Inquilab Logo

موجودہ حالات میں مسلمان انفرادی طور پر زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کا حصہ کیسے بنیں؟

Updated: March 25, 2024, 1:26 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

زکوٰۃ کی ادائیگی کے مختلف پہلو ہیں۔ اول یہ کہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں انفرادی اور اجتماعی نظم کی کیا اہمیت ہے؟ آج کی تاریخ میں زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کی کتنی ضرورت ہے؟ اگر ہے تو اس کے شرائط و ضوابط کیا ہیں؟ انفرادی طور پر زکوٰۃ کی ادائیگی کا کیا حکم ہے؟ اور سب سے اہم یہ کہ مسلمان انفرادی طور پر زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کا حصہ کیسے بنیں؟اس آخری سوال کے تحت انقلاب نے مختلف علمائے کرام اور سماج کی ذمہ دارشخصیات سے رابطہ قائم کیا اور ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔ اس گفتگو کے اہم اقتباسات یہاں پیش کئے جارہے ہیں۔

Scholars and community leaders in every city and region can establish a collective order for a Zakat. Photo: INN
ہرشہر اور علاقے میں علمائےکرام اور سماج کے ذمہ داران ایک زکوٰۃ کیلئے اجتماعی نظم قائم کرسکتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

زکوٰۃ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ اسکی اہمیت و افادیت سے کم و بیش تمام مسلمان واقف ہیں۔ اسلام چونکہ فطری مذہب ہے، اسلئے اس کے ہرضابطے، ہراصول اور اس کے ہر حکم کی مذہبی، سماجی اورفلاحی اہمیت بھی ہے۔ زکوٰۃ کا مطلب اپنی دولت اور اپنی آمدنی سے ایک مخصوص حصہ نکال دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کی ادائیگی کا حکم ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کیلئے اسلام نے کچھ اصول و ضوابط ترتیب دیئے ہیں اور مسلمانوں کے سامنے اس کے مستحقین کی باقاعدہ ایک فہرست پیش کی ہے۔ اس کیلئے ہم مستحقین تک بذات خود پہنچ کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہوسکتے ہیں یا پھر زکوٰۃ کی رقم کو بیت المال کے حوالے کرکےمطمئن ہو سکتے ہیں۔ اسلام نے ہمیشہ انفرادی کوششوں  پر اجتماعی کوششوں کوترجیح دی ہے۔ زکوٰۃ کے سلسلے میں باقاعدہ اجتماعی نظم کی تاکید کی گئی ہےلیکن اس کے بھی کچھ شرائط ہیں۔ آج کی تاریخ میں ہم اس بات کی امید نہیں کرسکتے کہ پوری دنیا میں ایک بیت المال ہو، یا ہر ملک کا اپنا اپنا زکوۃکااجتماعی نظم ہو۔ ہرریاست اور ہر شہر میں بھی واحد بیت المال کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک عام مسلمان زکوٰ ۃ کے اجتماعی نظام میں اپنا کردار کس طرح ادا کرے؟ اس سوال کےتحت ہم نے چند اہم علمائے کرام اور کچھ دانشوران سے رابطہ کیا اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ’’موجودہ حالات میں مسلمان زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کا حصہ کیسے بنیں ؟‘‘ 
انفرادی سطح پر اجتماعی نظم کا قیام


مفتی اشفاق قاضی
اسلامی اسکالر اور شریعہ ایڈوائزر
موجودہ حالات میں ہم مجموعی طورپر اجتماعی نظام قائم کر ہی نہیں سکتے کیونکہ اس کیلئے خلافت، امارت اور مرکزی بیت المال کے نظام کی ضرورت ہوگی۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے البتہ انفرادی سطح پر بھی اجتماعی نظم کا قیام ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پرہم لوگ ۶؍ بھائی ہیں۔ ایسے میں ہم تمام بھائی آپس میں مل کر اپنے زکوٰۃ کی رقم سے کسی ایک بندے کی کفالت کی ذمہ داری لے لیں، اس کے گھرکے تعلیمی اخراجات پوری کردیں یا کسی بیوہ کے گھر کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کردیں۔ اسی طرح اس سے تھوڑا آگے بڑھ ہم اپنے پڑوس کی مسجد میں زکوٰۃ کے اجتماعی نظام کا بھی حصہ بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک مسجد میں ۵۰؍ مصلی ہیں تو ان میں سے ۲۰؍ ہم خیال مصلی مل کر ایک نظم قائم کرسکتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان کے کچھ آپسی تقاضے بھی ہوں گے۔ اس صورت میں وہ ۵۰؍ فیصد کو انفرادی تقاضوں کیلئے رکھ لیں اور ۵۰؍ فیصد کو اجتماعی طور پر خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔ اگر ہم یہ مان کر چلیں کہ ان میں سے ہر ایک مصلی اوسطاً ۱۰؍ ہزار روپے زکوٰۃ نکال رہا ہے تو وہ لوگ ۵؍ ہزار کو انفرادی طورپر خرچ کریں اور ۵؍ ہزار کو اجتماعی زکوٰۃ کیلئے الگ کرلیں۔ اس طرح ۵۰؍ ہزار کی ایک بڑی رقم ہوجائے گی۔ اس کی مدد سے وہ کسی مستحق کو چھوٹا موٹا کاروبار شروع کروا دیں، فروٹ وغیرہ کی کوئی گاڑی لگوادیں، آئی ٹی آئی کا کوئی کورس کروادیں یا پھر سلائی مشین وغیرہ کی مدد سے کسی خاتون کو خود کفیل بنادیں۔ اس طرح انفرادیت کے اندر بھی اجتماعی شکلیں قائم کی جاسکتی ہیں۔ مطلب یہ کہ انفرادی کوششوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی شکلیں بنا کر، بعض لوگوں کو تربیت دے کر، ان کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنانے کا نظام قائم کرکے، ان میں لینے والے کے بجائے دینے والے ہاتھ کا مزاج پیدا کرکے انہیں خود کفیل بنانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ 
متقی اور پرہیز گار لوگ اجتماعی نظم قائم کریں 


مولانا سید معین الدین اشرف عرف معین میاں 
 صدر آل انڈیا سنی جمعیۃ علماء
 زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کیلئے بیت المال ہی مناسب حل ہے لیکن موجودہ حالات میں اس کا قیام ممکن نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ممکن نہیں ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ اس تعلق سے ایک حل یہ ہے کہ مسجد کی سطح پر چھوٹے پیمانے پر ہی سہی، کچھ متقی اور پرہیز گار لوگ اجتماعی نظم قائم کریں اور اپنے اطراف کے مسلمانوں کواعتماد میں لے کر منصوبہ بندی کریں۔ اس طرح جمع ہونے والی رقم سے زکوٰۃ کے مصارف کے لحاظ سے اسے خرچ کریں۔ جہاں تک انفرادی طور پر اجتماعی نظم کا حصہ بننے کی بات ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے اطراف میں جہاں کہیں بھی اس طرح کا کوئی نظم ہے، ہم اس کا پتہ لگائیں، اس کی تحقیق کریں اور پھر اپنی زکوٰۃکی رقم اس کے حوالے کردیں لیکن پوری کی پوری رقم وہاں دینے سے بہتر ہے کہ اسے انفرادی طورپر بھی خرچ کریں۔ مثال کے طور پر اگر ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے رشتہ داروں میں کوئی ایسا شخص ہے جو زکوٰۃ کا مستحق ہے، تو اس صورت میں ضروری ہے کہ ہم اپنی زکوٰۃ خود اس تک پہنچائیں۔ اس کے مانگنے کاانتظار نہ کریں۔ اسی طرح ہمارا کوئی پڑوسی بھی زکوٰۃ کا حقدار ہوسکتا ہے، ہمیں اُس تک بھی پہنچنا چاہئے۔ 

یہ بھی پڑھئے: کیا آج ملک میں سیاسی اخلاقیات کا کوئی وجود ہے؟

اجتماعی نظم زکوٰۃ انفرادی ادائیگی سے بہتر ہے


مولانا محمود خان دریابادی (عالم دیں اور سماجی کارکن)
 نظام زکوٰۃ اسلام کا اہم فریضہ ہے بلکہ ملت کیلئے ایک عظیم نعمت ہے۔ ـ قران مجید میں اکثر مقامات پر زکوٰۃ کا ذکر نماز کے ساتھ آیا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جس طرح جماعت کے ساتھ نماز کا ثواب انفرادی نماز سے زیادہ ہے اسی طرح اجتماعی نظم زکوٰۃ بھی انفرادی ادائیگی کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔ ـ اگر تقسیم زکوٰۃ کا کوئی مضبوط نظام ہوتا تو سماج سے غربت کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔ ہماری یادداشت میں کئی مرتبہ اجتماعی نظم قائم کرنے کی کوششیں ہوئیں مگر اُن سے فائدہ ہونے کے بجائے ہزاروں زکوٰۃ وصولنے والوں میں ایک اور کا اضافہ ہوکر رہ گیا۔ ہمارے ملک کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ یہاں اجتماعی نظم زکوٰۃ قائم کرنا کافی مشکل ہےتاہم جمعیۃ علماء، جماعت اسلامی ہند اور جمعیت اہل حدیث جیسی کچھ تنظیموں نے اپنے طور پر کچھ نظم بنارکھا ہے۔ احقر کے مطابق جب تک کوئی مضبوط اجتماعی نظم قائم نہیں ہوتاتب تک اپنے اعزہ، پڑوسی اور علاقے کے مستحقین کے ساتھ ساتھ معتبر اداروں میں اپنی زکوٰۃ ادا کرنی چاہئے۔ 
انفرادی اور اجتماعی زکوٰۃ میں توازن پیدا کریں 


مولانا محمد الیاس فلاحی
امیر جماعت اسلامی ہند، مہاراشٹر
  آج کی تاریخ میں ہندوستانی مسلمان ہر اعتبار سے غربت کے شکار ہیں۔ یہ غربت معاشی بھی ہے اور سماجی بھی۔ ملک میں مسلمانوں کی اکثریت کے پاس روزگار کے ذرائع نہیں ہیں اور دوسروں کے مقابلے ان کی قوت خرید بھی کم ہے۔ ایسے میں انہیں اس سطح سے اوپر لانے کی سخت ضرورت ہے۔ اسلام نے اس کیلئے ہمیں زکوٰۃ کا ایک بہترین نظم دیا ہے۔ اس کی مدد سے سماج کے درمیان پائی جانے والی مفلسی ختم یا کم کی جاسکتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے واضح مصارف بیان کئے ہیں۔ اس طرح جہاں جہاں معاشی پریشانیاں آسکتی ہیں، اسلام نے وہاں وہاں پر زکوٰۃ کے استعمال کا حکم دیا ہے۔ دراصل یہ ایک طرح کا سوشل انشورنش ہے۔ عام طور پر اسے۲؍ طرح سے خرچ کیا جاتا ہے۔ ایک ’پروڈکٹیو‘ اور دوسرا ’نان پروڈکٹیو‘۔ پروڈکٹیوطریقہ ہم اسے کہتے ہیں جس کے تحت ہم جسے زکوٰۃ دیں، وہ کچھ ہی دنوں میں خود زکوٰۃ دینے کے قابل ہوجائے جبکہ نان پروڈکٹیو طریقہ وہ ہے جس میں کسی کی وقتی مدد کی جاتی ہے۔ اب اگر ہم پروڈکٹیو طریقے کو سماج میں بڑھانا چاہیں تو اس کی تکمیل اجتماعی نظام زکوٰۃ ہی میں ممکن ہے۔ 
 اس کیلئے ہرشہر اور علاقے میں علمائےکرام اور سماج کے ذمہ داران ایک اجتماعی نظم قائم کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس کا قیام مساجد کی سطح پر بھی ہو سکتا ہے۔ مساجد کے ذمہ داران ایک نظم قائم کریں اور اس کے تحت زکوٰۃ کی رقم جمع کریں۔ اس کے بعد محلے کا سروے کریں اور ضرورت مندوں تک اسے پہنچائیں۔ انفرادی اور اجتماعی زکوٰۃ کی ادائیگی میں توازن پیدا کریں۔ زکوٰۃ کا ۳۰؍ فیصد رشتہ داروں، پڑوسیوں اور غریب دوستوں میں تقسیم کریں جبکہ ۷۰؍ فیصد زکوٰۃ کی رقم اجتماعی طور پرخرچ کریں۔ اجتماعی طور پر زکوٰۃ اداکریں تو اس پر بھی نگاہ رکھیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی رقم کااستعمال مناسب ہورہا ہے کہ نہیں ؟ اس کی آڈٹ رپورٹ پر توجہ دیں۔ مدارس یا ملی تنظیموں کو زکوٰۃ دیتے وقت بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ وہاں کے وسائل کیا ہیں اور اس کے اخراجات کیا ہیں ؟
اجتماعی نظم کے کئی سارے ملی فوائد و مصالح ہیں 


مولانا عبدالسلام سلفی
امیر جمعیت اہل حدیث، ممبئی
 سب سے پہلے تو اجتماعی زکوٰۃ کا شرعی معنی ومفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ کسی بھی اصطلاح کی جب صحیح طور پر تشریح وتوضیح نہ ہو تو لوگ اس اصطلاح کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگتے ہیں اور خود ساختہ معانی پہنا کر اسے اپنے مخصوص مقاصد میں استعمال کرنے لگتے ہیں۔  شرعی طور پر اجتماعی زکوٰۃ کی ادائیگی کا مفہوم یہ ہے کہ حکومت یا اس کے قائم مقام معتبر تنظیم کے اس نظام کو کہا جاتا ہے جو زکوٰۃ کی وصولی اور اس کے مستحقين تک پہنچانے کی ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دیتی ہو۔ اور ان امور کی تنفیذ کیلئے اس کے پاس قوت ہو۔ اب اس نظام کو چاہے بیت المال کا نام دیا جائے یا کچھ اور اسے اجتماعی نظام زکوٰۃ کہا جاسکتا ہے۔ 
  اس نظام کے علاوہ جتنے بھی بیت المال مذکورہ بالا نظام سے الگ ہوکر شخصی یا چند نفری اشخاص پر مشتمل قائم ہوں انہیں شرعی اعتبار سے اجتماعی نظام زکوۃ کا شعبہ نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ جو بیت المال کسی اسلامی حکومت یا اس کے قائم مقام تنظیم کے شعبے کا حصہ نہ ہو وہ خود اجتماعی نہیں ہے تو اسے اجتماعی زکوۃ کا نظام کیسے کہا اور تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ 
  البتہ ملی مسائل کیلئے اگر کوئی معتبر اجتماعی اور منظم کوشش کی جائے تو صرف ترغیبی انداز میں ہی وہاں زکوٰۃ دینے یا جمع کرنے کی بات کی جائے گی لیکن اگر کسی کی طرف سے وہاں زکوٰۃ نہ جمع کی گئی ہو تو اس پر یہ فتویٰ اور حکم نہیں لگایا جائے گا کہ اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی۔ ترغیبی انداز کی بات کے علاوہ اگر اس پر ولاء وبراء کی بنیاد قائم کی جانے لگے تو یہ از خود غلط ہوگا جس کی تائید نہیں کی جاسکتی۔ اس کا واضح مطلب یہ کہ: زکوٰۃ کو اس کے مستحقین تک پہنچانے کا دو طریقہ مشروع ہے:
 اول یہ کہ زکوٰۃ کے مال کو بیت المال کے حوالے کر دیا جائے جو مصارف زکات کے اصولوں کی روشنی میں مستحقین میں تقسیم کرے۔ دوم یہ کہ زکوٰۃ نکالنے والا بذات خود مستحق افراد تک زکوٰۃ کا مال پہنچا دے۔ دونوں ہی شکلوں میں زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔ جہاں پر اسلامی نظام حکومت نہیں ہے، وہاں معتبر افراد کی جانب سے کوئی تنظیم بنا لینا، جو زکوٰۃ کے مال کو جمع کرکے شرعی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اسے مستحقین تک پہنچائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اس کے بہت سارے ملی فوائد و مصالح ہیں۔ 
مستحقین کی تلاش ہمیں خود کرنی چاہئے


پروفیسر عبدالشعبان
پروفیسر، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، ممبئی 
 زکوٰۃ کے مقاصدبہت بڑے ہیں۔ ہم نےانہیں بہت محدود کردیا ہے۔ ہم اپنے بچپن میں دیکھتے تھے کہ ہمارے گاؤں میں لوگ زکوٰۃکی رقم سے بہت سارے کپڑے خریدتے تھے اور انہیں بلا لحاظ مذہب و ملت لوگوں میں تقسیم کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے گاؤں میں بھائی چارگی بھی بہت تھی۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ زکوٰۃ ایک مذہبی رکن ہے اور ہر مذہبی رکن کے کچھ مذہبی اور سماجی مقاصدبھی ہوتے ہیں۔ زکوٰۃ بھی دراصل ایک سوشل فنکشن ہے، اس کی ذمہ داری ہر اُس فرد کو لینی چاہئے جو زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔ وہ خود مستحقین کی تلاش کرے اور اس کی مدد کرے۔ جہاں تک کچھ بڑا کام کرنے کیلئے کچھ بڑی رقم کی ضرورت کی بات ہے، اس کیلئے زکوٰۃ کے بجائے الگ سے رقم کا مطالبہ کریں۔ ہمارے سماج میں اسے سربرآورہ لوگ بھی ہیں جو ضرورت پڑنے پر بڑی رقم دے سکتے ہیں، جیسے عظیم ہاشم پریم جی اور فضلانی گروپ۔ اس طرح کے گروپ سماجی ترقی پر کافی کچھ خرچ کرتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK