نیا سال پھر آنے کو ہے۔ دورِ حاضر میں چونکہ کرنے کیلئے بہت کچھ ہے، انسان مشینی زندگی جی رہا ہے اسلئے وقت کے گزرنے کی رفتار تیزتر ہوگئی ہے۔ دن ایسے گزرتا ہے جیسے چند گھنٹے گزرے ہوں، اور سال یوں گزرتا ہے جیسے چند مہینے۔
EPAPER
Updated: December 26, 2020, 12:30 PM IST
|
Shahid Latif
نیا سال پھر آنے کو ہے۔ دورِ حاضر میں چونکہ کرنے کیلئے بہت کچھ ہے، انسان مشینی زندگی جی رہا ہے اسلئے وقت کے گزرنے کی رفتار تیزتر ہوگئی ہے۔ دن ایسے گزرتا ہے جیسے چند گھنٹے گزرے ہوں، اور سال یوں گزرتا ہے جیسے چند مہینے۔
یہ صدیوں سے ہوتا آیا ہے اور جب تک دُنیا قائم ہے جاری رہے گا۔ ہر نیا سال اپنی گٹھڑی میں بارہ مہینے لے کر وارد ہوتا ہے اور پھر ایک ایک مہینہ اور ہر مہینے کے تیس تیس دن اور تیس دنوں کے چوبیس چوبیس گھنٹے تقسیم کرکے رُخصت ہوجاتا ہے۔ جب ایک ایک گھنٹے اور دن رات کی شکل میں گزرتے گزرتے پورا سال اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے تو کیلنڈر، دیوار سے اُتر جاتا ہے۔ اس کے باوجود جگہ خالی نہیں ہوتی۔ نئے اور تازہ کیلنڈر سے دوبارہ پُر ہوجاتی ہے۔ اب ہم خوش ہوتے ہیں کہ نیا سال آگیا مگر یہ نیا سال بھی وہی کرتا ہے جو گزرنے والے سال نے کیا تھا۔ یہ بھی اپنی گٹھڑی سے ایک ایک کرکے بارہ مہینے برآمد کرتا ہے، ہم سب میں تقسیم کرتا ہے اور پھر خود بھی رُخصت ہوجاتا ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے۔ دراصل کیلنڈر، سال، مہینہ، ہفتہ، دن، گھنٹہ، منٹ، سیکنڈ، یہ سب وقت کی مختلف شکلیں اور چھوٹی بڑی اکائیاں ہیں مگر وقت کیا ہے؟ اس سے کوئی واقف نہیں۔ اسے بہت سے لوگوں نے ڈیفائن کرنے کی کوشش کی، الگ الگ تھیوریز پیش کیں،وقت کو دو واقعات کا درمیانی فاصلہ قرار دیا، کسی نے کہا کہ وقت انسان کا وہم ہے، یہ کچھ نہیں ہے، یہ گزرتا بھی نہیں ہے، انسان گزر جاتا ہے مگر وقت نہیں گزرتا، چند صاحبان علم و دانش نے اسے زمان و مکان سے جوڑا اور چند نے اسے علم طبیعیات کا موضوع قرار دیا۔ انہی میں ہمارے عہد کے ایک محترم سائنسداں اسٹیفن ہاکنگ بھی ہیں (جنہوں نے ۲۰۱۸ء میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا)۔ ان کی تصنیف ’’وقت کی مختصر تاریخ‘‘کی کافی پزیرائی ہوئی مگر وقت کی عمومی تفہیم پھر بھی ممکن نہیں ہوسکی۔ شاعروں نے تو غضب ہی کردیا۔ اسے ایسے ایسے زاویوں سے باندھا کہ محسوس ہوتا ہے وقت کبھی ان کے قریب آکر ٹھہر جائے تو فرمائش کرے گا کہ کچھ کہا ہو تو سنائیے
شعراء کا ذکر آہی گیا ہے تو مشہور شاعر و نغمہ نگار جاوید اختر کی ایک عمدہ نظم بعنوان ’وقت‘ کے چند مصرعے سن لیجئے
یہ وقت کیا ہے/یہ کیا ہے آخر کہ جو مسلسل گزر رہا ہے/یہ جب نہ گزرا تھا تب کہاں تھا/کہیں تو ہوگا/گزر گیا ہے تو اب کہاں ہے/کہیں تو ہوگا/کہاں سے آیا کدھر گیا ہے/یہ کب سے
کب تک کاسلسلہ ہے/یہ وقت کیا ہے؟
نظم طویل ہے جس کے اخیر میں جاوید اختر نے اپنے طور پر سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وقت کیا ہے یا اسے کیسے سمجھا جائے۔ اسی طرح ساحر نے بھی وقت کو موضوع بنایا تھا:وقت سے دن اور رات/وقت سے کل اور آج/وقت کی ہر شے غلام/وقت کا ہر شے پہ راج/وقت کی گردش سے ہے چاند تاروں کا نظام/وقت کی ٹھوکر میں ہے کیا حکومت کیا سماج/وقت کی پابند ہیں آتی جاتی رونقیں/وقت ہے پھولوں کی سیج/وقت ہے کانٹوں کا تاج/آدمی کو چاہئے وقت سے ڈر کر رہے/کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج۔ ایسی بہت سی نظمیں اور بے شمار اشعار وقت پر شعراء کے افکار و خیالات کے عکاس ہیں اس کے باوجود کوئی شاعر، ادیب، فنکار، ماہر طبیعیات و فلکیات و سماجیات وقت کی تعریف متعین نہیں کرسکا۔ ویسے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر چیز کی ایک متعینہ تعریف ہو۔ انسان بہت سی چیزوں سے استفادہ کرتا ہے بلکہ بہت سی چیزوں پر اس کی زندگی کا انحصار ہے مگر وہ اُنہیں سمجھ نہیں پاتا اس لئے اُن کی تعریف متعین کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ انسان نظام قدرت کو اسی حد تک سمجھ پاتا ہے یا سمجھ سکتا ہے جتنی سمجھ اسے عطا ہوئی ہے۔ سمجھنے کی طرح وہ نہ تو ہوا کو سمجھ سکا ہے نہ روشنی کو، چاند تاروں کی حقیقت و ماہیئت اس پر واضح ہوئی ہے نہ گردش لیل و نہار اس پر واضح ہوئی ہے۔ غالب جیسا شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ’’سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں= اَبر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟‘‘ انسان بھلے ہی ایسی چیزوں کو نہ سمجھ سکا ہو مگر ان کے بغیر اس کی زندگی کا تصور بھی محال ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ ہوا کا سفر کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے، ختم بھی ہوتا ہے یا نہیں، مگر ہوا کے بغیر اس کی زندگی مشکل نہیں ناممکن ہے۔ ہوا چند ثانیوں کیلئے کہیں ٹھہر جائے تو اس کے پسینے چھوٹ جائیں۔خود انسانوں کی بنائی ہوئی چیزیں دیگر کروڑوں انسانوں کی عقل سے بالاتر ہیں، مثلاً کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل اور دیگر آلات جدیدہ۔ چند لوگ اگر انہیں معرض وجود میں لانے کے قابل بھی ہوئے تو اس لئے کہ ٹیکنالوجی کو قابل تسخیر بنایا گیا ورنہ یہ کبھی مسخر نہ ہوتی۔ جب چند افراد کی ایجاد شدہ چیزیں دیگر کروڑوں لوگوں پر واضح نہیں ہیں تو قدرت کی بنائی ہوئی اشیاء اور بخشی ہوئی نعمتوں کی مکمل تفہیم کیونکر ممکن ہے؟
وقت بھی اسی لئے ناقابل تشریح ہے مگر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ایسا بھی نہیں کہ سمجھ میں نہ آئے۔ ازل، ابد الآباد اور لوح محفوظ پر یقین رکھنے والے تو اس کی تفہیم پر قادر ہیں۔ اسی لئے انہیں اس کے بہترین مصرف کی دعوت دی گئی۔ اس کیلئے وقت کو سمجھنا ضروری نہیں ہے۔ انسان جب بہت سی چیزوں کے تکنیکی مضمرات کو سمجھے بغیر اُن کے بہترین مصرف کی فکر کرتا ہے تو وقت کی کیوں نہیں کرسکتا۔ دیوار پر کیلنڈروں کے چڑھنے اُترنے کا گواہ بننے سے زیادہ ضروری ہے کہ انسان وقت کو حیات ِ مستعار کی سب سے قیمتی شے جان کر اس کا بالکل ایسے تحفظ کرے جیسے اپنی سب سے عزیز شے کی کرتا ہے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ کوئی نہیں جانتا کس کے پاس کتنا وقت ہے۔ کوئی اسے روکنا چاہے تو یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ممکن اگر کچھ ہے تو یہی کہ ایک سال کو ایک سال سمجھنے کے بجائے بارہ مہینے سمجھا جائے، اس سے بھی بہتر ہے کہ تین سو پینسٹھ دن کی حیثیت دی جائے اور بہترین عمل یہ ہے کہ آٹھ ہزار سات سو ساٹھ گھنٹوں یا پانچ لاکھ پچیس ہزار چھ سو منٹ کے طور پر دیکھتے ہوئے ایک ایک گھنٹے اور ایک ایک منٹ کو حتی المقدور کارآمد بنایا جائے۔ سال کو سال کے طور پر دیکھنے یا سمجھنے کا نقصان یہ ہے کہ سال تو آتا ہے، چلا جاتا ہے۔پھر آتا ہے پھر چلا جاتا ہے۔ ابن انشاء نے یہی تو کہا تھا: ’’اک سال گیا، اک سال نیا ہے آنے کوپر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو۔‘‘