Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشیانہ: ملک میں ارب پتیوں کی بڑھتی تعداد، کیا غربت کا گراف گر رہا ہے؟

Updated: August 10, 2025, 1:01 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۴ء میں ملک میں ۱۰۰؍ ارب پتی تھے جن کی تعداد ۲۰۲۵ء میں ۲۸۴؍ ہوگئی ہے، دنیا بھر میں ارب پتیوں کی تعداد کے معاملے میں ہم تیسرے نمبر پر آگئے ہیں۔

Radhakrishnan Damani, who provides a wide range of goods at low prices through "D-Mart", is now at number 9 on the list of India`s billionaires with assets of 17.9 billion.
’’ڈی مارٹ‘‘ کے ذریعے کم قیمت میں ڈھیر ساری اشیاء فراہم کرنے والے رادھا کرشن دمانی اب ہندوستان کے ارب پتیوں کی فہرست میں ۱۷ء۹؍ بلین ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ ۹؍ ویں نمبر پر ہیں۔

۲۰۱۴ء میں فوربز میگزین نے ہندوستان کے ۱۰۰؍ ارب پتیوں کی فہرست جاری کی تھی جس میں رادھا کرشن دمانی ایک بلین ڈالر کے اثاثوں کی مالیت کے ساتھ ۱۰۰؍ ویں نمبر پر تھے۔ واضح رہے کہ دمانی ہر خاص و عام میں مقبول ’ڈی مارٹ‘ کے مالک ہیں جہاں کم قیمتوں میں گاہکوں کو ڈھیر سارا سامان مل جاتا ہے۔ فوربزکی مذکورہ رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۴ء میں ملک میں ۱۰۰؍ ارب پتی تھے جن کی تعداد ۲۰۲۵ء میں ۲۸۴؍ ہوگئی ہے۔ اس طرح اب دنیا بھر میں ارب پتیوں کی تعداد کے معاملے میں ہم تیسرے نمبر پر آگئے ہیں جبکہ پہلے اور دوسرے نمبر پر بالترتیب امریکہ اور چین براجمان ہیں۔ گزشتہ ۱۰؍ سال میں ہندوستان میں ارب پتیوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے مگر اس کی کیا وجوہات ہیں ؟
اس کی اہم ترین وجہ ڈجیٹل انقلاب کو قرار دیا جارہا ہے جس کی آمد نے دولت اور کاروبار کے روایتی راستوں میں خلل ڈالا، اور ایسے کاروباری افراد کے حق میں کام کیا جو ٹیکنالوجی اور نئے کاروباری ماڈلز کو جانتے ہیں اور اپنی سوجھ بوجھ سے اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان ۱۰؍ برسوں میں ہندوستان میں سب سے زیادہ اسٹارٹ اپس وجود میں آئے۔ ویلدی انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں ۴؍ لاکھ ۴۴؍  ہزار سے زائد اسٹارٹ اپس میں سے ۱۱۷؍ یونیکورنز (ایسے اسٹارٹ اپس جن کی مالیت ایک بلین ڈالر ہوجائے) بن چکے ہیں۔ ان میں بیشتر کا تعلق ڈجیٹل دنیا سے ہے۔ فن ٹیک، ای کامرس، انٹرنیٹ اور ایپس کے ذریعے کاروبار شروع کرنے والے افراد، ارب پتیوں کی فہرست میں تیزی سے شامل ہورہے ہیں۔ اس دوران اسٹاک مارکیٹ پر سرمایہ کاروں کی تعداد بڑھی ہے جس میں بھی ڈجیٹل انقلاب نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ کم قیمت والے اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ تک آسان رسائی نے لاکھوں لوگوں کو آن لائن کیا، اور یہ شیئر مارکیٹ میں براہ راست سرمایہ کاری کرنے لگے۔ 
فوربز کی سالانہ دولت کی فہرست میں شامل ۲؍ ہزار ۸۰۰؍ سے زائد ارب پتیوں پر نظر ڈالیں تو احساس ہوگا کہ ان کی دولت کی تخلیق صرف نئی ٹیکنالوجیز تک محدود نہیں ہے۔ مختلف شعبوں میں ارب پتیوں کی تعداد بڑھی ہے۔ مینوفیکچرنگ میں ۵۰۹، ٹیکنالوجی میں ۴۴۳، فنانس اینڈ انویسٹ مینٹ میں ۳۵۳، فیشن اینڈ ریٹیل میں ۳۱۸، ہیلتھ کیئر میں ۲۸۴، فوڈ اینڈ بیوریجس میں ۲۷۷، رئیل اسٹیٹ میں ۲۲۸، میڈیا اینڈ انٹرٹینمنٹ میں ۱۱۰، وہیکل میں ۱۰۱؍ اور دیگر میں ۲۰۶؍ ارب پتی ہیں۔ 
ہندوستان کی دولت کی تخلیق کی کہانی اب روایتی کاروباری خاندانوں یا روایتی شعبوں تک محدود نہیں رہی۔ انٹرپرینیورشپ اور ڈجیٹل ترقی نے ہندوستانیوں کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ دی وائر اور نیتی آیوگ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۲۰۱۴ء سے ۲۰۲۵ء کے درمیان ہندوستان میں غربت کی سطح بھی کم ہوئی ہے جس کی متعدد وجوہات بیان کی گئی ہیں جن پر ماہرین معاشیات نے سوال بھی قائم کئے ہیں۔ دی ہندو کی ۲۰۲۴ء کی ایک رپورٹ میں ماہرین نے ہندوستان میں غربت کی سطح جانچنے کیلئے استعمال ہونے والے اشاریوں پر شبہ کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ زمینی حالات رپورٹ کے برعکس ہیں۔ ہندوستان میں ارب پتیوں کی تعداد میں اضافہ خوش کن ضرور ہے مگر یہاں امیری اور غریبی کا خلاء کم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ سی پی آئی ایم کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے منظم شعبے اور غیر منظم شعبے کے ملازمین کی یومیہ اوسط تنخواہ بالترتیب ایک ہزار اور ۲۰۰؍ روپے ہے۔ ملک میں مہنگائی کی شرح میں ہر ماہ اضافہ ہورہا ہے، ایسے میں ۲۰۰؍ روپے یومیہ کمانے والے افراد کے حالات کا اندازہ آپ بخوبی لگاسکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ملک میں امیر امیر اور غریب غریب ہوتا جارہا ہے۔ لوگ خط افلاس سے اوپر آنے کی جدوجہد کرتے ہیں، اسے پار بھی کرلیتے ہیں مگر بڑھتی مہنگائی ان کی قوت خرید کو کم کردیتی ہے، اور یوں وہ اسی خط کے آس پاس بھٹکتے رہتے ہیں۔ 
ڈجیٹل ترقی نے لوگوں کو پیسے کمانے مختلف ذرائع ضرور فراہم کئے ہیں مگر یہاں بھی خوش قسمت افراد ہی اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ’’جدوجہد کرنے والے طبقہ‘‘ سے محض ۰ء۹؍ فیصد افراد ہی نکل پاتے ہیں۔ امیری اور غریبی کا خلاء اسی وقت کم ہوگا جب ملک میں دولت کی تقسیم کا روایتی طریقہ بدلے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’ڈی مارٹ‘‘ کے ذریعے کم قیمت میں ڈھیر ساری اشیاء فراہم کرنے والے رادھا کرشن دمانی اب ہندوستان کے ارب پتیوں کی فہرست میں ۱۷ء۹؍ بلین ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ ۹؍ ویں نمبر پر ہیں اور ۲۰۱۴ء کے ۷۵؍ ڈی مارٹ اب ۴۱۵؍ اسٹورز میں بدل چکے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK