• Wed, 16 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

خواتین ریزرویشن بل کا مقصد ’ناری شکتی‘ ہے یا یہ محض سیاسی شعبدہ بازی ہے؟

Updated: September 24, 2023, 2:31 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

انتخابی سروے سے خوفزدہ بی جے پی نے خواتین کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں واضح اکثریت کے ساتھ خواتین ریزرویشن بل پاس تو کرلیا مگر بڑی چالاکی سے مردم شماری اورنئی حد بندی کی شرط بھی عائد کردی۔

The same can be said about the Women`s Reservation Bill that it has less sincerity and more politics. Photo: INN
خواتین ریزرویشن بل کے تعلق سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس میں اخلاص کم، سیاست زیادہ ہے۔ تصویر:آئی این این

انتخابی سروے سے خوفزدہ بی جے پی نے خواتین کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں واضح اکثریت کے ساتھ خواتین ریزرویشن بل پاس تو کرلیامگر بڑی چالاکی سے مردم شماری اورنئی حد بندی کی شرط بھی عائد کردی۔ حالانکہ اپوزیشن پارٹیوں کا مطالبہ ہے کہ اسے فوری طور پر نافذ کیا جانا چاہئے۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کانگریس کے زیادہ تر انتخابی وعدوں میں خواتین کی فلاح وبہبود پر زور دیا جارہا ہے جس سے بی جے پی پریشان ہوگئی ہے، اسلئے خواتین ریزرویشن بل کا کارڈ کھیلا گیا ہے۔
سامنا(۲۱؍ستمبر)
 اخبار اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’نئے پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح خواتین ریزرویشن بل کی منظوری کے ساتھ ہوا۔لوک سبھا میں بل کو غیر معمولی اکثریت کے ساتھ منظور کیا گیا۔خواتین کو سیاسی حقوق دلانے والا یہ بل گزشتہ۱۳؍ سال سے سرد خانے میں پڑا تھا۔مودی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں کچھ الگ کرنا چاہتے تھے جس کا آغاز انہوں نے خواتین ریزرویشن بل کی منظوری کے ساتھ کیا۔۱۲؍سال قبل اس بل پر راجیہ سبھا میں خوب ہنگامہ ہوا تھا جس کی وجہ سے یہ بل لوک سبھا میں پیش نہیں کیا جاسکالیکن اب۲۰۲۴ء کے عام انتخابات کو نظر میں رکھتے ہوئے مودی سرکار نے خواتین کے سیاسی حقوق کا داؤ چلا ہے۔خواتین کو لوک سبھا اور ودھان سبھا میں ۳۳؍ فیصد ریزرویشن ملے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایوان میں ان کی آواز بڑھ جائے گی۔لیکن کیا واقعی چند خواتین کے ایم پی اور ایم ایل اے بن جانے سے انہیں با اختیار بنایا جاسکے گا؟کیا خواتین کے حقوق،ان کی حفاظت اور ان کی عزت کو چار چاند لگ جائیں گے؟اگرچہ خواتین ریزرویشن بل کو منظور کرلیا گیا ہے مگر اس پر عمل درآمد۲۰۲۹ء کے عام انتخابات کے دوران ہی ہو پائے گاکیونکہ ہنوز مردم شماری کا عمل شروع نہیں ہوا ہے۔وہ کب پورا ہوگا؟ یہ اہم سوال ہے۔اگر مردم شماری ہو بھی جاتی ہے تواس کے بعد لوک سبھا کی نئی حد بندی کے بعد ہی اس بل پر عمل درآمد ہوگا۔یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا کام کاج خواتین ریزرویشن بل کی منظوری کے ساتھ شروع ہوا لیکن نئی پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب سے خاتون صدر دروپدی مرمو کو باہر رکھا گیا۔ اس کی پہلی وجہ یہ سمجھ میں آرہی ہے کہ صدر ایک قبائلی خاتون ہیں ۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ وہ ایک خاتون ہیں ، اسلئے کچھ لوگوں کی انا کو ٹھیس پہنچتی۔ایسے میں یہ حیران کن ہے کہ خاتون صدر کو پارلیمنٹ کے افتتاحی پروگرام سے دور رکھنے والی بی جے پی خواتین کی عزت اور وقار پر لیکچر دے رہی ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد لوک سبھا میں خواتین کی تعداد بڑھ کر ۱۸۱؍ہو جائے گی۔ایوان میں خواتین کی تعداد بڑھ جانے سے وہ مچھلی بازار بن جائے گا،ایسی تنقید درست نہیں ہے کیونکہ بلدیاتی اداروں میں خواتین نصف تعداد میں ہیں جہاں وہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔دنیا بھر میں کئی اہم اور اعلیٰ عہدوں پر خواتین فائز ہیں ۔ ہندوستان کے چندر یان کو چاند پر اتارنے والے سائنسدانوں کی ٹیم میں سب سے زیادہ خواتین تھیں ۔ورلڈ بینک، اقوام متحدہ ، بیرون ملک ہندوستانی ہائی کمیشن ،سینٹرل ایڈمنسٹریٹو سروس میں آج خواتین افسران کا غلبہ ہے۔اندرا گاندھی کا کوئی جواب نہیں تھا۔بی جے پی نے اسمرتی ایرانی جیسی کچھ خواتین کو پارلیمنٹ میں لایا لیکن ان کا سماجی کاموں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔وہ بس گاندھی خاندان پر کیچڑ اچھالنے کا کام کرتی ہیں۔‘‘
سکال(۲۰؍ستمبر)
 اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’کم ازکم چھ دہائیوں سے یہ بحث جاری ہے کہ خواتین کو سیاسی اقتدار میں حصہ دیئے بغیر ملک میں سماجی تبدیلی کا عمل ادھورا رہے گا لیکن اس جانب کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ میں خواتین ریزرویشن بل کی منظوری ایک تاریخی فیصلہ ہے۔وزیر قانون ارجن میگھوال نے ’ناری شکتی وندن ایکٹ‘ پیش کیا جسے اکثریت کے ساتھ منظور کرلیا گیا۔حکومت کی جانب سے خصوصی اجلاس کے اعلان کے بعد یہ سوال پوچھا جارہا تھا کہ وزیر اعظم مودی لوک سبھا انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے کون سا ماسٹر اسٹروک ماریں گے؟اس کا ایک جواب خواتین ریزرویشن بل کی صورت میں مل چکا ہے۔خواتین کو تمام شعبوں میں مساوی مواقع ،ہر جگہ یکساں حقوق اور قانونی اختیارات دینے کی قانونی جنگ دنیا کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔آج بھی پارلیمنٹ اور قانون ساز اسمبلی میں خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ ۱۹۸۹ء میں سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے آئین میں ترمیم کرکے شہری اور دیہی بلدیاتی اداروں میں خواتین کی نمائندگی۳۳؍ فیصد کی تھی۔بعد میں نرسہما راؤ سرکار نے۷۲؍ ویں اور۷۳؍ ویں آئین میں ترمیم کرکے اسے قانونی حیثیت دی۔۱۹۹۶ء میں دیوے گوڑا حکومت نے پارلیمنٹ میں خواتین ریزرویشن بل پیش کیا لیکن اسے مسترد کردیا گیاتاہم اس بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا۔اس بنیاد پر سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے چار مرتبہ کوشش کی مگر کامیابی نہیں ملی۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت نے ۲۰۱۰ء میں اس بل کو منظور کرانے کی کوشش کی لیکن یہاں بھی ناکامی حاصل آئی۔ مودی سرکار کی جانب سے خواتین ریزرویشن بل کو پیش کرنے کے پیچھے سیاسی مقصد کارفرما ہے۔ چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور۲۰۲۴ء کے پارلیمانی انتخابات کو سامنے رکھ کر اس بل کو لوک سبھا میں پیش کیا گیا۔مودی ہر سیاسی چال کو سوچ سمجھ کر کھیلتے ہیں ؟اس کی ایک مثال پرانی پارلیمانی عمارت کو الوداع کہتے ہوئے نئی عمارت میں داخل ہونے کے بعد ان کی وہ جذباتی تقریر تھی جس میں انہوں نے پنڈت نہرو اور لال بہادر شاستری وغیرہ کا ذکر تو کیا لیکن یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی کہ آج جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کا کریڈٹ بی جے پی کو ہی جاتا ہے۔‘‘
پنیہ نگری (۲۲؍ستمبر)
 اخبار نے لکھا ہے کہ’’سماجی اصلاح کی راہ کبھی آسان اور سیدھی نہیں ہوتی ہے۔اس راستے پر کئی موڑ آتے ہیں اور رفتار بھی دھیمی ہوتی ہیں ۔جمہوری ملک میں مزید رکاوٹیں ہوتی ہیں ۔تین دہائیوں کے طویل انتظار کے بعد لوک سبھا میں منظور ہونے والے خواتین ریزرویشن بل سے یہی ثابت ہواہے۔ملک کی۵۰؍ فیصد آبادی کو ریزرویشن دینے کیلئے جس راز داری سے حکومت کو یہ بل لانا پڑا،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی فائدے کے باوجود سماجی اصلاحات کی مخالفت کا خوف کس قدر غالب ہے۔چونکہ لوک سبھا انتخابات کو محض چند ماہ باقی ہیں اسلئے بل پر کریڈٹ لینے کی ہوڑ فطری ہےلیکن کریڈٹ لینے کے چکر میں لوگ بھول گئے کہ خواتین ریزرویشن کا تصور سب سے پہلے مہاراشٹر کی رکن پارلیمان آنجہانی پرمیلا ڈنڈوتے نے ایوان کے سامنے رکھا تھا۔انہوں نے دیوے گوڑا سرکار میں خواتین ریزرویشن بل کی تجویز پیش کی تھی اور حکومت کو جوائنٹ کمیٹی بنانے پر مجبور کیا تھا۔ مودی سرکار نے بھلے ہی بل کو دونوں ایوانوں میں منظور کروا لیا مگر اسے حقیقت بننے میں کم از کم پانچ سال لگنے کا امکان ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK