Inquilab Logo Happiest Places to Work

’ایک ملک،ایک الیکشن‘ پر ہونے والی گفتگو، بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے

Updated: September 10, 2023, 4:09 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

اپوزیشن کا اتحاد ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے مگر بد سر اقتدار طبقے میں زبردست ہلچل دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر متوقع طور پرپارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کا اعلان کردیا گیا ہے اور اسی حوالے سے ’ون نیشن،ون الیکشن‘ کا شوشہ چھوڑدیا گیا ہے۔

BJP does not want to stay away from power in any case, it can do anything for that. Photo: INNPhoto. INN
بی جے پی کسی بھی صورت میں اقتدار سے دور نہیں رہنا چاہتی، اس کیلئے وہ کچھ بھی کرسکتی ہے۔ تصویر:آئی این این

اپوزیشن کا اتحاد ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے مگر بد سر اقتدار طبقے میں زبردست ہلچل دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر متوقع طور پر پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کا اعلان کردیا گیا ہے اور اسی حوالے سے ’ون نیشن،ون الیکشن‘ کا شوشہ چھوڑدیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ ’ انڈیا اور بھارت‘ کا تنازع بھی شروع کردیاگیا ہے۔ایسا لگتا ہے بی جے پی اقتدار سے دور ہونا نہیں چاہتی،اسلئے وہ ہر ممکن حربے استعمال کر رہی ہے۔ایک ملک ایک انتخاب کا نعرہ اسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔اپوزیشن کا الزام ہے کہ بی جے پی ایک ملک ایک الیکشن کے ذریعہ تمام ریاستوں کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتی ہے ۔آئیے دیکھتے ہیں اس موضوع پر مراٹھی اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے ۔
سکال(۴؍ستمبر)
 اخبار اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’جب عرس البلاد ممبئی میں انڈیااتحاد کا تیسرا اجلاس چل رہا تھا، پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر پرہلاد جوشی نے سوشل میڈیا کے ذریعہ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کا اعلان کرکے اپوزیشن کو جھٹکا دیا۔چونکہ حکومت نے ابھی تک ایجنڈہ کا اعلان نہیں کیا ہے اسلئے اپوزیشن پارٹیاں تذبذب کا شکار ہیں ۔ دریں اثنا بی جے پی صدر جے پی نڈا نے سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی قیادت میں ’ایک ملک ،ایک الیکشن‘پر ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کا بھی اعلان کردیا ہے۔اسلئے خصوصی اجلاس میں ایک ساتھ الیکشن کرانے پر بل لانے کا امکان ہےلیکن کم وقت میں ایوان میں بل پیش کروا کر اسے منظوری دینا آسان نہیں ہوگا۔یکساں سول کوڈ ،خواتین ریزرویشن بل یا ایک ملک ایک الیکشن جیسے متنازع بل ایوان میں پیش کئے جاتے ہیں تو اپوزیشن کو آنے والے اسمبلی انتخابات میں نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔ کیا یہ مودی سرکار کا یہ آخری اجلاس ہوگا؟ اس پر بھی تجسس برقرار ہے۔دوسری طرف اس حربے کو انڈیا اتحاد کو غیر مستحکم کرنے کی بی جے پی کی حکمت عملی کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔اپوزیشن کے اتحاد اور اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر بی جے پی یوں خاموش نہیں بیٹھ سکتی۔انڈیا اتحاد کو زیر کرنے کیلئے سام دام ڈنڈ بھید کا استعمال کیا جائے گا۔ فی الحال انتخابی سروے میں کسی بھی ریاست میں بی جے پی کو تسلی بخش کامیابی ملتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔توقع کے مطابق نتائج آئے تو مودی کا جادو ماند پڑ جائے گا جس کے اثرات آنے والے لوک سبھا انتخابات میں پڑ سکتے ہیں ۔ اس سے بچنے کیلئے مودی حکومت کو عوام کی توجہ مقامی مسائل سے ہٹا کر قومی اور بین الاقوامی مسائل کی جانب مبذول کرنی ہوگی۔ایک وقت میں انتخابات ہوتے ہیں تو ریاستوں کے مسائل پیچھے چلے جائیں گے اور ڈبل انجن والی سرکار کے طور پر رائے دہندگان کسی ایک قومی پارٹی کو ووٹ دیں گے۔بی جے پی کیلئے ایک ملک ایک الیکشن کا موضوع نیا نہیں ہے۔جب اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے تب بھی انہوں نے یہ موضوع زور و شور سے اٹھایا تھا۔بہرحال اس سیشن میں ایک ملک ایک الیکشن کا بل پاس ہونا مشکل ہے ۔اگر کوشش بھی کی جائے تو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں منظوری کیلئے دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔اگر سرکار اسے لوک سبھا میں پاس بھی کروا لیتی ہے تب بھی راجیہ سبھا میں دشواری ہو گی۔‘‘
پربھات(۴؍ستمبر)
 اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’بی جے پی کے لیڈران۱۹۷۷ء اور۱۹۸۹ء کی تاریخ سے بخوبی واقف ہیں ۔ اگر اپوزیشن پارٹیاں سبھی اختلافات پس پشت ڈال کر ایک طاقتور پارٹی کے سامنے اکٹھی ہو جائیں تو مضبوط ترین پارٹی کو آسانی سے شکست دی جاسکتی ہے۔کیونکہ اُس وقت ناقابل شکست تسلیم کی جانے والی کانگریس پارٹی کو دو مرتبہ ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ۲۰۱۴ء میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد تمام بی جے پی مخالف پارٹیوں کی یہ پہلی کوشش ہے جب وہ ایک ساتھ الیکشن لڑنے جارہی ہیں ۔۲۰۱۹ءمیں ہندوتوا اور مودی لہر کی وجہ سے۳۷ء۵؍ فیصد ووٹ حاصل کرکے اقتدار میں آنے والی بی جے پی کو اندازہ ہے کہ’ ون ٹو ون‘ لڑائی میں جیت کی راہ آسان نہیں ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے ایجنڈہ میں شامل ایک ملک ایک الیکشن کا شوشہ چھوڑدیا گیا ہے۔ایسا کہا جاسکتا ہے کہ انڈیا اتحاد سے توجہ ہٹانے کی یہ ایک کوشش ہے۔بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی نے ایک ملک ایک الیکشن کا موقف پیش کیا تھا لیکن اب مودی اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کررہے ہیں ۔دراصل ایک ساتھ الیکشن کرانے کا موضوع کوئی نیا نہیں ہے۔۱۹۵۲ءمیں ملک اور تمام ریاستوں میں ایک ساتھ الیکشن ہوئے تھےلیکن کچھ ہی انتخابات کے بعدالگ الگ ریاستوں میں اکثریت کھودینے کے بعد سرکار گر گئی جس کی وجہ سے انتخابات کا شیڈول بدل گیا۔ہندوستان کی۷۶؍ سالہ تاریخ میں مرکزی حکومت کی جانب سے آرٹیکل۳۵۶؍ کا استعمال کرکے حکومت برخاست کرنے کے متعدد واقعات ہوچکے ہیں ۔اندرا گاندھی کے دور میں کئی ریاستوں کی سرکاروں کو بر طرف کیا گیا تھا۔ وہیں ایمرجنسی نافذ کرکے لوک سبھا کی مدت ایک سال بڑھا دی گئی تھی جس کے بعد ایک ملک ایک الیکشن کی مساوات بگڑ گئی لیکن ایسے ہی واقعات ان ممالک میں بھی ہوتے ہیں جہاں پارلیمانی نظام ہے۔ یہاں تک کہ انگلستان،جہاں کا پارلیمانی نظام ہمارے ملک میں رائج ہے،وہ بھی ان حالات سے محفوظ نہیں ہے۔تو پھر اب ایک ملک ایک الیکشن کا شوشہ چھوڑناچہ معنی دارد!فرض کریں کہ دسمبر ۲۰۲۳ء میں ملک کی سمیت تمام ریاستوں میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیاتو کیا وہ ریاستیں جہاں ایک،دو سال پہلے ہی اسمبلی انتخابات ہوئے تھے،دوبارہ الیکشن کیلئے راضی ہو جائیں گی؟اس سوال کا جواب حکومت کے پاس نہیں ہے۔‘‘
پڈھاری (۴؍ستمبر)
 اخبار لکھتا ہے کہ ’’کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں کاموقف ہے کہ ایک ساتھ الیکشن منعقد کرنا مناسب نہیں ہے۔ایک ساتھ الیکشن کرانے کی باتیں جتنی آسان نظر آتی ہیں ، اتنی ہیں نہیں ۔ یہ بہت ہی پیچیدہ ہےلہٰذا حکومت کو اس معاملے میں احتیاط کے ساتھ اقدامات کرنے ہوں گے۔سرکار کا دعویٰ ہے کہ پارلیمنٹ اور تمام قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے سے وقت اور پیسوں کی بچت ہوگی لیکن یہ صرف ایک پہلو ہے۔ہندوستان جیسے کثیر آبادی والے ملک میں ایک ساتھ الیکشن منعقد کرنا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ اس کیلئے دستور میں ترمیم اور بڑے پیمانے پر انتخابی انتظامات کرنا بے حد مشکل ہے۔ سب سے پہلے۱۹۸۳ء میں الیکشن کمیشن نے مشترکہ انتخابات کے انعقاد کی تجویز پیش کی تھی لیکن اس وقت کی حکومت نے اس تجویز کی مخالفت کی تھی۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK