Inquilab Logo

راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ سے ’انڈیا‘ اتحاد میں نئی جان

Updated: March 24, 2024, 4:01 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے’ `انڈیا‘ اتحاد `سے الگ ہونے پر بظاہر اپوزیشن کافی کمزور دکھائی دے رہا تھا۔

If the Lok Sabha elections are held in a transparent and pressure-free environment, the political map of the country can turn around. Photo: INN
اگر لوک سبھا انتخابات شفاف اور دباؤ سے پاک ماحول میں ہوئے تو ملک کا سیاسی نقشہ پلٹ سکتا ہے۔ تصویر : آئی این این

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے’ `انڈیا‘ اتحاد `سے الگ ہونے پر بظاہر اپوزیشن کافی کمزور دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن پچھلے اتوار کو شیواجی پارک میں ہونے والی ریلی سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ اتحاد بی جے پی کی فسطائیت کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے۔ کشمیر سے کنیا کماری تک ملک کے مختلف علاقوں کی نمائندگی کرنے والے انڈیا اتحاد کے لیڈروں نے پُرجوش تقریری کیں جس سے عوام میں بھی جوش پیدا ہوا۔ دراصل عوام کا ایک بڑا طبقہ بی جے پی کی پالیسیوں سے پریشان ہے۔ اگر لوک سبھا انتخابات صاف ستھرے اور دباؤ سے پاک ماحول میں ہوئے تو ملک کا سیاسی نقشہ پلٹ سکتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مراٹھی اخبارات نے اس پر کیا کچھ لکھا ہے؟
پربھات (۱۹؍ مارچ)
 اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’بھارت جوڑو نیائے یاترا کے اختتام پر ممبئی کے شیواجی پارک میں منعقدہونے والے’ `انڈیا‘ اتحادکے اجلاس میں حزب اختلاف کے لیڈران اور سامعین کی موجودگی اور مجموعی ماحول کو دیکھیں تو یہ واضح اشارہ ہے کہ لوک سبھا انتخابات بی جے پی کیلئے قطعی یک طرفہ نہیں ہوں گے۔ اسی طرح ایک مرتبہ پھر یہ ثابت ہوگیا کہ ملک کی سبھی بڑی سیاسی جماعتیں کانگریس کے ساتھ ہیں۔ انڈیا اتحاد `کے کچھ لیڈر جو آغاز میں ساتھ تھے، ان میں نتیش کمار اور ممتا بنرجی اتحاد سے الگ ہوگئے ہے۔ نتیش کمار تو سیدھے بی جے پی کے ساتھ چلے گئے۔ اگرچہ ممتا اتحاد سے علاحدہ ہوگئی ہے مگر ان کا بی جے پی کے ساتھ جانے کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے برعکس بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے میں کئی پارٹیاں ہیں لیکن مرکزی دھارے والی پارٹیوں کی تعداد کم ہیں۔ ’انڈیا‘ اتحاد میں شامل پارٹیوں سے متعلق خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ نتیش کمار اور ممتا بنرجی کے بعد ان میں مزید پھوٹ پڑ جائے گی لیکن اتحاد میں شامل سبھی پارٹیوں نے سیٹیوں کی تقسیم پر فیصلہ کرلیا ہے۔ اسلئے ممبئی اجلاس کے بعد ان کے درمیان دراڑ کی گنجائش نہیں ہے۔ مہا وکاس اگھاڑی میں سیٹوں کی تقسیم پر پریشانی کا باعث بننے والے پرکاش امبیڈکر نے نیائے یاترا کی اختتامی تقریب میں شرکت کرکے ایک مثبت پیغام دیا ہے۔ مجموعی طور پر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کی طاقتور انتخابی مہم کو اپوزیشن نے ٹکر دینے کی ٹھان لی ہے۔ ’انڈیا اتحاد‘ کی کامیاب ریلی نے اس مفروضے کو غلط ثابت کردیا ہے کہ ملک میں مودی اور بی جے پی کا سامنا کرنے کیلئے کوئی مخالف نہیں بچا ہے۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات کئی لحاظ سے اہم ثابت ہونے والے ہیں۔ مخالفین کیلئے یہ بقا کی جنگ ہے۔ ’انڈیا‘اتحادکے اجلاس نے اشارہ دیا ہے کہ ضابطہ اخلاق کے نفاذ سے قبل کرائے گئے سروے میں بی جے پی کی یک طرفہ جیت کی پیش گوئی درست ثابت نہیں ہوگی۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: الیکٹورل بونڈ پر اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو ہزیمت کا سامنا

سکال(۱۹؍مارچ)
 اخبار اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’لوک سبھا انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے ایک دن بعد ممبئی کے شیواجی پارک میں بی جے پی اور خصوصا مودی کے خلاف بنائے گئے ’انڈیا‘ اتحادکا مظاہرہ کئی لحاظ سے اہم رہا۔ پچھلے سال اس اتحاد کے قیام کے کچھ ہی مہینوں بعد اتحاد کے کلیدی لیڈر نتیش کمار نے مودی سے ہاتھ ملا کر موقع پرستی کی بدترین مثال پیش کی تھی تاہم راہل گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا کے اختتامی اجلاس میں شمال سے لےکر جنوب تک تمام سیاسی جماعتوں کے بڑے لیڈران کی شمولیت سے’ انڈیا‘ اتحاد میں جوش و خروش نظر آیا۔ اس اجلاس نے ثابت کردیا کہ انڈیا اتحاد کے کمزور ہونے کی بحث غلط تھی۔ لیکن اس ریلی سے فائدہ اٹھانے کیلئے جس حکمت عملی کی ضرورت تھی وہ نظر نہیں آئی۔ حکومت پر تنقید کرنا اپوزیشن کا فرض ہے لیکن ان کے کام کا دوسرا حصہ ہے کہ وہ ایک لائحہ عمل پیش کرے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ کیا کریں گے، لیکن شیواجی پارک کی ریلی میں ایسا کچھ بھی نظر نہیں آیا۔ یہ سچ ہے کہ راہل گاندھی کی یاترا نے اپوزیشن کیلئے ماحول بنانے میں مدد کی ہے۔ ممبئی۔ تھانے کے ساتھ نندوربار جیسے قبائلی علاقے میں یاترا کو اچھا رسپانس ملا۔ اس نے مہاراشٹر میں جمود کا شکار کانگریس کو نئی امید عطا کی ہے۔ انڈیا اتحاد کی ریلی میں شرد پوارسے لے کر فاروق عبداللہ تک اور تیجسوی یادو سے لے کر ایم کے اسٹالن تک ہندوستان بھر کے لیڈران موجود تھے، لیکن اس ریلی میں شامل ہزاروں لوگوں کی پہلی پسند راہل گاندھی اور ادھو ٹھاکرے تھے۔ پچھلے کچھ دنوں سے بی جے پی ادھو ٹھاکرے کے ہندوتوا پر سوال کھڑا کرنے کی کوشش کررہی ہے، اس کا اپنے انداز میں جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے غبارے میں ہوا بھرنے کی غلطی ہم نے ہی کی تھی جس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ‘‘
لوک مت (۱۹؍مارچ)
 اخبار لکھتا ہے کہ’’بھارت جوڑو نیائے یاترا کا اختتام `’چلے جاؤ‘ کے نعرے کے ساتھ ہوا جس سے حزب اختلاف کے حوصلے کو مہمیز عطا ہوئی۔ بی جے پی کے دس سالہ اقتدار کو چیلنج کرنے کیلئے مخالفین کو اکٹھا کرنا اور عوام کو ایک متبادل فراہم کرنا بے حد ضروری تھا۔ جمہوریت کو مستحکم کرنے کیلئے دونوں جانب کے دلائل موجود رہنے چاہئے۔ رائے دہندگان فیصلہ کریں کہ انہیں کون سا متبادل چننا ہے۔ بی جےپی ایسی ضمانت دے رہی ہے کہ رائے دہندگان کے پاس اسے ووٹ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں مگر جمہوری نظام میں ایسا ہونا یا مانا جانا درست نہیں ہے۔ بی جے پی کی اسی سوچ کو غلط ثابت کرنے کیلئے مضبوط اپوزیشن کی سخت ضرورت ہے۔ مودی کی گارنٹی جیسی اصطلاح کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ملک کسی ایک فرد کے نام پر نہیں چلتا بلکہ عوام کے ذریعہ منتخب ہونے والی حکومت سارا کاروبار چلاتی ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے اسی ذہنیت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے دو بھارت جوڑو یاتراؤں کے ذریعہ عوامی رابطہ کا بڑا نیٹ ورک تیار کیا ہے۔ یہ یاترا ضروری تھی کیونکہ کانگریس پارٹی کا عوام سے ربط کافی کمزور ہوگیا تھا۔ راہل گاندھی نے یاترا کے ذریعہ پارٹی کارکنان اور لیڈروں کو احساس دلایا ہے کہ عوام میں پکڑ کتنی ضروری ہوتی ہے۔ اس یاترا سے نہ صرف راہل گاندھی کا قد اونچا ہوا ہے بلکہ انڈیا اتحاد میں بھی ایک نیا جوش بھر گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن اس بھارت جوڑو نیائے یاترا سے پیدا شدہ ماحول کو کس حد تک کیش کرتا ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK