحکم کرنا ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK