Inquilab Logo

قیامت کا سوال، اسکی کیفیت، نابینا سے اعراض اور سورہ عبس کا نزول اور دس راتوں کی قسم

Updated: April 08, 2024, 2:59 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سورۂ المطففین کا مو ضوع بھی قیامت ہی ہے۔ اس کی ابتدائی آیات میں ان لوگوں پر گرفت کی گئی ہے جو دوسروں سے تو پورا پورا ناپ تول کرلیتے ہیں اور جب دوسروں کو دیتے ہیں تو گھٹا کر تولتے ہیں، یہ آخرت سے غفلت کا نتیجہ ہے، اگر یہ احساس ہو کہ ایک دن قیامت آئے گی اور خدا کے پاس حاضر ی ہوگی، اس وقت حساب دینا ہوگا، تب کوئی بھی یہ خیانت نہیں کرسکتا۔

Everything in the universe invites contemplation. Photo: INN
کائنات کی ہر چیز غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔ تصویر:آئی این این

آج :اُنتیسویں تراویح
۳۰؍واں پارہ : عَمَّ 
تیسویں پارے کی پہلی سورہ النباء کا موضوع بھی سابقہ سورہ کے موضوع سے ملتا جلتا ہے، یعنی قیامت۔ یہ موضوع تھا ہی ایسا حیرت انگیز کہ جب بھی اہل مکہ کے سامنے قیامت کا ذکر کیا جاتا اور بتلایا جاتا کہ ایک دن یہ دنیا ختم ہوجائے گی تو وہ اس پر نہ صرف یہ کہ تعجب اور حیرت کا اظہار کرتے بلکہ اسے عقل سے بعید سمجھ کر اس خیال کا مذاق بھی اڑاتے۔ اس سورہ میں پہلے ان لوگوں کی خبر لی گئی ہے جو قیامت کے وقوع کا مذاق اڑایا کرتے تھے، ان سے پوچھا گیا ہے کہ کیا تمہیں یہ زمین نظر نہیں آتی جسے ہم نے تمہارے لئے فرش بنا رکھا ہے، ان اونچے پہاڑوں کو دیکھو جنہیں ہم نے زمین کی میخیں بنا رکھی ہیں، خود کو دیکھو، تمہیں مردوں اور عورتوں کے جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے، اپنی نیند پر نظر ڈالو اس کے ذریعے تم چاق وچوبند ہوجاتے ہو، دن رات کی گردش پر غور کرو جو تمہاری ضرورت کے مطابق باقاعدگی کے ساتھ مسلسل جاری ہے، آسمانوں کا مضبوط نظام، سورج کی روشنی، بارشوں کی آمد اور بارشوں کے ذریعہ نباتات کی پیداوار (کو دیکھو اور اس پر غور کرو)۔ کیا یہ ساری چیزیں تمہارے فکر وتدبر کیلئے کافی نہیں ہیں اور کیا ان سے یہ نہیں سمجھ میں آرہا ہے کہ اس نظام کائنات کا چلانے والا کوئی ایک دانا، حکیم اور قادر مطلق ہستی ہے؟ اس سورہ میں آخرت کا ذکر کرتے ہوئے روز جزاء کی منظر کشی بھی کی گئی ہے کہ اس دن کوئی بلا اجازت زبان بھی نہ کھول سکے گا، چہ جائیکہ کسی کو بخشوانے کا دعویٰ کرے، صرف وہ لوگ بول سکیں گے جنہیں اذن کلام ہوگا اور صحیح بات کہیں گے۔ آخر میں کہا گیا کہ جس دن کی خبر دی جارہی ہے وہ ضرور آئےگا، اب یہ تم پر منحصر ہے کہ اپنے رب کے راستے پر چلو یا نہ چلو، جو نہیں چلے گا وہ خود اپنا انجام دیکھ لے گا اور اس وقت اپنے اعمال نامے دیکھ کر پچھتائے گا اور حسرت سے کہے گا کاش مَیں (انسان نہ ہوتا بلکہ) مٹی ہوتا ( اور اس عذاب سے بچ جاتا)۔ 
سورۂ النازعات کا موضوع بھی قیامت اور مرنے کے بعد کی زندگی ہے۔ ابتداء میں فرشتوں کی قسم کھا کر فرمایا گیا کہ اس دن یعنی قیامت کے دن (کائنات کی) ہر متحرک چیز شدید حرکت میں آجائے گی، اس دن (لوگوں کے) دل خوف و اضطراب سے دھڑکتے ہوں گے۔ اس زندگی کا انکار کرنے والوں سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا اس وسیع وعریض کائنات کو عدم سے وجود میں لانا دشوار ہے؟ جس اللہ نے یہ کام کردیا اس کیلئے دوبارہ زندہ کرنا کیوں مشکل ہوگا، آخر میں کفار کے اس سوال کا جواب بھی دیا گیا ہے کہ قیامت کب آئیگی، کہا اس کا علم صرف اللہ کو ہے، رسول کا کام خبر دینا ہے، جو چاہے وہ اپنے آپ کو اس دن کیلئے تیار کرلے اور جو چاہے وہ خواب خرگوش میں پڑا رہے۔ 
اگلی سورہ عبسہے۔ اس کے شان نزول کے متعلق روایات میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں مکّے کے کچھ سردار بیٹھے ہوئے تھے اور آپؐ انہیں اسلام قبول کرنے پر آمادہ فرمارہے تھے، اتنے میں ایک نابینا صحابی ابن ام مکتومؓ حاضر خدمت ہوئے اور اسلام کے متعلق کچھ پوچھنا چاہا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ مداخلت ناگوار محسوس ہوئی، اور آپؐ نے ان سے کچھ بے رخی برتی اور ان کے ساتھ بے توجہی کا برتاؤ کیا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ ترش رو ہوئے اور اعراض کیا (پیغمبر نے) اس بات پر کہ ان کے پاس (ایک) نابینا آئے۔ آپ کو کیا معلوم شاید وہ نیک ہوجاتے یا (پیغمبر) ان کو نصیحت کرتے تو وہ نصیحت ان کو فائدہ دیتی، اور جو (آپ کی دعوت سے) بے نیازی برت رہے ہیں آپ ان کے پیچھے پڑے ہیں۔ ان آیات میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشفقانہ انداز میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ آپؐ ان سرداروں پر اتنی توجہ نہ دیں، یہ لوگ تو آپؐ کی بات ماننے والے نہیں ہیں، جو لوگ دین کے سلسلے میں آپؐ کے پاس آرہے ہیں ان پر کامل توجہ دیجئے، یہ سدھر سکتے ہیں، آپؐ کی نصیحت ان کے لئے سود مند ہوسکتی ہے۔ 
اگلی آیتوں میں زمین اور اس کی پیداوار کا ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں طرح طرح کے پھل اور مویشیوں کیلئے چارا پیدا کیا گیا۔ آخرکار جب وہ کان بہرے کر دینے والی آواز بلند ہوگی تو اس روز آدمی اپنے بھائی، اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اولاد سے بھاگے گا، ان میں سے ہر شخص کا حال یہ ہوگا کہ کسی کو اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا (مگر) کچھ چہرے اس روز چمکتے ہونگے، مسکرا رہے ہونگے اور خوش وخرم ہونگے اور کچھ چہرے تاریک ہونگے اور ان پر کدورت چھائی ہوئی ہوگی، یہ (آخر الذکر) فاسق وفاجر لوگ ہونگے۔ 
سورۂ التکویر کا موضوع آخرت اور رسالت ہے، آخرت کے تعلق سے فرمایا گیا کہ جب سورج بے نور ہو جائے گا اور ستارے بکھر جائینگے، پہاڑ اڑنے لگیں گے، جب سمندر اور دریا (سب) ابھار دیئے جائیں گے، اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا، کہ وہ کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھی…وغیرہ، اس دن نامۂ اعمال کھولے جائیں گے، ہر شخص جان لے گا جو کچھ اس نے حاضر کیا ہے۔ قرآن مجید کے متعلق ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک یہ (قرآن) بڑی عزت و بزرگی والے رسول کا (پڑھا ہوا) کلام ہے، کہ یہ قرآن کسی دیوانے کی بڑ نہیں ہے۔ پھر (اے بدبختو!) تم (اتنے بڑے خزانے کو چھوڑ کر) کدھر چلے جا رہے ہو، یہ (قرآن) تو تمام جہانوں کیلئے (صحیفۂ) نصیحت ہے، تم میں سے ہر اس شخص کیلئے (اس چشمہ سے ہدایت میسر آسکتی ہے) جو سیدھی راہ چلنا چاہے اور کامیابی کی راہ کواپنا لے۔ 
سورۂ انفطار میں بھی قیامت کے ہولناک مناظر بیان کئے گئے ہیں، اور انسان سے پوچھا گیا ہے کہ اسے کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ بے شک نیکو کار جنت میں ہوں گے اور بدکار دوزخ میں ہوں گے۔ (یہ) وہ دن ہے جب کوئی شخص کسی کیلئے کسی چیز کا مالک نہ ہوگا، اور حکم فرمائی اس دن اللہ ہی کی ہوگی۔ اس سورہ کے سلسلے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قیامت کو اس طرح دیکھنا چاہتا ہو جیسے وہ (اپنی) آنکھوں سے دیکھ رہا ہے تو اسے إِذَا السَّمَاءُ انفَطَرَتْ پڑھنی چاہئے۔ (ترمذی)
سورۂ المطففین کا مو ضوع بھی قیامت ہی ہے۔ اس کی ابتدائی آیات میں ان لوگوں پر گرفت کی گئی ہے جو دوسروں سے تو پورا پورا ناپ تول کرلیتے ہیں اور جب دوسروں کو دیتے ہیں تو گھٹا کر تولتے ہیں، یہ آخرت سے غفلت کا نتیجہ ہے، اگر یہ احساس ہو کہ ایک دن قیامت آئے گی اور خدا کے پاس حاضر ی ہوگی، اس وقت حساب دینا ہوگا، تب کوئی بھی یہ خیانت نہیں کرسکتا۔ 
اب نیک اعمال کرنے والوں اور گنہگاروں کے درجات کا ذکر کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بیشک نیکوکاروں کا نوشتہ ٔ اعمال علّیّین (یعنی دیوان خانۂ جنت) میں ہے، اور آپ نے کیا جانا کہ علّیّین کیا ہے، (یہ جنت کے اعلیٰ درجہ میں اس بڑے دیوان کے اندر) لکھی ہوئی (ایک) کتاب ہے (جس میں اُن جنتیوں کے نام اور اَعمال درج ہیں جنہیں اعلیٰ مقامات دئیے جائینگے)۔ 
سورۂ الانشقاق کی ابتدائی آیات میں تو قیامت کی کیفیت بیان کی گئی ہے اور باقی آیات میں روز جزاء کا ذکر ہے جب ہر شخص کے ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ تھما دیا جائے گا۔ منکرین کو دردناک انجام کی خبر دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کئے ہیں ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔ 
سورۂ البروج میں اصحاب الاخدود کا قصہ ذکر کیا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اہل ایمان کو آگ کے گڑھوں میں ڈال دیا تھا، اصحاب الاخدود کے اس ظلم کا کیا انجام ہوا، ان کا انجام سامنے رکھ کر کفار مکہ سے کہا گیا کہ اہل ایمان کو اذیت دینے سے باز آجائیں، خدا کی پکڑ بڑی سخت ہے، فرعون اور ثمود کی قوموں کا انجام بھی سامنے رکھنا چاہئے، قرآن کی ہر بات پتھر کی لکیر ہے، وہ اس لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے جس کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ 
اس کے بعد کی سورۃ ، الطارق میں بھی یہ بتلایا گیا ہے کہ انسان کو مرنے کے بعد خدا کے پاس جانا ہے۔ آسمان کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ کوئی شخص ایسا نہیں جس پر ایک نگہبان (مقرر) نہیں ہے، انسان کو غور (و تحقیق) کرنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ قرآن کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ اس میں بیان کردہ حقائق قول فیصل کی طرح اٹل ہیں، یہ ہنسی مذاق کی باتیں نہیں ہیں۔ 
سورۂ الاعلیٰ کا بنیادی موضوع توحید ہے، اس کا آ غاز ہی اس طرح کیا گیا ہے کہ آپ اپنے رب کی تسبیح بیان کیا کیجئے جس نے پیدا کیا، تناسب قائم کیا، جس نے تقدیر بنائی، پھر ہدایت دی۔ آپ نصیحت فرماتے رہئے بشرطیکہ نصیحت (سننے والوں کو) فائدہ دے، البتہ وہی نصیحت قبول کریگا جو اﷲ سے ڈرتا ہوگا، اور بدبخت اس (نصیحت) سے پہلو تہی کرے گا۔ یہ تعلیمات موسیٰؑ اور ابراہیمؑ کے صحائف میں بھی مذکور ہیں۔ 
سورۂ غاشیہ کا آغاز ایک سوال سے کیا گیا ہے کہ کیا آپ کو چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے؟ اس سوال کے بعد اس دن کا بیان ہے جس دن یہ آفت (قیامت) نازل ہوگی، اس سورہ میں جنت کی نعمتوں اور دوزخ کی تکلیفوں کا بیان بھی ہے، آخر میں انسانوں سے، اونٹ، آسمان، پہاڑ، زمین وغیرہ کے حوالے سے پوچھا جارہا ہے کہ کبھی تم نے ان کی تخلیق پر بھی غور کیا ہے؟ 
سورۂ الفجر میں بھی اسی طرح کے سوالات کا سلسلہ باقی رکھا گیا ہے، فجر کی، دس راتوں (عشرۂ ذی الحجہ) کی جفت رات (یوم النحر) کی، طاق رات (یوم عرفہ)، گزرنے والی رات (مراد ہر شب ہے یا بطورِ خاص شبِ مزدلفہ یا شبِ قدر) وغیرہ کی قسم کھاکر اہل عقل کیلئے غوروفکر کا موضوع رکھ دیا ہے، ساتھ ہی قوم ثمود کا بھی ذکر ہے اور قوم فرعون کا بھی۔ پھر قیامت کا بیان ہے اور روز جزا کا منظر کھینچا گیا ہے۔ یتیموں اور وراثت کا مال کھا جانے والوں اور مال و دولت سے حددرجہ محبت رکھنے والوں کیلئے سخت وعید ہے۔ 
سورۂ بلد میں شہر مکہ کی قسم کھا کر یہ بتلایا گیا ہے کہ بیشک ہم نے انسان کو مشقت میں (مبتلا رہنے والا) پیدا کیا ہے، کیا وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس پر ہرگز کوئی بھی قابو نہ پا سکے گا؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے سعادت اور شقاوت دونوں طرح کے راستے کھول دیئے ہیں، ان پر چلنے کا طریقہ بھی بتلا دیا ہے، اب یہ خود انسان پر موقوف ہے کہ وہ اپنے لئے کون سا راستہ اختیار کرتا ہے۔ 
(چونکہ تیسواں پارہ طویل ہے اس لئے 
سورہ الشمس تا الناس کا خلاصہ کل ملاحظہ کیجئے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK