اگر ہم دھوم دھام سے چھوٹے بڑے تمام تعلیمی اداروں میںاس دن کو جشن کی طرح منائیں تو پس پشت ڈال دی گئی تاریخ کی اہم باتیں خود بخود منظر عام پر آنے لگیں گی
مولانا ابوالکلام آزاد اور مہاتما گاندھی کسی اہم مسئلے پر تبادلہ خیال کررہے ہیں۔ تصویر: آئی این این
۱۱؍ نومبر کا دن ہر سال ملک بھر میں قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کا باضابطہ اعلان ۲۰۰۸ءمیں ہندوستانی حکومت کی جانب سے کیاگیا ہے۔ اس اعلامیہ کا سرکاری اطلاع نامہ وزارت انسانی وسائل ترقی کی طرف سے ۱۱؍ستمبر۲۰۰۸ء کو جاری کیاگیا تھا جسے اب وزارت تعلیم کہاجاتا ہے۔
۱۱؍ نومبر کا تاریخی دن تاریخ کے عظیم سیاسی رہنما اور آزاد ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کا یومِ پیدائش ہے ۔ قومی یوم تعلیم کو ہم انہیں کی شان میں ان کی یاد کو تازہ رکھنے کیلئے مناتے ہیں۔ گہرائی میں جاکر غور کریں تو۱۱؍ نومبر غیرمعمولی نوعیت والاایک کثیر المقاصد دن ہے۔ اگر عیش و نشاط کا سماں باندھ کر دھوم دھام سے ہر چھوٹے بڑے تعلیمی اداروں میں قومی یوم تعلیم کو جشن کی طرح منائیں تو پس پشت ڈال دی گئی تاریخ کی انتہائی اہم باتیں خود بخود منظر عام پر آنے لگیں گی۔
ایک بڑی ستم ظریفی اس وقت ہم سے خاص توجہ کا مطالبہ کررہی ہے۔ آج بھی بڑی تعداد میں لوگ قومی یوم تعلیم کو یوم اساتذہ کے ساتھ گڈمڈ کردیتے ہیںجس کی شروعات ۱۹۶۲ءمیں ہوئی تھی۔ عام آدمی کے دماغ میں اکثر شکشک دیوس یا ٹیچرز ڈے کی بات گردش کرتی ہے جب کہ قومی یوم تعلیم ایک الگ اور نہایت ہی اہم دن ہے۔اس موضوع پر مستعد انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس صورتحال کی وجوہات کی فوری نشان دہی کریں اور ان کے ازالے کیلئے موثر اقدام اٹھائیں۔ اسی مقصد کے تحت ذرا پیچھے مڑ کر دیکھنے پر ہم پاتے ہیں آزادی کے وقت ہی سے ایک حلقےکی جانب سے ایسی لکیریں کھینچی جاتی رہی ہیں جن سے مولانا آزاد کی تصویر ایک مسلم لیڈر جیسی نظر آتی ہے۔ اوّلین ضرورت اس بات کی ہے کہ مولانا آزاد کو مسلم لیڈر کے کنویں سے نکال کر نیشنل ہیرو والے سمندر میں واپس لایاجائے۔ بعد ازاں باقی اہم اقدام کی غرض سے ہمیں موجودہ صورت حال پر ایک معترضانہ نگاہ ڈالنی ہو گی۔ یوم اساتذہ پر ہر سال معلّم کی شان میں قصیدوں کی بارش ہو تی ہے مگر بڑا قلق گزرتا ہے اس وقت جب ہم دیکھتے ہیں دوماہ اور چھ دن بعد قومی یوم تعلیم کا تاریخی وقت آیا تو دامن بچاکر سب کے سب لاپتہ ہوگئے۔ فاتر العقل زمانے کو سمجھنا ہوگا قومی یوم تعلیم سے روگردانی تعلیم کی اہمیت کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔ تعلیم سے عدم توجہ کی صورت میں یوم اساتذہ کی ہماہمی ایک مصنوعی نمائش کے سوا کچھ نہیں۔ اس سوئے فہم پر جتنی بھی ملامت کی جائے کم ہے۔ یہ تو وہی بات ہو ئی چینی کی تعریف کا ڈنکا بج رہا ہے مگر مٹھاس کہاں کس حالت میں ہے کسی کو کچھ خبر نہیں۔ ہر سال مشاہدہ کرنے پر عمومی روش یہی دکھائی دیتی ہے۔ ہر طرف یوم اساتذہ کی چہل پہل ہے مگر گراں مایہ قومی یوم تعلیم خبروں سے یکسر غائب۔ یعنی شکشک کی دھوم ہے مگر شکشا درکنار۔ تو ایسے میں ہوگاکیا ؟ تعلیم کی عدم موجودگی میں اساتذہ کے پاس کرنے کو بچا کیا۔ بس دیکھتے جائیے ۔ حسب توقع آئے دن بڑے بڑے ’چمتکار‘ والی سرخیاںاخباروں کی زینت بن رہی ہیں۔ نوش فرمانے کیلئے اشیائے شرفِ زمانہ (!) توبہت ہیں مگر وقت کی تنگی کے سبب صرف چند ہی کو ملاحظہ فرماکر قناعت کریں۔ مثلاً آٹھویں ککشاکی چھاترا سے چھیڑ چھاڑ۔ لوگوں نے آروپی ٹیچر کو پیٹا (۲۴؍ستمبر ۲۵ء کو رانچی کے ایک ہندی اخبار کی خبر) ، ٹیچر نے میرٹھ میں کلاس چھ کی لڑکی سے عصمت دری کی نیت سے دست درازی کی،پکڑا گیا (یکم ستمبر ۲۵ء کو ایک انگریزی اخبار کی سرخی)، ادیشہ کے بالاسور ضلع میں۲۴ءمیں بی ایڈ کی ایک طالبہ نے اپنے استاد کی جنسی ہراسانی کے خلاف شکایت کی مگر انصاف نہ ملنے پر خود سوزی کر لی تھی۔ٹیچر کی کرتوت والی یہ خبر ملک بھرکے ذرائع ابلاغ میںچھائی ہوئی تھی۔ ۲۰۲۳ءمیں چنئی میں ایک استاد پرکئی طالبات کے ساتھ جنسی ہراسانی کی خبر بھی آچکی ہے۔
یوم اساتذہ کے موقع پر ہر سال سرکاری اشتہارات اور ملک کے اہم لیڈروںکے اخباری بیانات کو ہم برابر دیکھتے ہیں۔ اپنے آپ میں یہ بات درست ہے مگربے آب و رنگ قومی یوم تعلیم کے پہلو بہ پہلو اسے دیکھا جائے تو یہ کہنا پڑے گا اس پس منظر میں یوم اساتذہ کی تڑک بھڑک ایک بے معنی چیز ہے۔ اس فعل لاحاصل کی کوئی وقعت نہیں۔ وزیراعلیٰ اور گورنر وغیرہ کے سیکریٹری حضرات کو کافی ذہین ماناجاتا ہے۔ تو کیا ان کو قومی یوم تعلیم کی جانکاری نہیں ؟ یا وہ تعلیم کی اہمیت سے ناواقف ہیں ؟ یہ سوال تو اٹھے گا کہ آخر وہ قومی یوم تعلیم کے موقع پر اپنے آقائوں کو بیان جاری کرنے کی یاد کیوں نہیں دلاتے؟ آپ اساتذہ کو لاکھ طغرائے امتیاز بانٹتے رہیں مگر تعلیم سے عدم التفات کی صورت میں یوم اساتذہ کا دھوم دھڑکا محض ایک فریب نظر ہے لہٰذا ہمیں سیاست دانوں کے رخ کو موڑنا ہوگا۔حکام کے منفی فیشن کو بدلنا ہوگا۔ ہمارے اندر حکمرانی کا مزاج پایا جاتا ہے اور رہنمائی کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ اسلئے غافل سرکاروں کی بھول سدھار کرنا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے۔ ہمیں معلوم ہے قومی یوم تعلیم سے نظریں چراکر یوم اساتذہ پر دھوم مچانا ہمارے حکمرانوں کا طرز رہا ہے۔ تعلیم کی اہمیت سے عاری انسان استاد کی قدرو منزلت پر اونچی اونچی باتیں کرے تو اس شور و غوغا کی سرزنش ہونی چاہئے۔
قومی یوم تعلیم کو شان و شوکت کے ساتھ منانے میں موجود رُموز و حکمت کے پہلو پر ہمیں مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے قومی یوم تعلیم کا اعلان ہوئے ڈیڑھ دہائی سے بھی زیادہ وقت بیت گیا۔ اپنے میں بڑے فائدے چھپائے ایک قیمتی خزانہ اوپر سے ٹپک کر ہمارے پاس آگیا مگر ہاتھ آئے عمدہ موقع سے استفادہ کرنے کے بجائے ہم بے فکری اور غنودگی کی حالت میں جی رہے ہیں۔
آج کی تاریخ میں مولانا ابوالکلام آزاد ہی وہ واحد ہستی ہیں جن کو ایک مثالی نمونہ کے طور پر نمایاں (ہائی لائٹ)کیا جانا چاہئے اور کیاجاسکتا ہے۔ اس خیال کو روشناس کرانے اور شہرت دینےکی ضرورت ہے کیوں کہ مولانا ابوالکلام آزاد نام ہے قدرت کے تراشے ہوئے اُس کثیر الجہت نگینے کا جس کے ہر رخ سے ایک نئی روشنی آتی ہے۔قبل آزادی ہو یا بعد آزادی مولانا کے تعلق سے تاریخی واقعات ریکارڈ میں عین بعین موجود ہیں۔ جاننے والے لوگ بھی موجود ہیں مگر حقیقت کا جاننا ضروری ہے، حقیقت کو جان لینا بہت بڑی بات ہے مگر حقیقت سامنے کس طرح لائی جائے یہ سب سے بڑی بات ہے۔ اس تیسرے نقطے میں ہی ہمارے دانشوروں کی دانشمندی کا اصل امتحان ہے۔
الغرض ایک واجب التعمیل ہدایت کے تحت ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں قومی یوم تعلیم کو بڑے قومی تقریب کی طرح منانے کی شروعات ہونی چاہئے۔ سرگرم ہوکر مثبت طریقے سے مہم جوئی ہوتو اس جانب باقاعدہ عمل کے ہدف کو ہم حاصل کر سکتے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کام کو آگے بڑھانے میں تھوڑی بہت دشواریاں آئیں گی ۔ موجودہ حالات میں بعض ایسے عناصر بھی ہیں جو اچھے کاموں میں خلل ڈالتے ہیں۔ اس فطرت ناگہانی پر کیا کہاجائے ۔ کچھ نام پر ہی ان کے دل میں شیشہ چبھتا ہے۔ دل میں دبی ہوئی ان کہی کسمساہٹ ، پیٹ میں مروڑ کی شدت مگر کھل کے بولنا بھی مشکل ! کیوں کہ قومی یوم تعلیم کی سربلندی کاکام ہی اتنے اعلیٰ درجے کا ہے کہ اس پر کسی کو اعتراض ہوسکتا ہے نہ اس سے کوئی انکار کرسکتا ہے۔ فہم و فراست کے ترازو میں تولیں یا عقلِ عامہ کا جائزہ لیں کوئی بھی ذی شعور انسان یہی کہے گا کسی بھی تعلیمی ادارے کیلئے قومی یوم تعلیم سے بڑھ کر جشن کا کوئی دوسرا دن نہیں ہوسکتا۔ تاہم اس رفتارِ زمانہ میں ایسے ڈھیٹ پن کو جانے میں ذراوقت لگے گا۔ حصول مقصد کی خاطرسوجتن کرنے ہوںگے۔ کبھی کبھی کچھ کہہ دینے یا ایک بار مضمون لکھ دینے سے کام نہیں ہوگا۔ ہمیں چاہئے کہ متعلقہ ذمہ داران کو ہر مناسب مقام پر بروقت اور برجستہ یاد دلاتے رہیں۔
مضمون نگار کا تعلق رانچی( جھارکھنڈ) سے ہے۔