Inquilab Logo

کیا آج ملک میں سیاسی اخلاقیات کا کوئی وجود ہے؟

Updated: March 10, 2024, 5:15 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

ان دنوں ملک میں ای ڈی، سی بی آئی، انکم ٹیکس ، این آئی اے، الیکشن کمیشن اورسرکاری بینکوں جیسے حکومتی اداروں کے ساتھ ہی میڈیا اور کچھ حد تک عدلیہ کو قابومیں کرکے جس طرح کی سیاست کی جارہی ہے، ان حالات میں کیا سیاسی اخلاقیات کی کوئی امید کی جاسکتی ہے؟

Anil Masih with his lawyer who was held responsible by the Supreme Court for rigging votes in the Chandigarh election. Photo: INN
اپنے وکیل کے ساتھ انیل مسیح جنہیں سپریم کورٹ نے چنڈی گڑھ الیکشن میں ووٹوں کے خرد برد کیلئے ذمہ دار قرار دیا۔ تصویر : آئی این این

بات ۱۹۵۲ءکی ہے۔ ملک کو آزاد ہوئےابھی چند ہی سال ہوئے تھے۔ اسی درمیان ملک کو ترقی کی سمت لے جانے کے موضوع پر لوک سبھا میں گفتگو ہو رہی تھی۔ گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے ایک رکن پارلیمان نے کہا کہ اگرحکومت کوئی توقع کئے بغیرکسی ادارے یا یونیورسٹی کو ۴؍ کروڑ روپوں کاگرانٹ منظور کرسکے، تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ چند ہی برسوں میں اپنے ملک کو نیوکلیائی سائنس میں خود کفیل کر کے ایٹمی توانائی حاصل کرلوں گا۔ یہ رقم تنظیمی سیٹ اَپ یا رکھ رکھاؤ کیلئے نہیں بلکہ سائیکلوٹرون خریدنے کیلئے درکار ہے۔ یہ رکن پارلیمان مشہور سائنسداں میگھ ناد ساہا تھے۔ نہرو اُٹھے اور قدرے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بولے کہ ’’وہ ملک جس نے عدم تشدد کے ذریعے آزادی حاصل کی ہو، وہ اس قسم کے احمقانہ خیالات کو برداشت نہیں کرے گا۔ ‘‘ نہرو کے اس جواب کے بعد لوک سبھا میں سناٹا چھا گیا، کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 
 اس کےکچھ دیر بعد ہی وزیراعظم نہرو ایک خط پڑھنے لگے جو اقوام متحدہ کی طرف سے آیا تھا۔ اس میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں میگھ ناد ساہا کی قیادت میں ایک ہندوستانی وفد بھیجنے کی درخواست کی گئی تھی۔ وزیراعظم نے خط میں پیش کی گئی درخواست کی تائید کی۔ اسپیکر کی کرسی پر ’جی وی ماؤلنکر‘ تشریف فرما تھے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا’’لیکن ساہا صاحب کہاں ہیں ؟‘‘دراصل نہرو کے بیان کے بعد وہ خاموشی سے ’واک آؤٹ‘ کرگئے تھے۔ پنڈت نہرو نے اسپیکر سے کہا کہ آپ مجھے آدھے گھنٹے کا موقع دیں، میں ابھی معزز رکن پارلیمان کی رضامندی کے ساتھ آپ کے روبرو حاضر ہوتا ہوں، تب تک آپ ایجنڈے کے تحت کارروائی کو آگے بڑھائیں۔ 
 اور پھر چند ہی منٹوں میں وہاں موجود اراکین پارلیمان نے دیکھا کہ ساہا کے ساتھ نہرو ایوان میں داخل ہوئے۔ ساہا نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ ’’یہ مناسب نہیں ہوگا کہ اقوام متحدہ میں اس عظیم ملک کی نمائندگی ایک ’احمق‘کرے۔ ‘‘ نہرو نے فوری طور پر جواب دیا کہ ’ ’ ہم نے معززرکن کو ’احمق‘ نہیں کہا بلکہ اُن کے خیال کو ’احمقانہ‘ کہا ہے اور پارلیمنٹ کے اصول کے مطابق ’احمق‘ غیر پارلیمانی لفظ ہےلیکن ’احمقانہ‘ غیرپارلیمانی نہیں ہے۔ ‘‘ 
 کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ہندوستانی پارلیمنٹ جس اخلاقی مظاہرے کا گواہ بنا، وہ سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ وہ سیاسی اخلاقیات کی ایک شاندار مثال ہے۔ حزب اقتدار کے سربراہ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی میگھ ناد ساہا سے کہا کہ ’’اگر جذبات میں آکر مجھ جیسے احمق سے ایسے الفاظ ادا ہوگئے تو کیا ساہا جیسی عظیم شخصیت کیلئے اسے اتنی سنجیدگی سے لینا مناسب ہے؟‘‘اس کے بعد دونوں کے درمیان موجود گلے شکوے دور ہوگئے اور ساہا نے فوری طور پر وفد کی قیادت کیلئے اپنی رضامندی دے دی۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’انڈیا‘ اتحاد میں اچھی پیش رفت، تین دنوں میں کئی ریاستوں میں سمجھوتہ

 اس واقعے کو مشہور اسکالر اور کئی کتابوں کے خالق ڈاکٹربُڈا راجو رادھا کرشنا نے تیلگو میں تحریر کردہ اپنی خود نوشت میں نقل کیا ہے۔ 
 ملاحظہ کریں سیاسی اخلاقیات کا ایک اور عمدہ نمونہ۔ 
  بات۲؍ ستمبر ۱۹۵۶ء کی ہے۔ حیدرآباد اسٹیٹ (آج کے تلنگانہ) میں محبوب نگر کے پاس ایک ٹرین حادثہ ہوتا ہے جس میں ۱۲۵؍ مسافروں کی موت ہوجاتی ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد یہ ایک بڑا ٹرین حادثہ تھا۔ اس حادثے سے اُس وقت کے وزیربرائے ریلویز لال بہادر شاستری بہت زیادہ دل برداشتہ ہوئے۔ انہوں نے وزیراعظم پنڈت نہرو کے روبرو اپنے استعفے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا۔ بدقسمتی دیکھئے کہ ڈھائی ماہ بعد۲۳؍ نومبر کو ایک اور ریل حادثہ ہوجاتا ہے جس میں ۱۵۰؍ مسافروں کی موت ہوجاتی ہے۔ تمل ناڈو میں ہونے والے اس حادثے نے شاستری جی کو توڑ کر رکھ دیا اور انہوں نے فوری طور پر وزارت ریلوے سے استعفیٰ دے دیا۔ 
 کیا آج کی تاریخ میں اس طرح کی سیاسی اخلاقیات اور ذمہ دارانہ رویے کے مظاہرے کی کوئی امید کی جاسکتی ہے؟
 ایک واقعہ اور سن لیں۔ راج گھرانے سے تعلق رکھنے والے وشو ناتھ پرتاپ سنگھ (وی پی سنگھ) نے طالب علمی ہی کے دور سے اپنی سیاست کا آغازکردیا تھا۔ یونیورسٹی میں وہ اسٹوڈنٹس لیڈر تھے۔ ۱۹۶۹ء میں پہلی مرتبہ وہ الیکشن جیت کر اترپردیش اسمبلی پہنچے تھے اور پھرترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ۱۹۸۹ء میں وزیراعظم کے عہدے تک پہنچے۔ ان کی سیاست کا مرکز و محور سماجی انصاف تھا۔ اسلئے انہوں نے اس میدان میں قدم رکھنے سے پہلے ہی اپنی زمینوں  کا ایک بڑا حصہ’بھو دان آندولن‘ کے حوالے کردیا تھا۔ اپنی زمینوں کو غریبوں میں تقسیم کردینے کی وجہ سے انہیں اپنے خاندان میں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ معاملہ عدالت تک گیا لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ دراصل ان کی سوچ یہی تھی کہ ہر اچھے کا کام آغاز اپنی ذات او ر اپنے گھر سے کرو، دوسروں سے وہی کہو جو خود کرسکو اور کسی کو کچھ کہنے سے پہلے خود اُس پرعمل کرکے دکھاؤ۔ 
 کیا آج کی تاریخ میں ہر بات کی ’گارنٹی‘ دینے والے لیڈروں سے اس طرح کے سیاسی اخلاقیات کی امید کی جاسکتی ہے؟ 
  آج کی سیاست جھوٹ اور مکرو فریب کا ایک مرکز بن گیا ہے۔ موجودہ سیاست میں اپوزیشن کواہمیت دینے، کسی بات کی ذمہ داری لینے اور خود پر قانون و آئین کا نفاذ کرنے کا تصور ہی نہیں ہے۔ بدعنوانی کا ڈھول پیٹ کر عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی مودی حکومت کے سارے کام کاج اس قدر مشکوک ہیں کہ ان تمام پر بدعنوانی کا شبہ ہوتا ہے۔ رافیل طیاروں کے سودے سے لے کر انتخابی بونڈمیں مبینہ بدعنوانی تک اور پی ایم کیئر فنڈ سے لے کر اراکین پارلیمان اور ایم ایل ایز کی سوداگری تک۔ چنڈی گڑھ کے میئر الیکشن میں ووٹوں کی ڈکیتی سے لے کر ہماچل اور اترپردیش کے راجیہ سبھا انتخابات میں اراکین کی وفاداری کی تبدیلی تک۔ مہاراشٹر اور بہار میں سیاسی جماعتوں کے اندر توڑ پھوڑ تک۔ مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں حکومتوں کے عدم استحکام تک اورکشمیر سے لے کر منی پور تک عوام کی آزادی سے کھلواڑ تک.... ہرجگہ بدعنوانی کی بو محسوس کی جاسکتی ہے۔ آنکھوں پر کتنی بھی دبیز پٹی کیوں نہ بندھی ہوئی ہو لیکن انتخابی بونڈ اور پی ایم کیئر فنڈ کے تعلق سے حکومت کا مشکوک رویہ ہر کسی کو نظر آسکتا ہے۔ زبان سے کچھ کہیں، نہ کہیں لیکن یہ بات اب اندھ بھکت بھی سمجھنے لگے ہیں کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ رہی سہی کسراسٹیٹ بینک آف انڈیا کے اس بیان نے پوری کردی ہے جس میں اس نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ لوک سبھا انتخابات کی تکمیل تک وہ انتخابی بونڈ کی تفصیل کو منظر عام پر نہیں لاسکتا۔ مختلف وجوہات سے کچھ لوگ بھلے ہی آج بھی مودی بھکتی کا ثبوت پیش کریں لیکن پہلے کی طرح حکومت کا دفاع اب وہ بھی کھل کر نہیں کرپارہے ہیں۔ 
 رہی بات سیاسی اخلاقیات کی تو اب اس کی توقع ہی نہیں کی جا رہی ہے۔ وہ آدمی جو وزیر اعلیٰ ہوکر اپنے شہریوں کی موت کو ’کتے کے پلّے کی موت‘ سے تشبیہ دے اور وزیراعظم کے عہدہ پر پہنچ کراپنی ایک ریاست کو جلتا ہوا چھوڑ کر انتخابی مہم چلائے اور اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرے، اس سے اور بھلا کیا امید کی جاسکتی ہے۔ ویسے بھی وزیراعظم کا تعلق اُس پارٹی سے ہے جو آبرو ریزی کے مجرمین کی محض اس بنیاد پر حمایت کرتی ہے اور انہیں مہذب کہتی ہے کہ ان کا تعلق اس کی اپنی پارٹی ہے تو ایسے میں حکمراں جماعت سے سیاسی اخلاقیات کی امید کیوں کر کی جا سکتی ہے؟
 ان دنوں ملک میں ای ڈی، سی بی آئی، این آئی اے، الیکشن کمیشن، انکم ٹیکس اورسرکاری بینکوں جیسے حکومتی اداروں کے ساتھ ہی جمہوریت کا چوتھا ستون قرار دیئے جانے والے میڈیا اورکچھ حد تک عدلیہ کو قابومیں کرکے جس طرح کی سیاست کی جارہی ہے، ان حالات میں کیا سیاسی اخلاقیات کی کوئی امید کی جاسکتی ہے؟ بالخصوص ان حالات میں کہ عوام کا ایک بڑا طبقہ بھی ان حرکتوں کو برا نہیں سمجھتا اور جان بوجھ کر ان بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں کی حمایت کرتا ہے۔ 
 لیکن یاد رہے کہ اکثریت کی بنیاد پراقتدار پر قبضہ تو مل سکتا ہے لیکن تاریخ میں انہیں ہٹلر، مسولینی، جنرل ڈائر، ڈینگ ژاؤپنگ، کم جونگ اُن اور پوتن کی صورت ہی میں شمار کیا جائے گا۔ تاریخ انہیں کبھی پنڈت نہرو، شاستری اور وی پی سنگھ کی فہرست میں نہیں رکھے گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK