Inquilab Logo

بی جے پی ’انڈیا‘ سے اتنی زیادہ خوفزدہ کیوں ہےکہ وہ ملک کا نام ہی بدلنے جارہی ہے؟

Updated: September 17, 2023, 4:41 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

انگریزی کے معروف شاعر ولیم شیکسپیئر کے شہرہ آفاق ڈراما رومیو جولیٹ میں ایک مشہور سوال جو بعد میں زبان زد ہو گیا کہ نام میں کیا رکھا ہے؟ لیکن ایسا لگتا ہے مودی سرکار کو چنندہ ناموں سے خدا واسطے کا بیر ہے۔

This is probably the first time that `Bharat` has been written instead of `India` on the nameplate of the Prime Minister at a global event. Photo: INN
یہ شاید پہلا موقع ہے کہ کسی عالمی تقریب میں وزیراعظم کے نام کی تختی پر ’انڈیا‘ کی جگہ ’بھارت‘ لکھا گیا ہے۔ تصویر:آئی این این

انگریزی کے معروف شاعر ولیم شیکسپیئر کے شہرہ آفاق ڈراما رومیو جولیٹ میں ایک مشہور سوال جو بعد میں زبان زد ہو گیا کہ نام میں کیا رکھا ہے؟ لیکن ایسا لگتا ہے مودی سرکار کو چنندہ ناموں سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ قدیم شہروں اور عمارتوں کے نام تبدیل کرنے والی بی جے پی سرکار اب انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے بہانے ’انڈیا‘ کو’بھارت‘ میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ حکومت نے اس سمت میں آہستہ آہستہ شوشے چھوڑنے کا کام شروع کردیا ہے۔ بی جے پی انڈیا کا نام محض اسلئے تبدیل کرنا چاہتی ہے کیونکہ اپوزیشن نے اپنے اتحاد کا نام ’انڈیا‘ رکھ لیا ہے جس سے وہ خوفزدہ ہے۔ہمیں نہیں لگتا ہے کہ نام کی تبدیلی سے کوئی خاص فرق پڑے گا اور اپوزیشن کو کوئی نقصان ہوگا۔
سامنا(۱۰؍ستمبر)
 اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ "ہم نے پہلی بار ایک ایسی حکومت دیکھی ہے جو ملک کے آئین کے منظور کردہ نام سے خوف زدہ ہے۔مودی سرکار نے’انڈیا’ کا نام بدل کر `’رپبلک آف بھارت‘ کردیا ہے۔جب صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے عشائیہ کے دعوت نامہ میں انڈیا کے بجائے بھارت کا ذکر کیا تب ملک کے عوام کو پتہ چلا کہ بی جے پی نےدنیا بھر میں اپنی ایک الگ پہچان رکھنے والے انڈیا کو مٹانے کی کوشش شروع کردی ہے۔نہرو سے لے کر مودی تک انڈیا کے وزیراعظم کی حیثیت سے پوری دنیا میں ہمیں عزت ملی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ مودی سرکار کے من میں انڈیا کے تئیں اچانک اتنی نفرت کیسے پیدا ہوگئی؟ دراصل ملک کی۲۷؍ سیاسی جماعتیں مودی سرکار کی آمرانہ حکومت کے خلاف متحد ہوگئیں اور اس نے اپنے محاذ کا نام ’انڈیا‘رکھ لیا ۔اس محاذ کا سامنا کرنا مشکل ہے چنانچہ مودی سرکار نے ملک کا نام ہی بدل دیا۔لیکن آئین میں انڈیا اور بھارت دونوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ہندوستانی آئین کے آرٹیکل ایک میں واضح طور پر لکھا ہے کہ انڈیا مطلب بھارت۔محض مودی سرکار کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے انڈیا نام کو بدلا نہیں جاسکتا ہے۔جی۲۰؍ کی میٹنگ کیلئے تیار کردہ کتابچہ میں ملک کا نام بدل کر بھارت کردیا گیا ہے۔اس کتابچہ میں کہا گیا ہے کہ بھارت ملک کا سرکاری نام ہےجس کا ذکر آئین میں بھی موجود ہے۔’بھارت دی مدر آف ڈیموکریسی‘اس عنوان سے شائع کی گئی کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔لیکن سرکار نے انڈیا کو بھارت میں بدلنے سے پہلے عوام کی کوئی رائے نہیں لی۔ ملک کی ۲۷؍ سیاسی جماعتیں انڈیا نامی اتحاد نہیں بناتیں تو بی جے پی کو بھارت کا خیال کبھی نہیں آتا۔انڈیا کو بھارت کہنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا لیکن بین الاقوامی سطح پر انڈیا کی ایک برانڈ ویلیو ہے۔اس برانڈ ویلیو کو ختم کرنے کی حماقت کسی بھی سرکار کو نہیں کرنی چاہئے۔‘‘
آپلے مہانگر(۸؍ستمبر)
 اخبار نے لکھا ہے کہ ’’اس ہفتے یوں تو دنیا کی توجہ جی۲۰؍ کے اجلاس پر مرکوز تھی لیکن ملک میں ’انڈیا‘اور’بھارت‘ کے موضوع پر حکمراں اور اپوزیشن کے درمیان زبانی جنگ چل رہی تھی۔مرکزی حکومت نے۱۸؍ ستمبر سے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیا ہے۔ اس درمیان وزیر اعظم مودی نے ایک ملک ایک انتخاب کا شوشہ بھی چھوڑدیا ہے۔پارلیمنٹ میں اس پر عام رائے بنانے پر بحث ہونے کا قوی امکان ہے۔لیکن اتنے کم وقت میں اس حوالے سے قانون پاس ہونا ممکن نہیں ہے۔این آر سی اور سی اے اے پر کچھ فیصلہ کرنے کی امید بھی جتائی جارہی ہے۔اب اچانک مرکزی حکومت نے’بھارت‘ اور’انڈیا‘کا موضوع چھیڑ کر ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے۔اپوزیشن دعویٰ کررہی ہے کہ مودی سرکار’ انڈیا‘ اتحاد سے ڈر گئی ہے اسلئے بھارت بولنے پر اصرار کررہی ہے۔ایک ایسا ملک جہاں شہریوں کے سامنے مسائل کا انبار لگا ہو۔ وہاں اس بات پر بحث کی جارہی ہے کہ ملک کو بھارت کہا جائے کہ انڈیا۔اگرچہ ملک کے سائنسدانوں نے چندر یان کی کامیابی کے بعد سورج پر تحقیق شروع کردی ہے مگر ہمارے سیاست داں اسی میں الجھے ہوئے ہیں کہ ملک کا نام کیا ہوگا؟عین تہواروں کے موسم میں مہنگائی عروج پر ہے۔دالوں کی قیمتوں میں روز بہ روز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔کسانوں کی حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔پیاز اور ٹماٹر کی قیمت عوام کی گرفت سے باہر ہیں ۔ کئی سال سے ملک کی یہی صورتحال ہے لیکن اسے بدلنے کیلئے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ایک طرف ہم خلائی سائنس میں لمبی چھلانگ لگا رہے ہیں مگر بے روزگاری کے معاملے میں تنزلی ہماری پہچان بن گئی ہے۔ پھر بھی حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے درمیان انڈیا اور بھارت پر بحث جاری ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی سرکار نے بے روزگاری کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے میک ان انڈیا ،اسکل انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا اور ڈیجیٹل انڈیا جیسی اسکیمیں شروع کی تھیں مگر اب مودی سرکار اسی انڈیا کو بدلنے کی کوشش کررہی ہے۔وہیں اپوزیشن کو ایسا لگ رہا ہے کہ انڈیا اور بھارت کی لڑائی انہوں نے جیت لی ہے لیکن کیا انہیں اس کا احساس ہے کہ ان کی ذمہ داری اس کہیں زیادہ ہے۔‘‘
نوشکتی(۷؍ستمبر)
 اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’ایسا لگتا ہے حکومت کے پاس اب صرف ایک ہی مسئلہ رہ گیا ہے کہ ملک کا نام ’بھارت‘ یا ’انڈیا‘ہونا چا ہئے۔جی۲۰؍ کے مندوبین کیلئے صدر دروپدی مرمو کی جانب سے منعقدہ عشائیے کے دعوت نامہ میں انڈیا کی جگہ بھارت استعمال کرنے پر اپوزیشن جماعتوں نے سخت اعتراض جتایا۔انڈیا اتحاد کی اہم پارٹیوں نے حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار نے اپوزیشن کے اتحاد اور مقبولیت سے بوکھلا کر اور گھبرا کر ملک کا نام بدلنے کا شوشہ چھوڑا ہےلیکن ’انڈیا‘ سے اس قدر خوفزدہ بی جے پی سرکار نے اپنی کئی اسکیموں کے نام میں ’انڈیا‘ لفظ کا استعمال کیا ہے۔ حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ حکومت خصوصی پارلیمانی اجلاس میں ’انڈیا‘ کو ہٹا کر’بھارت‘ کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کرنے جا رہی ہے۔ مودی ۲۰۱۴ء سے وزیر اعظم ہیں گزشتہ۹؍ سال میں ’انڈیا‘ کے بجائے ’بھارت‘ استعمال کرنے پر کبھی اصرار نہیں کیا اب اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ حکومت’انڈیا‘ سے اتنی نفرت کرنے لگی ہے۔ شرد پوار نے حکومت کی سوچ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے بجائےبھارت کہنے پر اصرار کرنے کی وجہ اپوزیشن کے’انڈیا‘ اتحاد کی تشکیل ہے۔اپوزیشن کے اتحاد سے خوفزدہ بی جے پی عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے نام تبدیل کرنے کا حربہ استعمال کررہی ہے۔بھارت یقیناً آئینی لفظ ہے مگر انڈیاکو ہٹانے کیلئے حکومت کو نہ صرف آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی بلکہ ملک کے کروڑوں روپے بھی برباد کرنے پڑیں گے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK