اس کی ابتدا دراصل چھوٹی چھوٹی ادائیگیوں کو آسان بنانے کیلئے ہوئی تھی لیکن آج، چند ہی برسوں میں، یہ سادہ سا نظام اربوں روپے کی لین دین کا محور بن چکا ہے۔
EPAPER
Updated: October 12, 2025, 12:42 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
اس کی ابتدا دراصل چھوٹی چھوٹی ادائیگیوں کو آسان بنانے کیلئے ہوئی تھی لیکن آج، چند ہی برسوں میں، یہ سادہ سا نظام اربوں روپے کی لین دین کا محور بن چکا ہے۔
کبھی کسی چھوٹے اسٹال پر کھڑے ہو کر ’’بھائی ایک چائے‘‘ کا آرڈر دینے کے بعد موبائل اسکرین پر کیو آر کوڈ اسکین کرتے ہوئے ہم نے شاید یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ یہی سہولت کل کو ملک کی سب سے بڑی معاشی حقیقت بن جائے گی۔ یو پی آئی (یو نیفائیڈ پے منٹ انٹرفیس) کی ابتدا دراصل چھوٹی چھوٹی ادائیگیوں کو آسان بنانے کیلئے ہوئی تھی۔ سوچ یہ تھی کہ ہاتھ میں کھلے پیسے نہ ہوں تو چائے، سگریٹ یا رکشا کا کرایہ فوراً موبائل سے ادا کیا جا سکے لیکن آج، چند ہی برسوں میں، یہ سادہ سا نظام اربوں روپے کی لین دین کا محور بن چکا ہے۔ یہ کہانی محض ٹیکنالوجی کی نہیں، بلکہ معیشت، عادات اور ذہنوں کی تبدیلی کی بھی ہے۔
۲۰۱۶ء میں جب نیشنل پیمنٹس کارپوریشن آف انڈیا (این پی سی آئی) نے یوپی آئی متعارف کرایا تھا تو اس کا مقصد محدود تھا۔ یہ کریڈٹ کارڈ یا بینک ڈرافٹ کی طرح بڑے لین دین کیلئے نہیں بلکہ چھوٹی موٹی ادائیگیوں کیلئے تھا۔ اس وقت بینک ٹرانسفر میں یا تو فیس لگتی تھی یا پھر وقت زیادہ لگتا تھا۔ یو پی آئی نے یہ مشکل ختم کر دی: ایک ایپ، ایک پن اور ادائیگی سیکنڈوں میں۔ پہلے دنوں میں لوگ حیران بھی ہوتے تھے، اور سوچتے تھے ’’پان کے دو روپے موبائل سے دینے کا کیا فائدہ؟‘‘ لیکن جیسے جیسے یہ سہولت عام ہوئی، تاجروں، چھوٹے کاروباریوں اور عام صارفین کو احساس ہوا کہ یہ نظام نہ صرف وقت بچاتا ہے بلکہ نقدی کی جھنجھٹ بھی کم کرتا ہے۔
ہندوستان کی معیشت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمیشہ’کیش‘ رہی ہے۔ نقدی کی عادت نے کئی دہائیوں تک کالے دھن اور ’بے حساب‘ لین دین کو ہوا دی۔ لیکن یوپی آئی نے آہستہ آہستہ یہ عادت بدل دی۔ پہلے چائے والے، پھر رکشا ڈرائیور، اور اب کار شوروم تک — سب یوپی آئی سے پے منٹ لینے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ شادی کے موقع پر لاکھوں روپے کی ادائیگی بھی آج کل ایک کیو آر کوڈ اسکین سے ممکن ہو گئی ہے۔ یہ تبدیلی محض سہولت نہیں بلکہ ذہنیت کا انقلاب ہے۔ صارفین کو یقین ہو گیا کہ موبائل والیٹ سے بڑا سودا بھی محفوظ ہے۔ بینکوں نے بھی اسے قبول کر لیا کیونکہ ٹرانزیکشن کے ریکارڈ شفاف ہیں۔ یوپی آئی کے ذریعے چھوٹے تاجروں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ پہلے انہیں نقدی گننے، بقایا دینے اور چوری یا جعلی نوٹ کے خوف میں جینا پڑتا تھا۔ اب یہ سب ختم۔ چھوٹے کاروباریوں کے لین دین ڈجیٹل ہونے لگے، جس سے ان کی آمدنی کا ریکارڈ صاف نظر آنے لگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بینک ان پر بھروسہ کرنے لگے اور قرض دینا آسان ہو گیا۔
دوسری طرف، بڑے تاجروں نے بھی یوپی آئی کو بڑے پیمانے پر اپنانا شروع کیا۔ آج بجلی کے بل سے لے کر ہوائی جہاز کے ٹکٹ تک سب کچھ یوپی آئی پر ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی ڈجیٹل اکنامی کا حجم پچھلے ۸؍ برس میں کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بھی مانتے ہیں کہ یوپی آئی نے ہندوستان کو دنیا کی سب سے تیز رفتار ڈجیٹل ادائیگیوں والی معیشتوں میں شامل کر دیا ہے، لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ یوپی آئی کی مقبولیت نے سائبر فراڈ کے معاملات کئی گنا بڑھا دیئے ہیں۔ اکثر لوگ ذرا سی لاپروائی میں او ٹی پی یا پن شیئر کر دیتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں روپے کھو بیٹھتے ہیں۔ اس کے علاوہ بینکوں کے سرور پر بوجھ بھی بڑھ گیا ہے، جس سے سسٹم ڈاؤن ہوتا ہے۔
یوپی آئی انقلاب کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ صرف عام آدمی ہی نہیں بلکہ ہندوستان کا وہ طبقہ بھی، جو ہمیشہ ’پریمیم‘ سہولیات استعمال کرتا آیا تھا، اب یوپی آئی کو ترجیح دینے لگا ہے۔ کچھ برس پہلے تک بڑے ریستوراں، مہنگے مالز یا ایئرپورٹ لاؤنج میں ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کا استعمال ’اسٹیٹس سمبل‘ سمجھا جاتا تھا۔ ’سوائپ‘ کرنے کا اپنا ایک فیشن تھا۔ لیکن اب وہی امیر طبقہ بڑے بڑے ریٹیل اسٹورز اور حتیٰ کہ کاروں کی خریداری پر بھی یوپی آئی استعمال کر رہا ہے۔ کیا یو پی آئی، کارڈز کا اختتام ہے؟ کارڈ کمپنیاں اب بھی ای ایم آئی سہولت، انعامی پوائنٹس اور لچکدار کریڈٹ کے ذریعے اپنی جگہ قائم رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ روزمرہ لین دین میں کارڈز کی ضرورت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ امیر طبقے کیلئے سب سے بڑی کشش ’فوری سہولت‘ اور ’فیس فری‘ ٹرانزیکشن ہے، جو یوپی آئی میں ملتی ہے جبکہ کارڈ سوائپ پر اکثر چارجز یا لمبے مراحل ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بڑے شہروں میں کارڈ مشین پر ہاتھ رکھنے کے بجائے اب لوگ موبائل اٹھا کر کیو آر کوڈ اسکین کرتے ہیں۔
یوپی آئی کی کہانی اب صرف چھوٹے تاجروں یا عام صارفین تک محدود نہیں رہی۔ آج بڑے بزنس مین، صنعتکار اور اعلیٰ طبقہ بھی اس نظام کو اپنا چکا ہے۔ یہ نظام نقدی کے بعد اب کارڈ کلچر کو بھی چیلنج دے رہا ہے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں ہندوستانیوں کی جیب میں کیا ہوگا؟ کیش؟ کارڈ؟ یا صرف ایک موبائل فون؟ موجودہ رجحان ’یو پی آئی‘ کا ہے۔ دیکھا جائے تو جواب بالکل واضح ہے: یوپی آئی۔ تاہم، یہ حقیقت ہے کہ جو نظام کبھی ’’چائے اور سُٹّے‘‘ کیلئے بنایا گیا تھا، وہ اب اربوں روپے کی رقوم کے تبادلے کا بنیادی ذریعہ بن گیا ہے۔ مستقبل میں یہ ماڈل کتنا پائیدار رہے گا، یہ بھی ایک بڑا سوال ہے۔