یوکرین اور اسرائیل، یہ دو ممالک ایسے ہیں جنہیں امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے اور اس وقت یہ دونوں ہی ملک ’جنگ کی حالت‘ میں ہیں، ان جنگوں سے امریکی دفاعی کمپنیوں کو کروڑوں ڈالر کا منافع ہورہا ہے۔
EPAPER
Updated: October 22, 2023, 1:28 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
یوکرین اور اسرائیل، یہ دو ممالک ایسے ہیں جنہیں امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے اور اس وقت یہ دونوں ہی ملک ’جنگ کی حالت‘ میں ہیں، ان جنگوں سے امریکی دفاعی کمپنیوں کو کروڑوں ڈالر کا منافع ہورہا ہے۔
فروری ۲۰۲۲ء میں روس اور یوکرین کے درمیان خونریز جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ ۲۰؍ ماہ گزر جانے کے بعد بھی ان ممالک کے حالات ، خاص طور پر یوکرین کے، بہتر نہیں ہوئے ہیں۔ ان کے درمیان جنگ کی شروعات کی تاریخ سے قارئین واقف ہیں ۔ تاہم، گزشتہ کئی عشروں سے جاری فلسطین اور اسرائیل کا تنازع ایک مرتبہ پھر شروع ہوگیا ہے۔ کاؤنسل آن فارن ریلیشنز کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق فی الوقت دنیا کے ۳۲؍ ممالک جنگی بحران سے گزر رہے ہیں۔ اس میں جنگ، خانہ جنگی، دہشت گردانہ حملے، نسل کشی اور منشیات کے خلاف جنگیں بھی شامل ہیں۔ گلوبل سٹیزن کی رپورٹ اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے، یعنی گزشتہ چند عشروں میں دنیا بھر میں تشدد کافی بڑھ گیا ہے۔ اقوام متحدہ (یو این) نے انتباہ جاری کیا ہے کہ دنیا سے ’امن‘ غائب ہوتا جارہا ہے اس لئے تمام ممالک کو ’انتہائی تحمل‘ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
متذکرہ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ براعظم افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے متعدد خطوں میں جنگیں جاری ہیں لیکن اگر یوکرین۔روس اور فلسطین۔ اسرائیل ، کی جنگوں پر نظر ڈالیں تو احساس ہوگا کہ یوکرین اور اسرائیل، یہ دو ممالک ایسے ہیں جنہیں امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان جنگوں سے امریکی دفاعی کمپنیوں کو کروڑوں ڈالر کا منافع ہورہا ہے۔ دنیا میں جب بھی تناؤ بڑھتا ہے تو اس کا براہ راست فائدہ دفاعی کمپنیوں اور اس کے سرمایہ کاروں کو ہوتا ہے۔ پہلے یوکرین اور اب اسرائیل کی حمایت کا اعلان کرنے کے بعد امریکہ سے جنگی جہازوں کی نقل و حرکت، خصوصی آپریشنز فورسیز کی تعیناتی اور اضافی گولہ بارود کی ترسیل شروع ہوگئی ہے۔ اسرائیل میں امریکی دفاعی مصنوعات کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری محاذ پر کروڑوں کا لین دین جاری ہے۔ اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک امریکہ ہی ہے۔ ۱۹۴۰ء کے بعد سے امریکہ نے اسرائیل کو دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ غیر ملکی امداد دی ہے۔ وہائٹ ہاؤس سے لیک ہونے والی رپورٹوں میں انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیل کے دفاع کو تقویت دینے کیلئےامریکہ نے اپنی دفاعی کمپنیوں کیلئے ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ہتھیاروں کے آرڈرز میں تیزی لائیں۔ اسرائیل نے غزہ پر حملے کے دوران جتنے بھی ہتھیار استعمال کئے ہیں ، سبھی امریکہ میں یا امریکہ کے تعاون سے بنائے گئے ہیں ۔ اتنے برسوں میں اسرائیل، امریکہ کی مدد سے اس قدر طاقتور بن چکا ہے کہ چاروں جانب سے عرب ممالک سے گھرا ہونے کے باوجود کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
گزشتہ ہفتے سے امریکی اسٹاک مارکیٹ کی ہتھیاروں کی کمپنیوں میں زبردست اچھال ہے۔ مثال کے طور پر لاک ہیڈ مارٹن (دنیا میں ہتھیاروں کی سب سے بڑی کمپنی) کے اسٹاک کی قیمت میں ۸؍ فیصد،نارتھروپ گرومین کے اسٹاک کی قیمت میں ۱۱ء۱؍ فیصد اور رے تھیون ٹیکنالوجیز کے اسٹاک کی قیمت میں ۴؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر دفاعی اسٹاک میں ۵ء۶؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر امریکہ جیسا طاقتور اور جمہوری ملک دنیا بھر میں ’امن کا وعظ‘ کرتا ہے تو ہتھیاروں کی تمام بڑی کمپنیاں اسی ملک میں کیوں ہیں ؟ ہتھیار سپلائی کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک امریکہ ہی کیوں ہے؟ روس یوکرین جنگ میں بھی امریکہ اور یورپی یونین ہی یوکرین کو مسلسل ہتھیار سپلائی کر رہے ہیں۔
جنگوں میں فائدہ طاقتور ممالک اور ہتھیاروں کی کمپنیوں کو ہوتا ہے۔ بدلے میں بے گناہ اور معصوم شہریوں کی جانیں تلف ہوتی ہیں۔ امریکہ ابتداء ہی سے دنیا پر اپنا تسلط چاہتا ہے۔ معاشی اور دفاعی لحاظ سے بلاشبہ امریکہ ایک طاقتور ملک ہے جس کا مقابلہ روس اور چین کے علاوہ دنیا کا شاید ہی کوئی اور ملک کرسکتا ہو۔ وہ مغرب سے لے کر یورپ، مشرق وسطیٰ اور ایشیاء میں اپنے اتحادی بنارہا ہے تاکہ کسی ناگہانی کی صورت میں وہ ان کی مدد سے اپنی فتح کو یقینی بناسکے۔ دنیا میں جمہوری نظام رائج ضرور ہے لیکن مختلف پالیسیوں کے ذریعے ہر طاقتور ملک، ترقی پذیر اور غریب ممالک میں اپنا عمل دخل بڑھا کر وہاں کی معیشت کو مثبت یا منفی طور پر متاثر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
ترقی پذیر یا غریب ممالک، ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک سے اتحاد کرکے اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو احساس ہوگا کہ سبھی اپنے اپنے مفاد کی خاطر تاریکی کی جانب قدم بڑھارہے ہیں۔