دو تصویریں سامنے ہیں ۔ ایک اُن آرمی افسروں کے روتے بلکتے اہل خانہ کی جو سری نگر میں جنگبازوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جان ِ عزیز گنوا بیٹھے۔ دوسری تصویر اُن پارٹی کارکنان کی ہے جو جی ۲۰؍ کے کامیاب انعقاد پر وزیر اعظم مودی کا استقبال کررہے ہیں ۔
EPAPER
Updated: September 16, 2023, 1:11 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
دو تصویریں سامنے ہیں ۔ ایک اُن آرمی افسروں کے روتے بلکتے اہل خانہ کی جو سری نگر میں جنگبازوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جان ِ عزیز گنوا بیٹھے۔ دوسری تصویر اُن پارٹی کارکنان کی ہے جو جی ۲۰؍ کے کامیاب انعقاد پر وزیر اعظم مودی کا استقبال کررہے ہیں ۔
دو تصویریں سامنے ہیں ۔ ایک اُن آرمی افسروں کے روتے بلکتے اہل خانہ کی جو سری نگر میں جنگبازوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جان ِ عزیز گنوا بیٹھے۔ دوسری تصویر اُن پارٹی کارکنان کی ہے جو جی ۲۰؍ کے کامیاب انعقاد پر وزیر اعظم مودی کا استقبال کررہے ہیں ۔ دونوں تصویروں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک طرف ملک نے اپنے تین بہادر افسروں کو کھویا ہے اور اس وجہ سے ملک سوگوار ہے تو دوسری طرف بی جے پی کے صدر دفتر میں جشن کا ماحول ہے۔ یہ اُس بی جے پی کیلئے شرمناک ہے جو حب الوطنی کے دعوے کرتے نہیں تھکتی، اس پر ناز کرتی ہے اور دوسروں کی حب الوطنی کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
روزنامہ ’’دی ٹیلیگراف‘‘ کی خبر کے مطابق ’’نہ تو بی جے پی نے نہ ہی وزیر اعظم مودی نے مذکورہ اموات پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے جبکہ جمعرات کی شام تک اس واقعہ کو تیس گھنٹے گزر چکے تھے‘‘ (ٹیلیگراف، ۱۵؍ ستمبر، صفحہ اول)۔ ۲۰۱۹ء کے پلوامہ حملے کے بعد کے حالات کو سامنے رکھ کر اِس سردمہری کو محسوس کیجئے اور سوچئے کہ کیا اس کے ذریعہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ’’جس موت پر ہم افسوس کریں وہی موت ہے اور جس پر ہم چپ رہیں اُس پر رنج و غم ظاہر کرنے اور سوگ منانے کی ضرورت نہیں ہے؟‘‘
بی جے پی اور اس کے لیڈروں کے طرز عمل سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔ اس طرز عمل کی دسیوں مثالیں ماضی کے واقعات میں بھی موجود ہیں ۔ وزیر اعظم نے انڈیا، انڈیا، انڈیا ہزار بار کہا ہوگا۔ اسی نام پر درجنوں سرکاری اسکیموں کا نام رکھا گیا۔ تب پارٹی اور حکومت کو اس سے بیر نہیں تھا مگر جب اپوزیشن پارٹیوں نے اپنے اتحاد کا نام انڈیا رکھ لیا تو اس نام سے اتنی الرجی ہوگئی کہ بیرونی مہمانوں کی موجودگی میں انڈیا کو بھارت کردیا گیا۔ وزیر اعظم وطن عزیز کے اس نام (انڈیا) سے اب پلہ جھاڑ رہے ہیں ۔ اُنہوں نے بدھ کو ساگر ضلع (مدھیہ پردیش) میں تقریر کرتے ہوئے پانچ انگریزی حروف کے مخفف ’’انڈیا‘‘ کے چار حروف کو جوں کا توں رکھا اور آخری حرف ’’اے‘‘ کو الگ کردیا اور اِسے ’’اِنڈی الائنس‘‘ کہنا پسند کیا۔ اُن کا ایسا کرنا اور کہنا اس بات کا غماز تھا کہ وہ، لفظ انڈیا کو ترک نہیں کرسکتے مگر اسے پہلے کی طرح اپنا بھی نہیں سکتے کیونکہ اب انڈیا، اپوزیشن اتحاد کا نام ہے، ایسا نام جو ملک کی بڑی آبادی میں مقبول ہوچکا ہے۔
فوجیوں کی اموات کے تعلق سے حکمراں جماعت کے لیڈروں کی خاموشی کو اعتراف ِشکست ہی سمجھنا چاہئے کیونکہ دفعہ ۳۷۰؍ ہٹا تے اور جموں ، کشمیر اور لداخ کو الگ کرتے وقت اس نے جتنے دعوے کئے تھے وہ چاروں شانے چت ہوچکے ہیں ۔ وادی میں جنگبازی رُکی نہیں اور خصوصی ریاست کا درجہ چھن چکا ہے، جموں کے عوام شاکی ہیں کہ اُنہوں نے جو چاہا وہ نہیں ملا اور لداخ کے عوام اب بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ اُنہیں آئین کے چھٹے شیڈول کے مطابق خصوصی درجہ ملے۔ حکمراں جماعت کا دُکھ یہ ہے کہ وہ اِن حالات کیلئے کسی اور کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتی کیونکہ وہاں کوئی منتخبہ حکومت نہیں ہے، جو ہے وہ براہ راست مرکز کی حکومت ہے، مرکزی وزارت ِداخلہ کی عملداری ہے، اس لئے مرکز پر جوابدہی لازم ہے۔ حالات پر یا اموات پر چپ رہنے سے جوابدہی ختم ہوجائے یہ ممکن نہیں ہے۔