Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسماعیل ہانیہ کی شہادت

Updated: August 01, 2024, 1:57 PM IST | Mumbai

تمام تر جدید اسلحہ اور شیطنت سے لبریز سراغرسانی کے باوجود اسرائیلی اہل اقتدار کو، اسماعیل ہانیہ کو موت کے منہ میں دھکیلنے کا ناپاک مقصد پورا کرنے کیلئے ۲۰۰۳ء سے ۲۰۲۴ء تک ۲۱؍ سال کا عرصہ درکار ہوا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

فلسطینی رہنما اسماعیل ہانیہ، اسرائیل کے نشانے پر ہونے کی حقیقت سے خود بھی واقف رہے ہونگے۔ ۷؍ اکتوبر ۲۳ء، جب اسرائیل نے غزہ کیخلاف وحشیانہ انتقامی کارروائی کا آغاز کیا تھا، کے بہت پہلے سےاُنہیں علم رہا ہوگا کہ اسرائیلی حکمراں جن فلسطینیوں کی جان کے پیاسے ہیں اُن میں وہ سرفہرست ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں غزہ کے مضافاتی علاقے میں اُن پر اسرائیل کا پہلا حملہ ہوا تھا۔ اِس وقت وہ اور حماس کے بانی شیخ احمد یٰسین ساتھ ساتھ تھے اور دونوں ہی رہنما بال بال بچے تھے۔ تب اسرائیل اپنے مذموم ارادہ میں کامیاب نہیں ہوا تھا یہ الگ بات کہ چھ ماہ بعد اسرائیلی ہیلی کاپٹروں کی زد میں آکر شیخ احمد یٰسین نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ 
تمام تر جدید اسلحہ اور شیطنت سے لبریز سراغرسانی کے باوجود اسرائیلی اہل اقتدار کو، اسماعیل ہانیہ کو موت کے منہ میں دھکیلنے کا ناپاک مقصد پورا کرنے کیلئے ۲۰۰۳ء سے ۲۰۲۴ء تک ۲۱؍ سال کا عرصہ درکار ہوا۔ یہ ۲۱؍ سال بھی ایسےہی نہیں گزر گئے جیسے کہ عام طور پر گزرتے ہیں بلکہ غزہ پر مسلط کی گئی حالیہ جنگ کے دوران اسماعیل ہانیہ کے خاندان کے کئی افراد اسرائیلی بمباری کا ہدف بنے اور غزہ کے ہزاروں شہریوں کی طرح اس خاندان کے لوگوں نے بھی فلسطینی مزاحمت کیلئے جان ِ عزیز کا نذرانہ پیش کیا۔ اتنے بڑے نقصان کے باوجود اسماعیل ہانیہ کے ماتھے پر شکن آئی نہ ہی اُن کا حوصلہ ٹوٹا۔ اُنہوں نے صبر کا دامن تھاما اور اپنے مشن کو کسی ایک دن کیلئے بھی بالائے طاق نہیں رکھا۔ 
اس مختصر پس منظر سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے جری تھے اور فلسطینی کاز کو کس طرح اپنے سینے سے لگائے رکھتے تھے۔ عنفوان شباب ہی میں فلسطینی مزاحمت سے پُرجوش طریقے سے وابستہ ہونے والے اسماعیل ہانیہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور اہل غزہ میں اس قدر مقبول تھے کہ ۲۰۰۶ء کے فلسطینی انتخابات میں اُنہوں نے اپنی سرپرستی اور قیادت میں حماس کو شاندار کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’حماس نہ صرف یہ کہ فلسطینی بلکہ باشعور سیاسی تحریک ہے جو عالمی برادری سے کھلے ذہن کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہتی ہے۔ ‘‘ یاد رہنا چاہئے کہ ۲۰۰۶ء ہی میں اسماعیل ہانیہ نے فلسطینی اتھاریٹی کے وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات پیش کی تھیں مگر یہ سلسلہ زیادہ عرصہ تک جاری نہیں رہ سکا تھا کیونکہ فلسطینی اتھاریٹی نے حماس کے ساتھ مزید شراکت سے انکار کردیا تھا۔ 
اگر اُس وقت فلسطینی اتھاریٹی کے صدر محمود عباس نے حماس سے ناطہ نہ توڑا ہوتا تو مزاحمت کی تحریک زیادہ منظم اور مستحکم انداز میں اسرائیلی استبداد کے سامنے جمی رہتی۔ الگ تھلگ پڑ جانے کے باوجود اسماعیل ہانیہ بددل نہیں ہوئے۔ اُن کی کشادہ ذہنی اور وسیع تر فلسطینی مزاحمت کیلئے اُن کے جذبے کو اس بیان سے بھی سمجھا جاسکتا ہے جو اُنہوں نے وزارت عظمیٰ سے بے دخل ہونے اور اسرائیل کے ذریعہ غزہ کی ناکہ بندی کے پیش نظردیا تھا۔ اہل غزہ سے مخاطب ہوتے ہوئے اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’اِس ناکہ بندی کو ہم فلسطین کا اندرونی مسئلہ نہیں بننے دینگے، ہماری جدوجہد فلسطینی گروہ (فتح) کے خلاف نہیں ہے بلکہ غزہ کی ناکہ بندی کرنے والی طاقت سے ہے۔ ‘‘ اپنے عوام کو حوصلہ دینے والے اسماعیل ہانیہ اب اس دُنیا میں نہیں ہیں مگرآزاد فلسطین کیلئے اُن کی بیش بہا خدمات یاد رکھی جائینگی اور نئی نسل کیلئے مشعل راہ بنیں گی۔ اُنہیں شہید کرکے اسرائیل نے اپنی قبر کھودی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK