Inquilab Logo

پارلیمانی انتخاب اور باغیوں کی صف بندی

Updated: April 18, 2024, 1:04 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

بہار میں پہلے مرحلے میں چار پارلیمانی حلقوں میں پولنگ ہوگی۔ ان میں اورنگ آباد، نوادہ، گیا اور جموئی کی سیٹیں شامل ہیں۔ ۱۹؍ اپریل کی اِس پولنگ کیلئے اُمید کی جارہی ہے کہ اہل بہار پورے جوش و خروش سے ووٹ دینگے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

پارلیمانی انتخاب کی تشہیری مہم اپنے شباب پر ہے۔ ظاہر ہے کہ اب پہلے مرحلہ کی پولنگ کو محض چند دن رہ گئے ہیں ۔ ۱۹؍اپریل کو پہلے مرحلے کی پولنگ ہوگی۔ تمام قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخابی منشور جاری کردئیے ہیں اگرچہ اس انتخابی منشور کی حیثیت محض خانہ پری تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے انتخابی منشور کی بنیاد پر رائے دہندگان سے ووٹ ڈالنے کی بات نہیں کہہ رہی ہے۔ اگر حکمراں جماعت کی بات کریں تو وہ بھی اپنی کارکردگی پر گفتگو کم کر رہی ہے اور جذباتی واشتعال انگیز نعروں کی بدولت اپنے ووٹروں میں جوش بھرنے کی کوشش کر رہی ہے، اپوزیشن اتحاد بھی انتخابی منشور پر کوئی سنجیدہ گفتگو کو اہمیت نہ دے کر حکمراں جماعت کے لیڈران پر شخصی تبصرے کو ہی کافی سمجھ رہے ہیں جب کہ سچائی یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے انتخابی بونڈ کی حقیقت کو اُجاگر کرکے اپوزیشن اتحاد کو ایک بڑا ہتھیار مہیا کرایا تھا جس کے سہارے حکمراں جماعت کی راہیں دشوار ہو سکتی ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس کہ محض دو چار لیڈر ہی ایسے ہیں جو الیکٹورل بونڈ کے خلاصہ کو عوام تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اگرچہ قومی میڈیا کا رویہ بھی یک طرفہ ہے جس کی وجہ سے بھی حکمراں جماعت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنا اپوزیشن اتحاد کیلئے صحرا میں کشتی چلانے جیسا ہوگیا ہے مگر اب جبکہ سوشل میڈیا کا دور دورہ ہے، اپوزیشن اتحاد کو الیکٹورل بونڈ کو اہم موضوع بناناچاہئے تھا لیکن وہ اس میں ناکام ہیں۔ 
بہر کیف! اس پارلیمانی انتخاب میں بھی ہندوستانی مسلمان تختۂ مشق بن رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں سے جذباتیت اور اشتعال انگیزی ہی ہندوستانی سیاست کا محور ومرکز ہے اور پارلیمانی انتخابات ہوں کہ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات مسلمان اور اس کے رسم ورواج، کھان پان، لباس، تہواراور قبرستان تک کو لے کر سیاست ہوتی رہی ہے۔ مختصر یہ کہ مسلمان ہندوستانی سیاست کیلئے خام مواد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پارلیمانی انتخاب کا آغاز بھی کچھ اسی طرح سے ہوا ہے کہ مسلم لیگ سے بات شروع ہوئی اور جیسے جیسے تشہیری مہم زور پکڑ رہی ہے ویسے ویسے اشتعال انگیزی پروان چڑھ رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کے جو بنیادی مسائل ہیں وہ گزشتہ انتخابات کی طرح اس بات بھی بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں یا پھر اپوزیشن اتحاد کی طرف سے عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کے اثرات پارلیمانی انتخاب کے نتائج پر نمایاں ہونگے یا نہیں، البتہ تمام سیاسی جماعتوں کے باغیوں کی صف بندی الگ الگ حلقوں میں امیدواروں کے سامنے مشکلیں ضرور کھڑی کر دیگی۔ جہاں تک بہار کا سوال ہے تو یہاں قومی جمہوری اتحاد اور انڈیا اتحاد کے درمیان آمنے سامنے کی سیاسی جنگ دکھائی دے رہی ہے مگر باغیوں کے تیو ر سے ایسا لگتا ہے کہ دونوں اتحاد مشکل میں ہیں۔ 
سب سے زیادہ خطرہ انڈیا اتحاد کو ہے کہ راشٹریہ جنتا دل کے کئی بڑے لیڈروں نے باغیانہ تیور اختیار کرتے ہوئے پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا اور دوسری سیاسی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں اور کچھ لیڈر آزادانہ طورپر انتخابی میدان میں بھی اتر چکے ہیں۔ راشٹریہ جنتا دل کے سابق راجیہ سبھا رکن اشفاق کریم نے راشٹریہ جنتا دل سے استعفیٰ دے کر جنتا دل متحدہ کا دامن تھام لیا ہے۔ راشٹریہ جنتا دل کے ایک قد آور لیڈر دیوندر پرساد یادو نے بھی باغیانہ رخ اختیار کرلیا ہے اور وہ لالو پرساد یادو خاندان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ واضح ہو کہ دیوندر پرساد یادو پانچ بار ممبر پارلیمنٹ اور وی پی سنگھ کی کابینہ میں مرکزی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہ ہوا گرم ہے کہ وہ اس بار بھی پارلیمانی انتخاب میں ٹکٹ چاہتے تھے لیکن ان کے پارلیمانی حلقہ جھنجھار پور سے وکاس شیل انسان پارٹی کے امیدوار کو ٹکٹ دے کر اُنہیں نظر انداز کیا گیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح پورنیہ پارلیمانی حلقہ سے راجیش رنجن عرف پپو یادو نے بطور آزاد امیدوار کھڑا ہو کر راشٹریہ جنتا دل کی امیدوار بیما بھارتی کیلئے راہیں مشکل کردی ہیں ۔ اب جب کہ اشفاق کریم راشٹریہ جنتا دل کا دامن چھوڑ کر جنتا دل متحدہ میں چلے گئے ہیں تو کٹیہار میں کانگریس امیدوار طارق انور کیلئےمشکل پیدا کر سکتے ہیں۔ باغی امیدواروں کی صف بندی سے جہاں دونوں اتحاد کے امیدواروں کو مشکل پیش آرہی ہے وہیں عوام میں بھی تذبذب کا ماحول ہے۔ قومی جمہوری اتحاد میں اگرچہ باغیوں کے تیور اتنے تلخ نہیں دکھائی دے رہے ہیں البتہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک بڑے لیڈر اشونی چوبے کا تیور چڑھا نظر آرہا ہے کہ انہیں اس بار پارٹی نے ٹکٹ سے محروم کردیاہے۔ 
مختصر یہ کہ بہار میں پہلے مرحلے (پولنگ ۱۹؍ اپریل) میں چار پارلیمانی حلقوں میں پولنگ ہوگی۔ ان میں اورنگ آباد، نوادہ، گیا اور جموئی کی سیٹیں شامل ہیں۔ ان حلقوں میں قومی جمہوری اتحاد اور انڈیا اتحاد کے درمیان آمنے سامنے کی جنگ ہونی ہے۔ گیا کی سیٹ بہ ایں معنی بہت اہم ہے کہ یہاں سے بہار کے سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی قومی جمہوری اتحاد کے امیدوار ہیں۔ ان کے مقابل راشٹریہ جنتا دل کے سروجیت بھی مقامی امیدوار ہیں ۔ اسی طرح جموئی کی سیٹ بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوگئی ہے کہ یہاں چراغ پاسوان نے اپنے بہنوئی کو لوک جن شکتی پارٹی کا امیدوار بنایا ہے۔ واضح ہو کہ گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں خود چراغ پاسوان یہاں سے منتخب ہوئے تھے لیکن اس بار وہ حاجی پور سے انتخاب لڑیں گے۔ لوک جن شکتی پارٹی کو بھی اپنے باغیوں سے جوجھنا پڑ رہاہے۔ غرض کہ بہار میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جس کے اندر بغاوت نہ ہوئی ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان باغیوں کی صف بندی سے سیاسی تصویر بھی بدلتی ہے یا پھر جیسا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے سپریمو کی طرف سے یہ کہا جا رہاہے کہ ہر انتخاب میں جو ٹکٹ سے محروم ہوتے ہیں وہ اسی طرح اپنے غم وغصہ کا اظہار کرتے ہیں لیکن اس سے پارٹی کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوتاکہ ماضی میں بھی انتخابی موسم میں ادھر اُدھر جانے کا سلسلہ جاری تھا۔ بعض ایسے باغی امیدوار نظر آرہے ہیں جو خود تو انتخاب جیتنے میں شاید کامیاب نہ ہوں لیکن وہ اپنی جماعت کے امیدواروں کی شکست کی وجہ ضرور بن سکتے ہیں۔ شاید اس لئے ان باغیوں کو منانے کی کوشش بھی چل رہی ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK