Inquilab Logo

نیتن یاہو کے خلاف بغاوت

Updated: March 15, 2023, 10:20 AM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

اسرائیل اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی، آئینی اور معاشرتی بحران سے گزررہا ہے۔گزشتہ دس ہفتوں سے اسرائیل میں نیتن یاہو حکومت کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ پچھلے سنیچر کے دن اسرائیل کی ’’تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج‘‘ہوا جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ شہریوں نے حصہ لیا۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

آمر حکمرانوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ جس جمہوری نظام کے ذریعہ منتخب ہوکر راج سنگھاسن پر بیٹھتے ہیں، اقتدار حاصل کرنے کے بعد اسی کی بیخ کنی کرنے لگتے ہیں۔ وہ ملک کے آئینی اداروں، شہریوں کے حقوق اورآزادی اظہار رائے جیسی بنیادی جمہوری اقدار کوبے دردی سے پامال کرتے ہیں اور اپنے غیر جمہوری رویوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو کچلنے کے لئے ریاستی جبر کا استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔
 نومبر میں ہوئے انتخابات میں جب بنجامن نیتن یاہو کے قیادت والے الٹرا قوم پرست، شدت پسند صہیونی گٹھ جوڑ نے ۱۲۰؍اراکین والی پارلیمنٹ کی ۶۴؍سیٹیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کرلی اور وہ ایک بار پھر وزیر اعظم بن گئے تو ان کے اوپر مطلق العنانیت کا بھوت سوار ہوگیا۔ نئی حکومت نے اقتدارکو ہمیشہ کے لئے اپنی گرفت میں رکھنے کے لئے ایک ناپاک منصوبہ تیار کرلیا۔ اس وقت اسرائیل میں جوزبردست سیاسی انتشار نظر آرہا ہے وہ اسی منصوبے کے خلاف عوامی مزاحمت کا نتیجہ ہے۔
 اسرائیل اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی، آئینی اور معاشرتی بحران سے گزررہا ہے۔گزشتہ دس ہفتوں سے اسرائیل میں نیتن یاہو حکومت کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ پچھلے سنیچر کے دن اسرائیل کی ’’تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج‘‘ہوا جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ شہریوں نے حصہ لیا۔احتجاج کہنا شاید غلط ہوگا کیونکہ اس وقت اسرائیل میں جو کچھ ہورہا ہے اسے انقلاب کی دستک یا پھر نیتن یاہو حکومت کیخلاف بغاوت کہنا زیادہ درست ہے۔
  عوام سڑکوں پر اتر کر صر ف احتجاج نہیں کررہے ہیں وہ سڑکیں بند کررہے ہیں۔ مظاہرین کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ انہوں نے راجدھانی تل ابیب میں ائیر پورٹ جانے والی شاہراہ کو بلاک کرکے وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کی روم جانے والی فلائٹ لیٹ کروادی۔ ناراضگی صرف عوام تک محدود نہیں رہی ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فوج میں بھی بغاوت کے آثار نمایا ں ہورہے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ کے رزرو فائٹر پائلٹس نے پچھلے ہفتے احتجاجاً ڈیوٹی پر جانے سے اور تل ابیب کے پولیس سربراہ ایمی ایشید نے سیاسی آقاؤں کی حکم عدولی کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے سے انکار کردیا۔نیتن یاہو کے بیٹے نے پولیس پر مظاہرین کا ساتھ دینے کا الزام تک لگایا ہے۔
 احتجاج صرف تل ابیب اور حیفہ کے ہی نہیں واشنگٹن، نیو یارک، لندن اور پیرس کے یہودی بھی کررہے ہیں۔اسرائیل کے سائنسداں، صحافی، دانشور، اسٹوڈنٹس اورسابق سرکاری عہدیدار بھی بے حد ناراض ہیں۔ نیتن یاہو کے چہیتے صنعت کار بھی ان کے خلاف ہوگئے ہیں اور کئی بڑی کمپنیوں نے احتجاجاً کثیر سرمایہ ملک سے باہر منتقل کردیا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر نئی حکومت نے اپنے ابتدائی دنوں میں ہی ایساکیا کردیا جس سے پورے اسرائیل میں بھونچال آگیا۔
 نیتن یاہو نے عدالتی نظام میں اصلاحات کے نام پراقتدار کو دائمی بنانے کا ایک بڑا گیم پلان تیار کیاہے۔
  نئی حکومت نے اس منصوبے کا اعلان کیا تو پورے ملک میں شدید ردعمل ہوا۔ عوام سمجھ گئے کہ دراصل نیتن یاہو کا پلان یہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی سلب کرکے سپریم کورٹ کو حکومت کا تابع بنادیا جائے۔ نیتن یاہو کی گردن کرپشن کے دو مقدمات میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے عدالتی نظام تبدیل کر کے نیتن یاہو اپنی گردن بچانے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ اسرائیل میں تحریر شدہ آئین نہیں ہے اور حکومت کو اپنے اختیارات کے بیجا استعمال سے اگر کوئی ادارہ روک سکتا ہے تو وہ سپریم کورٹ ہی ہے۔ نیتن یاہو اس مجوزہ قانون کے ذریعہ عدالت عظمیٰ سے اس کا یہ اختیار چھین لینا چاہتے ہیں۔نہ صرف عوام بلکہ ملک کے دوسرے اہم ادارے بھی ان کی چال سمجھ گئے ہیں۔ صدر اسحاق ہرزوگ نے عوام کو سمجھا دیا ہے کہ عدالتی اصلاحات سے اسرائیل کی جمہوریت کامستقبل خطرے میں نظر آرہا ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ریاست کے اٹارنی جنرل نے مجوزہ پلان کی یہ کہہ کر مخالفت کی ہے کہ ان سے حکومت پر عائدقدغنی توازن ( چیک اینڈ بیلنس )کا خاتمہ ہوجائے گا۔
 اس بات کا بھی قومی امکان ہے کہ اسرائیل کی تاریخ کی سب سے زیادہ شدت پسند صہیونی حکومت بے لگام طاقت حاصل کرلے گی تو اسرائیل کی ۲۰؍فیصد فلسطینی آبادی کو دوسرے درجے کا شہری بنانے اور مغربی کنارے میں مقبوضہ فلسطینی سر زمین پربڑے پیمانے پر غیر قانونی بستیاں تعمیر کرنے کے اپنے منصوبوں پربلا تاخیر عمل درآمد کرنے لگے گی۔ اگر اس ظالم اور جابر حکومت کو ان انسانیت سوز جرائم کے ارتکاب سے کوئی روک سکتا ہے تو وہ اسرائیل کا سپریم کورٹ ہی ہے۔ اسی لئے نیتن یاہو اور ان کا شدت پسندٹولہ لامحدود اختیارات حاصل کرنے کی کوشش میں سپریم کورٹ کو محکوم بنانے اور ملک کے تمام جمہوری اقدار کو پیروں تلے روندنے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ عوامی احتجاج کو بدنام کرنے کے لئے مظاہرین کو’’ انارکسٹ‘‘ اور’’ملک دشمن ‘‘قراردیا جارہا ہے۔ نیتن یاہو نے ان مظاہروں کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہونے کا بھی الزام لگایا ہے۔سابق وزیر اعظم ایہود براک نے یہاں تک کہ دیا ہے کہ اگر کوئی حکومت جمہوریت کو اندر سے تباہ کرنے کی خاطر غیر قانونی طریقے اپناتی ہے تو شہریوں کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ حکومت کے قوانین کو نہ مانیں اور سول نافرمانی کی تحریک شروع کردیں۔ حکومت پوری طرح سے سپریم کورٹ سے تصادم کی تیاری کررہی ہے۔اگر حکومت عدالت عظمیٰ کے آرڈر کو ماننے سے انکار کرتی ہے توملک میں بہت بڑا آئینی بحران پیدا ہوجائے گا ۔معروف مورخ اور دانشوریووال نواہ ہراری نے تو اسرائیل ڈیفنس فورسز، موساد اور اسرائیلی پولیس سے اپیل کی ہے کہ تاناشاہوں کا حکم نہ مانیں اور تاریخ میں جمہوریت کے محافظ کے حیثیت سے اپنا نام درج کرائیں۔ 
پس نوشت: کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ ہندوستان جنت نشان میں بھی حکومت سپریم کورٹ کی آزادی سلب کرنے اور ججوں کی تقرری میں مداخلت کرنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے؟ ملک کے وزیر قانون مسلسل سپریم کورٹ پر حملے کرتے نظرآتے ہیں۔ اسرائیل اور وطن عزیز میں بہر حال ایک بڑا فرق ہے: اسرائیل میں عدالتی اصلاحات کی مخالفت میں پورا ملک سڑکوں پر نکل آیا ہے جبکہ اپنے ملک میں سپریم کورٹ کے خلاف حکومت کی محاذ آرائی سے کسی کوکوئی فرق نہیں پڑرہا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK