Inquilab Logo

کیا ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترا کی رُکنیت منسوخ کردی جائےگی؟

Updated: November 19, 2023, 3:49 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

۲۰۰۵ میں پارلیمنٹ میں پیسوں کے عوض سوال پوچھنے کا ایک معاملہ سامنے آیا تھا۔ نیوز پورٹل ’کوبرا پوسٹ‘`کے اسٹنگ آپریشن میں ۱۱؍اراکین پارلیمان پکڑے گئے تھے جن میں سے ۶؍ کا تعلق بی جے پی سے تھا۔

Has Mahua Moitra  been punished for asking questions against BJP, Prime Minister Modi and Adani? Photo: INN
کیا مہوا موئترا کو بی جے پی، وزیراعظم مودی اور اڈانی کے خلاف سوال پوچھنے کی سزا ملی ہے؟۔ تصویر : آئی این این

۲۰۰۵ میں پارلیمنٹ میں پیسوں کے عوض سوال پوچھنے کا ایک معاملہ سامنے آیا تھا۔نیوز پورٹل ’کوبرا پوسٹ‘`کے اسٹنگ آپریشن میں ۱۱؍اراکین پارلیمان پکڑے گئے تھے جن میں سے ۶؍ کا تعلق بی جے پی سے تھا۔ جب انہیں برطرف کیا گیا تھا تو بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی نے اسے ’کنگارو کورٹ‘ کا فیصلہ قرار دیتے ہوئے ایوان کا بائیکاٹ کیا تھا۔بعدازاں سپریم کورٹ نے بھی اراکین کی برطرفی کو برقرار رکھا تھا۔۱۸؍سال بعد تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے لیکن اس بار معاملہ انتقامی سیاست کا ہے۔ لوک سبھا کی اخلاقیات کمیٹی نے مہوا موئترا پر سوال پوچھنے کیلئے نقدی اور تحائف وصول کرنے کا سنگین الزام عائد کیا ہے اور اسی الزام کے حوالے سے ان کی لوک سبھا رکنیت رد کرنے کی سفارش کی ہے۔ان کی برطرفی کی سفارش کو برسر اقتدار طبقے سے باز پرس کرنے کی سزا کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں مراٹھی اخبارات نےاس موضوع پر کیا کچھ لکھا ہے؟
لوک ستہ(۱۳؍نومبر)
مراٹھی کے معروف کالم نویس مہیش سارلشکا لکھتے ہیں کہ ’’مغربی بنگال کے کرشنا نگر سے ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترا کا پارلیمنٹ میں مستقبل طے شدہ ہے۔ انہیں سرمائی اجلاس کے پہلے دو دنوں میں نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے خلاف بھی نااہلی کی ایسی ہی کارروائی کی گئی تھی۔ مہوا موئترا اور راہل گاندھی دونوں ہی نے بی جے پی کے خلاف ذاتی اور سیاسی جنگ لڑنے میں جارحانہ رخ اختیار کیا ہوا ہے۔بی جے پی نے راہل گاندھی کو ذاتی طور پر بدنام کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن کانگریس لیڈر ذہنی طور پر سخت جاں نکلے۔ انہوں نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے ذریعہ اپنی مقبولیت کا احساس کروا کر بی جے پی کے پروپیگنڈہ کی ہوا نکال دی۔مہوا موئترا کو بھی راہل گاندھی کی طرح بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہےلیکن مہوا موئترا بھی ذہنی طور پر بڑی سخت جاں معلوم ہوتی ہیں ۔خاتون پارلیمان ہونے کے ناطے ان کا خوب مذاق اڑایا گیا، ان کی پارٹی نے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی،سیاسی دشمنوں نے نجی زندگی کے حوالے سے انہیں بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔اتنے حملوں کے باوجود موئترا نے بی جے پی کے خلاف انتہائی جارحانہ رخ اختیار کیا ہوا ہے۔۱۷؍ ویں لوک سبھا سے نااہل قرار دیئے جانے سے موئترا کا سیاسی کریئر ختم نہیں ہوگا بلکہ اس میں مزید نکھار آنے کے آثار ہیں۔ مہوا موئترا کا شمار اپوزیشن کے ان غیر معمولی اراکین میں ہوتا ہے جنہوں نے بی جے پی کی نیند حرام کررکھی ہے۔ یہ راہل گاندھی ہی تھے جنہوں نے مودی اور اڈانی کے مبینہ تعلقات پر انگلی اٹھائی اور پھر موئترا نے اڈانی معاملے پر مسلسل وزیر اعظم مودی، ٬مرکزی حکومت اور بی جے پی کو نشانہ بنایا۔ایسی تیز طرار رکن پارلیمان کو خاموش کرنے کا بہانہ تلاش کیا جارہا تھا۔ انہیں خاموش کرنے کا آسان راستہ یعنی ذاتیات پر حملہ تھا اور بی جے پی نے اسی ہتھیار سے حملہ کیا۔اخلاقیات کمیٹی نے بھی نقد لین سے زیادہ ان کی نجی زندگی سے متعلق سوالات پوچھے۔ایسا لگتا ہے جان بوجھ کر مہوا کی رکنیت کو منسوخ کرنے کی سازش ہورہی ہے۔‘‘
مہاراشٹر ٹائمز(۱۱؍نومبر)
 اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’لوک سبھا میں سوال پوچھنے کیلئے پیسے لینے کا الزام عائد کرکے ٹی ایم سی کی رکن پارلیمان مہوا موئترا کو نااہل قرار دینے کی اخلاقیات کمیٹی کی سفارش سے تنازع مزید گہرا ہونے کی امید ہے۔کمیٹی کے ۱۵؍ میں سے ۱۰؍ اراکین کی موجودگی میں ہونے والی میٹنگ میں ۴؍ ممبران نے کارروائی کے خلاف ووٹ کیا۔کمیٹی کے کام کاج پر موئترا کی تنقید،حکمراں بی جے پی کے بیانات اور ترنمول کانگریس کا موقف،اس پورے معاملے پر ہونے والی سیاست کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ کیس اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ عوامی نمائندے کا رویہ کیسا ہونا چاہئے اور کیا حکومت پر تنقید کرنا کوئی جرم ہے؟تادیبی کمیٹی نے موئترا کے رشوت لینے اور ایوان میں سوالات پوچھنے کے عمل کو قابل اعتراض، غیر اخلاقی اور مجرمانہ نوعیت کا پایا ہے۔اس سے قبل ۱۱؍ اراکین پارلیمان کو اسی طرح کے الزامات کے سبب اپنی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔اگرچہ اسی بنیاد پر ترنمول کانگریس کی لیڈر پر فیصلہ سنایا گیا ہے لیکن اخلاقیات کمیٹی کا کوئی ضابطہ نہیں ہے، اسے تیار کرنے کا کام ۲۰۱۷ء سے تعطل کا شکار ہےلہٰذا ضوابط کی عدم موجودگی میں معطلی کی کارروائی کیسے ہوسکتی ہے؟مہوا موئترا کے سابق دوست اور سپریم کورٹ کے وکیل اننت دیہاد رائے اور صنعت کار درشن ہیرانندانی اس کیس کے تین اہم کردار ہیں ۔موئترا پر الزام ہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں صنعتکار درشن ہیرانندانی سے پیسے لے کر اڈانی کے خلاف سوالات پوچھے۔وکیل اننت دیہاد رائے نے موئترا کے خلاف سی بی آئی میں بھی شکایت درج کروائی ہے جس کا تادیبی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں حوالہ دیاہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اخلاقیات کمیٹی نے دیہاد رائے کی طرح صنعت کار درشن ہیرانندانی کی گواہی کو کیوں ریکارڈ نہیں کیا۔اگرچہ اسپیکرکو کارروائی کا حق حاصل ہے لیکن انہیں بھی عدالت سے فریاد کرنے کی آزادی ہے۔‘‘
سکال(۱۰؍نومبر)
اخبار لکھتا ہے کہ ’’پارلیمنٹ کیلئے منتخب ہونے کے بعد اراکین کو کچھ خصوصی مراعات حاصل ہوتی ہیں ۔اپوزیشن کے اراکین کو مزید اختیارات حاصل ہوتے ہیں ۔وہ ہیں حکمراں جماعت کو سوالات کے گھیرے میں لینا۔ اپوزیشن کے اراکین عوام کی بھلائی کیلئے حکمراں جماعت سے سوالات پوچھتے ہیں ۔یہ درحقیقت ان کا فرض ہے۔ جمہوریت کا پہیہ بھی انہی سوالات کی بنیاد پر دوڑتا ہے۔سوالات کی طاقت برسراقتدار طبقے کے پاس نہیں ہوتی ہے۔اگر ہوتی بھی ہے تو حکمراں جماعت کے اراکین اس کا استعمال کم کرتے ہیں۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اپنی ہی پارٹی سے سوال پوچھنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہےلیکن جب کسی رکن پر پیسے لے کر سوال پوچھنے کا الزام عائد ہوتا ہے تو معاملہ سنگین صورت حال اختیار کرلیتاہے۔اس وقت ترنمول کانگریس کی رکن مہوا موئترا پر پارلیمنٹ میں پیسے کے عوض سوال پوچھنے کا الزام ہے جس کی تصدیق کرتے ہوئے اخلاقیات کمیٹی نے اسپیکرسے ان کی معطلی کی سفارش کی ہے۔مہوا معاشیات کی باریکیوں سے واقفیت اور بینکنگ سیکٹر میں اچھا خاصا تجربہ رکھتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں اکثر مودی سرکار کی اقتصادی پالیسیوں پر تنقید کی ہےلیکن اُن پر تحائف کے عوض اپنا آئی ڈی اورپاس ورڈ دبئی کے ایک تاجر کو دینے کا سنگین الزام ہے، حالانکہ انہوں نے پیسے لے کر سوال پوچھنے کے الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK