بی جے پی اپنے آپ کو `پارٹی ’وِد اے ڈیفرینس‘ کہتی ہےلیکن یہاں جو جتنی زہریلی زبان بولتا ہے اس کا پروموشن اتنی ہی تیزی سے ہوتا ہے۔
EPAPER
Updated: October 01, 2023, 2:23 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
بی جے پی اپنے آپ کو `پارٹی ’وِد اے ڈیفرینس‘ کہتی ہےلیکن یہاں جو جتنی زہریلی زبان بولتا ہے اس کا پروموشن اتنی ہی تیزی سے ہوتا ہے۔
بی جے پی اپنے آپ کو `پارٹی ’وِد اے ڈیفرینس‘ کہتی ہےلیکن یہاں جو جتنی زہریلی زبان بولتا ہے اس کا پروموشن اتنی ہی تیزی سے ہوتا ہے۔ بی جے پی لیڈروں کو لگتا ہے کہ ایک مخصوص فرقے کے خلاف تضحیک اور توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے سے ’گبر‘ خوش ہوگا اور شاباشی دےگا۔پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے آخری دن بی جے پی کے رکن پارلیمان رمیش بدھوڑی نے مسلم ایم پی کنور دانش علی کے خلاف ایسے ناشائستہ الفاظ کا استعمال کیا جس کا ایوان میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انصاف کا تقاضا تھا کہ بی جے پی بدھوڑی کے خلاف سخت ایکشن لیتی مگر اس کے برعکس انہیں راجستھان اسمبلی انتخابات کیلئےضلع ٹونک کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔یہ مسلم اکثریتی ضلع ہے جہاں سے سچن پائلٹ الیکشن لڑتے ہیں ۔ انوراگ ٹھاکر،سادھوی پرگیہ ،ہیمنت بسوا شرما اور دیگر کئی ایسے لیڈر ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلا اور بی جے پی میں ان کا قد اونچا ہوگیا۔ اس فہرست میں اب رمیش بدھوڑی بھی شامل ہوگئے ہیں۔
مہاراشٹر ٹائمز(۲۵ -ستمبر)
اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’نئی پارلیمنٹ کے پہلے ہی اجلاس میں بی جے پی کے رکن رمیش بدھوڑی نے اشتعال انگیز تقریر کے ذریعہ دکھا دیا کہ ہم کس حد تک نیچے جاسکتے ہیں ۔ بدھوڑی کی دشنام طرازی کی ہر سطح پر مذمت ہورہی ہے لیکن بی جے پی نے انہیں صرف وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا جبکہ ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے تھی۔رمیش بدھوڑی کی بےہودہ بیان بازی کو بے اثر کیلئے جواز پیدا کیا جارہا ہے کہ ایوان میں پہلے بھی غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں لیکن یہ ایک بے معنی دلیل ہے۔ بدھوڑی کے خلاف ایسی سخت کارروائی ہونی چاہئے تھی کہ آئندہ کوئی بھی ایم پی اس طرح کے گھٹیا الفاظ اپنی زبان پر نہیں لاتا۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں داخل ہونے سے قبل وزیراعظم مودی نے پارلیمنٹ کی عظمت اور شاندار روایت کی خوب تعریف کی تھی۔اس روایت کو بدھوڑی جیسے لوگ داغدار کررہے ہیں ۔ خواتین کو۳۳ فیصد ریزرویشن دے کر پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کو یادگار بنانے کے مودی کے قابل ستائش فیصلے کو بدھوڑی نے نقصان پہنچایا ہے۔بی ایس پی کے ایم پی دانش علی کے مذہب پر حملہ کرنا نہایت ہی افسوسناک ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں بدکلامی اور گستاخی کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔ بعض اوقات ایسے بیانات کی مذمت کی جاتی ہے اور بہت ہوا تو غیر پارلیمانی الفاظ کو کارروائی سے خارج کردیا جاتا ہےلیکن اس سے آگے کچھ نہیں ہوتا۔آئین کے آرٹیکل ۱۰۵؍ کے مطابق اگر کسی رکن پارلیمان نے ایوان میں گستاخی یا بدکلامی بھی کی تو اسے حاصل شدہ خصوصی اختیارات کے سبب اس کے خلاف پولیس یا عدالتی کارروائی نہیں ہوسکتی ہے۔بدلتے وقت کے ساتھ اس طرح کی کئی شقوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔لوک سبھا کے قانون نمبر ۳۸۰؍ کے مطابق اسپیکر نامناسب زبان استعمال کرنے والے رکن کیخلاف کارروائی کر سکتا ہے لیکن یہ بھی معطلی تک محدود ہے۔‘‘
پربھات (۲۵ ؍ستمبر )
اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’سب کا ساتھ،سب کا وکاس اور سب کا وشواس۔۲۰۱۹ء کے انتخابات میں جیت کے بعد وزیراعظم مودی کا نظر ثانی شدہ نعرہ تھا۔انہوں نے پسماندہ مسلمانوں کا خیال رکھنے کی اپیل کی تھی اور بی جے پی کارکنان سے درخواست بھی کی تھی کہ وہ مسلم بہنوں سے راکھی بندھوائیں ۔نئی پارلیمنٹ کی عمارت میں خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے تمام اراکین سے پارلیمنٹ کے وقار کو برقرار رکھنے کا گرو منتر دیا تھا۔لیکن حکمرانوں کے قول وفعل میں ہمیشہ تضاد ہوتا ہے۔یہ اس وقت صحیح ثابت ہوا جب بی ایس پی کے رکن پارلیمان دانش علی کے خلاف بی جے پی کے رکن پارلیمان رمیش بدھوڑی نے انتہائی تضحیک آمیز تبصرہ کیا۔انہیں دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دیا۔یہاں چونکا والی بات یہ ہے کہ جس وقت بدھوڑی گالیاں بک رہے تھے سابق مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد اور سابق وزیر صحت ہرش وردھن قہقہے لگا رہے تھے۔بی جے پی کے بدزبان لیڈر بدھوڑی کو فوری پر پارٹی سے معطل کردینا چاہئے تھا لیکن لوک سبھا اسپیکر اوم برلا نے صرف ان کے بیان کو پارلیمانی کارروائی سے حذف کرنے کا حکم دیا اور مستقبل میں ایسی غلیظ زبان استعمال نہیں کرنے کیلئے انتباہ دیا۔دراصل اسپیکر کی کارروائی محض دکھاوے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔راہل گاندھی کی رکنیت منسوخ کی جاتی ہے سنجے سنگھ اور ڈیرک اوبرائن کو ایوان میں ہنگامہ کرنے کی پاداش میں معطل کردیا جاتا ہے لیکن بی جے پی کے رکن پارلیمان کو الگ انصاف دیا جاتا ہے۔یہ جانبداری نہیں ہے تو اور کیا ہے؟پارلیمنٹ کے قوانین کے مطابق غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے پر استحقاق کمیٹی خاطی رکن پارلیمان کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے تو پھر وہی انصاف بدھوڑی جیسے رکن کے ساتھ کیوں نہیں؟‘‘
آپلے مہانگر(۲۵؍ستمبر)
اخبار لکھتا ہے کہ’’گزشتہ کئی مہینوں سے وطن عزیز اور مہاراشٹر میں سیاسی لیڈروں کے ذریعہ سنتوں ،عظیم قائدین، قابل احترام شخصیات اور اپوزیشن لیڈران کے خلاف تضحیک آمیز بیانات دئیے جا رہے ہیں ۔دراصل ان لیڈران کو بولتے وقت شائستگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے مگر یہ لوگ بے ہودہ بیانات دیتے ہی اسلئے ہیں کہ انہیں سستی شہرت حاصل ہولیکن انہیں غور کرنا چاہئے کہ ایسے بیانات سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ۔جمہوریت میں سب کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے مگر اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی بھی دشنام طرازی پر اُتر آئے۔سیاست میں بے ہودہ بیانات کی روایت نئی نہیں ہے۔ آج تک بہتوں نے لغو اور متنازع بیانات دینے کی مختلف ’بلندیاں ‘ طے کی ہیں لیکن اب یہ مقابلہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ سب سے زیادہ اشتعال انگیز اور غیر ذمہ دارانہ بیان کون دے سکتا ہے؟دلچسپ بات یہ ہے کہ بیہودہ بیان بازی پرکسی ایک پارٹی کی اجارہ داری نہیں ۔مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران اس مقابلہ آرائی میں شامل ہیں ۔ نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار کا ڈیم کی خشکی پر دیا گیا بیان،بی جے پی لیڈر رام کدم کا لڑکی بھگانے کا مشورہ،پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا ہیمنت کرکرے سے متعلق متنازع تبصرہ،باگیشور مہاراج کا سنت تکارام پر رکیک حملہ، سمبھاجی بھڈے کا مہاتما گاندھی کے بارے میں متنازع بیان اور سابق گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی عظیم لیڈروں کے تعلق بے ہودہ بیان بازی اور اب رمیش بدھوڑی نےدانش علی کے خلاف مغلظات کی ساری حدوں کو پار کردیا۔ جب بدھوڑی دشنام طرازی کررہے تھے اسپیکر نے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی، اس کے برعکس بی جے پی کے دو سینئر وزراء خوب جم کر مزے لے رہے تھے۔ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جان بوجھ کر مسلم پارلیمان کو طنز کا نشانہ بنایاجارہا ہو۔‘‘