ایک رپورٹ کے مطابق ایک سروے میں حصہ لینے والے ۶۹؍ فیصد ’جین زی‘ نے بتایا کہ انہیں دن بھر میں مختلف جگہوں پر مختلف قسم کے افراد سے درجنوں بار ’نا‘ سننے کو ملتا ہے۔
EPAPER
Updated: June 22, 2025, 12:48 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
ایک رپورٹ کے مطابق ایک سروے میں حصہ لینے والے ۶۹؍ فیصد ’جین زی‘ نے بتایا کہ انہیں دن بھر میں مختلف جگہوں پر مختلف قسم کے افراد سے درجنوں بار ’نا‘ سننے کو ملتا ہے۔
گزشتہ چند مہینوں میں شائع ہونے والی متعدد رپورٹس میں ’’جین زی‘‘ (جنریشن زیڈ، ۱۹۹۷ء سے ۲۰۱۲ء کے درمیان پیدا ہونے والے افراد) کو ’’سب سے زیادہ مسترد کی جانے والی نسل‘‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس نسل کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ بے فکر، غیر سنجیدہ اور تناؤ کا شکار ہے۔ تعلیمی اداروں میں داخلے سے لے کر ملازمت کی درخواستوں تک، اس نسل کو سب سے زیادہ مرتبہ’نا‘ یا ’نہیں ‘ سننا پڑ رہا ہے۔ ایک ماہ قبل روزگار فراہم کرنے والی متعدد ویب سائٹس مثلاً ’لنکڈ اِن‘ اور’سیک‘ پر جین زی، ’مسترد‘ کئے جانے کے اپنے تجربات ایک دوسرے کو بیان کررہے تھے۔ ان ویب سائٹس کے ذریعے آپ مختلف کمپنیوں کو بیک وقت ملازمت کی درخواست بھیج سکتے ہیں۔ بیشتر معاملات میں کمپنیاں ’خاموش‘ ہوتی ہیں، یعنی ان کی جانب سے انٹرویو کیلئے رابطہ نہیں کیا جاتا لیکن جین زی کو اس ضمن میں صرف ’خاموشی‘ کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے بلکہ ان کی درخواستوں کے ساتھ ’مسترد‘ یا ’نا‘ بھی لکھا جارہا ہے۔
بزنس انسائیڈر کے ساتھ اشتراک کردہ اعداد و شمار کے مطابق جب ایک شخص عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو کئی کمپنیوں کو ’انٹری لیول‘ جابس کیلئے درخواست روانہ کرتا ہے۔ اگر قسمت ساتھ دیتی ہے تو پہلی یا دوسری کوشش ہی میں جاب مل جاتی ہے مگر موجودہ حالات کے پیش نظر یہ اس قدر مشکل ہوگیا ہے کہ ۲۴۰؍ درخواستوں کے بعد بھی کمپنی کی جانب سے انٹرویو کال نہیں آتا۔ مذکورہ ویب سائٹ کو ایک امریکی جین زی نے بتایا کہ مَیں نے ۳؍ ماہ میں ۲۴۰؍ اداروں کو درخواستیں بھیجیں، جن میں سے ۱۹۷؍ جگہ سے کوئی جواب نہیں آیا مگر ۴۳؍ اداروں نے میری درخواست ’مسترد‘ کرتے ہوئے ’نا‘ لکھا، یعنی میں وہاں ملازمت کا اہل نہیں ہوں۔ اس ضمن میں دی فوریج نامی ویب سائٹ نے انسٹا گرام پر ایک پول جاری کیا جس میں صرف جین زی ہی کو شامل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔ پول کا نتیجہ یوں تھا: سروے میں حصہ لینے والے ۶۹؍ فیصد جین زی نے کہا کہ انہیں دن بھر میں مختلف جگہوں پر مختلف قسم کے افراد سے درجنوں بار ’نہیں ‘ سننے ملا، یا، بیشتر جگہوں پر انہیں ’مسترد‘ کردیا گیا۔ ۲۷؍ فیصد افراد نے کہا کہ ان کا کام دیکھتے ہوئے اداروں نے کہا کہ ’’اب آپ کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘
جین زی وہ نسل ہے جو مالی عدم تحفظ کا بھی مشاہدہ کررہی ہے جس کی متعدد وجوہات ہیں۔ سوشل میڈیا، ٹیکنالوجی، اسمارٹ فونز، انٹرنیٹ تک آسان رسائی، لگژری، پیسے کمانے کے آسان مگر پُرخطر ذرائع اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) جیسے عوامل جین زی کو سب سے زیادہ متاثر کررہے ہیں۔ دنیا کی ۷۷؍ فیصد سے زائد کمپنیاں ’انٹری لیول‘ ملازمتوں کیلئے انسانوں کی نہیں مشینوں (یعنی اے آئی) کی مدد لے رہی ہیں، ایسے میں جین زی کا عملی زندگی میں قدم رکھنا تیزی سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ جین زی کو ’گھوسٹ جابز‘ جیسے مسئلہ کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دی گارجین نے پچھلے سال رپورٹ کیا تھا کہ ۴۰؍ فیصد کمپنیوں نے ’گھوسٹ جابز‘ پوسٹ کی تھیں جن میں سے ۸۵؍ فیصد نے ’جعلی‘ انٹرویوز بھی منعقد کئے تھے۔
اہم سوال یہ ہے کہ جب جین زی کو کوئی ملازمت نہیں دے گا تو انہیں تجربہ کیسے حاصل ہوگا؟ اور ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہے جب انٹری لیول عہدے اے آئی کی مدد سے پُر کئے جارہے ہوں ؟ ۲۰۲۵ء میں ملازمت کی تلاش اور حصول حد درجہ مشکل ہوگیا ہے۔ جین زی کیلئے یہ اس لئے بھی مشکل ہے کہ ان کے پاس کالج ڈگری ہے مگر تجربہ نہیں۔ انٹری لیول جابس نہیں ہیں کہ انہیں تجربہ حاصل ہو۔ بیشتر افراد ’وہائٹ کالر‘ کے بجائے ’بلیو کالر‘ جاب سے ملازمت کے میدان میں قدم رکھ رہے ہیں یا پھر ڈجیٹل دنیا کی مدد سے ’توجہ‘ حاصل کرکے پیسے کمانے کو ترجیح دے رہے ہیں (مگر اس میں بھی کامیابی کا فیصد ۲ء۲؍ ہی ہے)۔
جین زی کے بارے میں لنکڈ اِن پر ۱۰؍ ماہرین نے ایک مشترکہ مضمون میں اپنے نظریات کچھ یوں بیان کئے: ’’جین زی کو غیر پیشہ ورانہ طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کمپنیوں کا کہنا ہے کہ یہ کام کیلئے ضروری مہارتوں سے محروم ہیں اور اگر انہیں ملازمت فراہم کی جائے تو کارپوریٹ ماحول میں ان کا رویہ ان کے’مسترد‘ ہونے کی وجہ بنتا ہے۔ کارپوریٹ دنیا بھی اب حد سے زیادہ رسمی نہیں ہے لیکن رسمی اور غیر رسمی کے درمیان جین زی کو’سینئر‘ کا ادب ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ اپنی بات کہنے اور بدتمیزی کے درمیان ایک مہین خط ہیں، اور اکثر معاملات میں بیشتر جین زی اس خط کو پار کردیتے ہیں۔ ‘‘
کارپوریٹ کا حال یہ ہے کہ جین زی کو ملازمتیں نہیں مل رہی ہیں، مِلینیئلس کو وہ پروموشنز نہیں مل رہے ہیں جن کے وہ مستحق ہیں کیونکہ جین ایکس افرادی قوت نہیں چھوڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے انٹری لیول عہدے کے کردار کم ہوگئے ہیں۔ کمپنیوں نے بھی فعال طور پر بھرتی کرنا بند کر دیا ہے، اس کے بجائے کارکنوں کو فارغ کرنے کا انتخاب کیا ہے۔ اس کی وجہ سے زیادہ کارکن دوسرے عہدوں پر جانے اور کم عمر کارکنوں کیلئے جگہ خالی کرنے کے بجائے اپنی ملازمتوں پر قائم رہے۔ تحقیق اور سماجی خدمت کے کرداروں کیلئے فنڈز کی کمی کے باعث کریئر کے یہ متبادل راستے بھی بند ہو گئے ہیں۔ اس پورے منظر نامے میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ جین زی کو ہر موڑ پر رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کیلئے ’زمین تنگ‘ ہوتی جارہی ہے۔ ڈجیٹل دنیا، جس کی کوئی حد طے نہیں ہے، وہاں بھی انہیں مواقع نہیں مل رہے ہیں۔ فی الوقت دو ہی کام ممکن نظر آرہےہیں، اول یہ کہ کمپنیاں اور حکومتیں نسل نو کیلئے ملازمت کی راہیں ہموار کریں۔ دوم، جین زی کو اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔