Inquilab Logo

معاشیانہ: مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی دنیا میں انسانوں کی حقیقت

Updated: March 24, 2024, 4:01 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

آج سے ۵؍ سال پہلے تک کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ ۲۰۲۳ء میں دنیا کی کمپنیاں ایسی ٹیکنالوجی بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی جو چند الفاظ کی بنیاد پر سیکڑوں صفحات کی دستاویز پیش کردے۔

According to a report, the demand for AI software and hardware is increasing by 19% every year. If its demand continues to increase, then by 2026, the value of this purchase and sale will reach 900 billion dollars. Photo: INN
ایک رپورٹ کے مطابق اے آئی کے سافٹ ویئر اور ہارڈویئر کی مانگ ہر سال ۱۹؍ فیصد سے بڑھ رہی ہے۔اس کی مانگ میں اگراسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو ۲۰۲۶ء تک اس خرید و فروخت کی مالیت ۹۰۰؍ بلین ڈالر ہوجائے گی۔ تصویر : آئی این این

آج سے ۵؍ سال پہلے تک کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ ۲۰۲۳ء میں دنیا کی کمپنیاں ایسی ٹیکنالوجی بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی جو چند الفاظ کی بنیاد پر سیکڑوں صفحات کی دستاویز پیش کردے۔ جو پلک جھپکتے کام کرنے میں ماہر ہو۔ کیا آپ ایسی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی کوشش نہیں کریں گے جسے آپ صرف اپنی کہانی کا خاکہ بتادیں اور وہ آپ کے سامنے پوری کہانی پیش کردے؟ جہاں آپ کی مرضی کے مطابق صفحات ہوں ؟ کیا یہ دلچسپ نہیں ہوگا کہ ایک ہی خاکہ پر بنی کہانی کے ۹۹؍ مختلف اختتامی زاویئے ہوں ؟ یہ یقیناً دلچسپ ہے اور ہر انسان اس ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کا نام ہے ’’آرٹی فیشیل انٹیلی جنس‘‘ (اے آئی) یا مصنوعی ذہانت۔ 
 چیٹ جی پی ٹی کی شکل میں آج بیشتر طالب علم اسے اسکول/کالج پروجیکٹ بنانے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر لکھنا اب مشکل نہیں رہ گیا ہے۔ متعدد کتابوں اور اخبارات کے مطالعے کے بجائے اب صرف کمانڈ دیجئے، پروجیکٹ بن کر تیار ہے۔ پسند نہ آئے تو تبدیلیاں بھی کرسکتے ہیں، مگر آپ کو یہ تبدیلی بھی ٹیکنالوجی ہی کرکے دے گی۔ مصنوعی ذہانت پر ۵۰؍ کے عشرے ہی میں کام شروع ہوگیا تھا۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کے ’’بہترین ورژن‘‘ کا تجربہ کررہے ہیں مگر یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایڈوانس ہوتی جارہی ہے۔ آئندہ چند برسوں میں یہ شعبہ کس قدر مستحکم ہوگا، اس کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ 

یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: اقوام متحدہ کے متعدد اہداف میں غربت ختم کرنے کا ہدف، ڈیٹا کیا کہتا ہے؟

 بینک آف امریکہ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ۲۰۳۰ء تک عالمی معیشت میں اے آئی کا حصہ ۱۵؍ کھرب ڈالر سے زائد ہوگا۔ اس شعبے میں نہ صرف کمپنیاں بلکہ انفرادی سرمایہ کار اور حکومتیں ابھی سے کئی کروڑ ڈالر خرچ کررہی ہیں۔ اے آئی کے سافٹ ویئر اور ہارڈویئر کی مانگ ہر سال ۱۹؍ فیصد سے بڑھ رہی ہے اور ۲۰۲۶ء تک اس خرید و فروخت کی مالیت ۹۰۰؍ بلین ڈالر ہوجائے گی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کے ۲؍ سپر پاور کہلانے والے ممالک امریکہ اور روس میں جوہری ہتھیاروں اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی دوڑ لگ گئی تھی۔ تاہم، تازہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ اے آئی کے میدان میں امریکہ اور چین کے درمیان مقابلہ شروع ہوگیا ہے۔ یہ دونوں ممالک مختلف شعبوں اور اداروں کو اے آئی سے لیس کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ عالمی معیشت میں اے آئی کا حصہ تیزی سے بڑھ رہا ہے جس میں ۷۰؍ فیصد اشتراک چین اور امریکہ کی طرف سے ہورہا ہے۔ اِن دونوں ممالک میں اے آئی کے عمل دخل کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ متذکرہ رپورٹ کہتی ہے ۲۰۳۰ء تک چین کی معیشت میں اے آئی کا حصہ ۳۰؍ فیصد جبکہ امریکہ میں ۲۵؍ فیصد ہوگا۔ 
 اہم سوال یہ ہے کہ کیا لیبر مارکیٹ پر اے آئی کا اثر پڑے گا؟ تاریخ گواہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں جب بھی پیش رفتیں ہوئی ہیں، مختلف قسم کی روایتی ملازمتیں ختم ہوئی ہیں، مگر نئی پیش رفتوں نے نئی ملازمتیں بھی پیدا کی ہیں۔ تاہم، اے آئی کے متعلق ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ اس قدر ایڈوانس ہے، یا، آئندہ چند برسوں میں اتنی ایڈوانس ہوجائے گی کہ کئی روایتی ملازمتیں ختم کردے گی۔ یہی نہیں، یہ شعبہ اتنی تیزی سے ترقی کرے گا کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی اور پرانی ختم ہوتی جائیں گی۔ جو افراد ٹیکنالوجی کی مناسبت سے اپنی ’’اِسکلز‘‘ اَپ ڈیٹ کرتے رہیں گے وہ بہادری سے اس تبدیلی کا سامنا کریں گے مگر جو افراد ’’اَپ ٹو ڈیٹ‘‘ نہیں رہیں گے وہ اس دوڑ میں کہیں پیچھے رہ جائیں گے۔ ملازمتوں کو کھونے اور پانے کا عمل اس قدر تیز ہوگا کہ عام انسان اس چکر میں گھومتا رہ جائے گا۔ اکثر ماہرین مثبت نظریات کے حامل ہیں کہ یہ نیا شعبہ ہے جہاں نئی ملازمتوں کی بہار ہوگی، نئی صنعتیں قائم ہوں گی، جاب مارکیٹ میں نئی صلاحیتوں کی مانگ ہوگی اور کریئر کے کئی راستے ہموار ہوں گے۔ 
 ترقی کی نئی قسم کی خوبیاں اور خامیاں دونوں ہوتی ہیں۔ اے آئی کو اچھی طرح قبول کرلینے والی دنیا میں سائبر فراڈ، سائبر کرائم اور فیک انفارمیشن اس قدر بڑھ جائے گی کہ صحیح اور غلط میں فرق کرنا مشکل ہوگا۔ اس میدان کی ترقی سے جہاں لوگ خوش ہیں، وہیں فکرمند بھی ہیں۔ لیکن گوگل، ایپل، مائیکروسافٹ، اوپن پلیٹ فارم اور ٹیسلا جیسی بڑی کمپنیاں اے آئی پر خطیر رقم خرچ کررہی ہیں۔ اے آئی کی اس دوڑ میں کون فاتح ہوگا؟ اس کا فائدہ یقیناً انسان کو ہوگا مگر یہ اب بھی واضح نہیں ہے کہ انسانوں کو اس کی کیا قیمت چکانی پڑے گی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ چند برسوں بعد انسان اے آئی دنیا کا حصہ ہوگا یا اے آئی انسانوں کی دنیا کا ؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK