• Sat, 07 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پروین شاکر ادبی مہارت کی گہرائی اور وسعت رکھتی تھی

Updated: November 24, 2024, 3:26 PM IST | Maimoona Siddiqui | Mumbai

۲۴؍ نومبر صدبرگ، خوشبو، خودکلامی، انکار اور کف ِ آئینہ کی شاعرہ کے یومِ پیدائش پر۔

Parveen Shakir (Born: 24th November 1952 ... Death: 26th December 1994). Photo: INN
پروین شاکر( آمد۲۴؍نومبر ۱۹۵۲ء …رخصت: ۲۶؍دسمبر ۱۹۹۴ء)۔ تصویر : آئی این این

جب ہم برصغیر کے ممتاز اردو شاعروں، خاص طور پر خاتون شاعروں کا ذکر کرتے ہیں تو پروین شاکر کا نام ہمیشہ نمایاں نظر آتا ہے۔ تاہم، اکثر لوگ ان کے کلام کو محدود زاویئے سے دیکھتے ہیں۔ انہیں ایک نہایت حساس اور تنہا خاتون کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو بنیادی طور پر محبت کے موضوعات پر شاعری کرتی ہیں اور وہ بھی مردوں کے رحم و کرم پر۔ 
  کیا یہ تصور ان کے کلام کی محدود ترجمانی کا نتیجہ ہے یا ہماری اپنی کوتاہی کہ ہم ان کی شاعری کی تہ داری کو سمجھ نہیں پائے؟ یا شاید ہم نے خود، جان بوجھ کر یا نادانستہ طور پر، انہیں پدرشاہی نقطۂ نظر سے دیکھا؟ بلاشبہ ان کی شاعری محبت، تڑپ اور رشتوں کی باریکیوں سے بھرپور ہے، لیکن انہیں صرف رومانوی جذبات کی شاعرہ قرار دینا ان کی ادبی مہارت کی گہرائی، وسعت اور موضوعاتی تنوع کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہوگا۔ 
 پروین شاکر۲۴؍نومبر ۱۹۵۲ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں، تاہم ان کے اجداد کا تعلق ہندوستان کی ریاست بہار کے ضلع دربھنگہ کے علاقے لہریاسرائے سے تھا۔ چھوٹی عمر سے ہی وہ شاعری کا شوق رکھتی تھیں اور ان کے والد، جو خود شاعر تھے، ان پر گہرا اثر ڈالتے رہے۔ صرف ۲۵؍ سال کی عمر میں ان کی پہلی شعری کتاب ’’خوشبو‘‘ منظر عام پر آئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ مجموعہ ادبی حلقوں میں مقبول ہوا جس نے پروین شاکر کو اردو شاعری کی اہم نسائی آواز کے طور پر پہچان دلائی۔ اگرچہ ان کی ادبی صلاحیتوں کو ابتدا میں ہی سراہا گیا، لیکن ان کی ذاتی زندگی مشکلات سے دوچار رہی۔ انہوں نے کم عمری میں اپنے کزن سے شادی کی، لیکن یہ شادی اُنہیں راس نہ آئی۔ ازدواجی زندگی کی مشکلات کے باوجود اُن کا شعری سفر جاری رہا اور وہ اپنے احساسات کو شعری قالب میں ڈھالتی رہیں۔ وہ ایک مضبوط اور طاقتور خاتون تھیں، لیکن پدرشاہی اثرات ان کی زندگی کے ہر پہلو میں سرایت کئے ہوئے تھے۔ ان حالات کے بیچ شاعری ان کے لئے پناہ گاہ بن گئی، ایک ایسا ذریعہ جس کے ذریعے وہ اپنی مشکلات کو جھیل سکیں۔ اپنی فیملی، سسرال اور شوہر کے ہاتھوں غلط سمجھی جانے کے باوجود، انہوں نے اپنے جذبات کو الفاظ میں ڈھالا اور شاعری کی زبان میں اُنہیں شائقین شعر و ادب کی نذر کیا۔ ان اشعار کے ذریعے وہ سماجی بندشوں کے خلاف لڑیں جو ان پر مسلط کی گئیں اور آہستہ آہستہ مداحوں کا ایسا گروہ وجود میں آیا جو ان کی جدوجہد اور قوت کو محسوس کرسکتا تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے:جدید اردو افسانے کا تلقارمس سریندر پرکاش :ایک قصہ گو، قصے جس کے فکشن کی ریڑھ کی ہڈی کےمنکے ہیں

عموماً مرد شاعروں کی نظر میں محبت ایک جسمانی یا روحانی جذبہ ہوتا ہے مگر پروین شاکر کی شاعری میں محبت کے جذبات کا ایک وسیع منظرنامہ موجود ہے: یکطرفہ محبت، مردوں کی بےوفائی، خواتین کی جدوجہد، تنہائی کا خوف، سماجی مظالم اور محبت کرنے نیز محبت کئے جانے کی خواہش۔ اُنہوں نے اپنی نظم ’’صدبرگ‘‘ کے آغاز میں عورت ہونے کے ’’المیے‘‘ کو اجاگر کیا:
 ’’ میرا گناہ یہ ہے کہ میں ایک ایسے قبیلے میں پیدا ہوئی جہاں سوچ رکھنا جرائم میں شامل ہے، مگر قبیلے والوں سے بھول یہ ہوئی کہ انہوں نے مجھے پیدا ہوتے ہی زمین میں نہیں گاڑ دیا اور اب مجھے دیوار میں چن دینا ان کیلئے اخلاقی طور پر اتنا آسان نہیں رہا مگر وہ اپنی بھول سے بےخبر نہیں، سو اب میں ہوں اور ہونے کی مجبوری کا یہ اندھا کنواں جس کے گرد گھومتے گھومتے میرے پاؤں پتھر کے ہو گئے ہیں اور آنکھیں پانی کی کیونکہ میں نے اور لڑکیوں کی طرح کھو ُپے پہننے سے انکار کر دیا اور انکار کرنے والوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا۔ ‘‘
 اپنی ایک نظم ’’میں عورت ذات ٹھہری ہوں ‘‘ میں وہ، مسلم خواتین کے حالات پر خود تمسخری اور ہمدردی کے امتزاج سے لکھتی ہیں :
میں عورت ذات ٹھہری ہوں، مجھے مسجد نہیں جائز
 تم پانچ وقت جاتے ہو خدا سے مانگ لو مجھ کو
 پروین شاکر کی شاعری میں عورتوں کو ہمیشہ مظلومیت اور کنٹرول کی علامت کے طور پر نہیں پیش کیا گیا بلکہ وہ خواتین کے اندر موجود مزاحمتی قوت کو اجاگر کرتی ہیں۔ ایک اور نظم میں وہ خواتین کے عالمی دن کی نمائشی تقریبات کو ہدف بناتے ہوئے لکھتی ہیں :
رت بدلی تو بھنوروں نے تتلی سے کہا، 
 آج سے تم آزاد ہو
 پروازوں کی ساری سمتیں تمہارے نام ہوئیں 
 جاؤ!
 پھر اس دھوکے کو بے نقاب کرتی ہیں :
اپنے کالے ناخنوں سے
تتلی کے پر نوچ کے بولے
احمق لڑکی
گھر واپس آ جاؤ
ناٹک ختم ہوا ختم ہوا
(خواتین کا عالمی سال)
 پروین شاکر کی شاعری مزاحمت کی شاعری ہے، ایک ایسی مزاحمت جو عورتوں پر تھوپی گئی فرمانبرداری کے خلاف ہے۔ وہ پدرشاہی نظام کی کھوکھلی جگہوں کو بے نقاب کرتی ہیں اور ان سماجی اقدار کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں جو مردوں کی خوشنودی کے لئے خواتین سے جی حضوری اورمحض تعمیل ِ ِحکم کا تقاضا کرتی ہیں۔ آج کے دور میں اگر پروین شاکر زندہ ہوتیں تو بہتر ّ (۷۲) سال کی ہوتیں اوراُن کی شاعری جو پہلے بھی لاثانی تھی، اپنے سامع اور قاری کو زیادہ ثروت مند بناتی۔ لیکن انہوں نے جو بھی لکھا، جتنا بھی لکھا، وہ اس قابل ہے کہ پڑھا جائے، بار بار پڑھا جائے اور اس دوران اُس پروین کو تلاش کیا جائے جو وہ اصل میں تھیں۔ پروین صرف واہ واہ کیلئے نہیں ہے، صرف مان لینے کیلئے نہیں ہے کہ اچھی شاعرہ تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK