Inquilab Logo

معاشیانہ: عروج، پھر زوال،عالمی سطح پر اڈانی گروپ ’منفی‘ توجہ کا مرکز

Updated: February 07, 2023, 3:32 PM IST | Shahebaz khan | Mumbai

گزشتہ ۱۰؍ دنوں سے بین الاقوامی سطح پر اخبارات ، ویب سائٹس اور ٹی وی چینلوں پر منفی وجوہات کے سبب شہ سرخیوں میں رہنے والے اڈانی گروپ کی مختلف کمپنیوں کے شیئرز میں مسلسل گراوٹ ہورہی ہے

Prime Minister Narendra Modi and Adani Group Chairman Gautam Adani
وزیراعظم نریندر مودی اور اڈانی گروپ کے سربراہ گوتم اڈانی

گزشتہ ۱۰؍ دنوں سے بین الاقوامی سطح پر اخبارات ، ویب سائٹس اور ٹی وی چینلوں پر منفی وجوہات کے سبب شہ سرخیوں میں رہنے والے اڈانی گروپ کی مختلف کمپنیوں کے شیئرز میں مسلسل گراوٹ ہورہی ہے جس کا اثر اس کے مالک گوتم اڈانی کے اثاثوں کی مالیت پر واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ ۲۴؍ جنوری ۲۰۲۳ء تک ان کے اثاثوں کی مالیت ۱۱۹؍ بلین ڈالر تھی اور وہ دنیا کی امیر ترین شخصیات کی فہرست میں چوتھے نمبر پر تھے لیکن محض ۱۰؍ دنوں میں ان کے اثاثوں کی مالیت گھٹ کر ۵۹؍ بلین ڈالر ہوگئی، اور اب وہ ۲۱؍ ویں نمبر پر ہیں۔ اس طرح ایشیاء اور ہندوستان کے امیر ترین شخص کا تاج گوتم اڈانی سے محض چند دنوں میں چھن گیا۔ 
 ؍ ۲۵ جنوری ۲۰۲۳ء کو امریکی شارٹ سیلنگ فرم ہنڈن برگ نے ۱۰۰؍ صفحات کی ایک رپورٹ جاری کی جس میں اس نے بتایا کہ ہندوستانی بزنس مین گوتم اڈانی کی کمپنیوں میں کس طرح اسٹاک کی ہیرا پھیری ہورہی ہے اور اکاؤنٹنگ فراڈ کیا جارہا ہے۔ رپورٹ کے منظر عام پر آتے ہی اڈانی گروپ تنزلی کی جانب گامزن ہوگیا۔ 
 شارٹ سیلنگ کیا ہے؟
 بیشتر کامیاب تاجر ان اسٹاکس سے فائدہ اٹھاتے ہیں جن کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن کچھ اس کے برعکس کرتے ہیں یعنی — شارٹ سیلنگ۔ اس کے ذریعے کم قیمت والے اسٹاک سے منافع حاصل کیا جاتا ہے۔ شارٹ سیلنگ میں شیئرز اس امید کے ساتھ خرید کر فروخت کئے جاتےہیں کہ مستقبل میں ان کی قیمتیں گریں گی ۔ سرمایہ کار یہ سوچ کر انہیں فروخت کرتا ہے کہ مستقبل میں جب ان کی قیمتیں گریں گی تو انہیں دوبارہ خرید لے گا۔ مثال کے طور پر، ایک کمپنی کے فی شیئر کی قیمت ۲۰۰؍ روپے ہے۔ آپ نے اپنے بروکر سے ۱۰؍ شیئر خرید کر انہیں ۲؍ ہزار روپے میں فروخت کردیا۔ اگر اسٹاک کی قیمت کم ہوکر ۱۲۵؍ روپے ہوجائے گی تو سرمایہ کار ۱۰؍ شیئر خرید کر بروکر کو ۱۲۵۰؍ روپے میں دوبارہ فروخت کردے گا۔ ایسے میں اسے ۷۵۰؍ روپے کا فائدہ ہوگا لیکن اگر شیئر کی قیمت کم ہونے کے بجائے بڑھ کر ۲۵۰؍ روپے ہوگئی تو ایسے میں سرمایہ کار کو۵۰۰؍ روپے کا نقصان ہوگا۔
 ہنڈن برگ ایسی ہی ایک شارٹ سیلنگ فرم ہے جو کمپنیوں کے شیئرز، ایکویٹی، کریڈٹ اور ڈیریویٹوز کا تجزیہ کرتی ہے۔ یہ کارپوریٹ کمپنیوں کی جانب سے کی جانے والی ہیرا پھیری پر ریسرچ کرتی ہے اور عوامی سطح پر فراڈ کو ظاہر کرتی ہے۔ ہنڈن برگ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ اس کے پاس امریکی ٹریڈیڈ بانڈز اور غیر ہندوستانی ٹریڈیڈ ڈیریویٹوز کے ذریعے اڈانی گروپ کی کمپنیوں میں مختصر پوزیشنیں ہیں۔ 
 اس نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ اڈانی گروپ نے ٹیکس ہیون (ایسے ملک کو کہتے ہیں جہاں ٹیکس کم ہوتا ہے ۔ لوگ اپنے ممالک میں زیادہ ٹیکس ادا کرنے سے بچنے کیلئے وہاں رہنے یا اپنی کمپنیوں کو سرکاری طور پر رجسٹر کرنے کا انتخاب کرتے ہیں)کا غلط استعمال کیا ہے جبکہ اس گروپ کے قرض کی سطح نارمل سے زیادہ ہے۔ 
 ہنڈن برگ نے اپنی رپورٹ میں یہ نشاندہی بھی کی ہے کہ شیئر بازار میں لسٹڈ اڈانی کمپنیوں کے چیف فنانشل آفیسرز (سی ایف او) کو کئی مرتبہ تبدیل کیا گیا ہے اور گروپ نے آڈیٹنگ (کمپنی یا اس کے کھاتوںکا باضابطہ مالی معائنہ کرنا) کیلئے جن آڈیٹروں کی خدمات حاصل کی ہیں، وہ نسبتاً نامعلوم ہیں۔ واضح رہے کہ بڑی کمپنیاں نامور آڈیٹرس کی خدمات لیتی ہیں۔ گزشتہ ۸؍ سال میں اڈانی انٹرپرائزس میں ۵؍  سی  ایف او تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہ ایک الارم ہے جو کمپنی میں اکاؤنٹنگ فراڈ یا شدید مالی مسائل کی جانب اشارہ کرتا ہے۔رپورٹ کے مطابق شیئر مارکیٹ میں لسٹڈ اہم اڈانی کمپنیوں  نے ’’حد‘‘ سے زیادہ قرض لے لیا ہے اور اب قرضوں کو ادا کرنے میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
  علاوہ ازیں، گروپ کو قلیل مدتی قرضوں (جنہیں ایک سال میں ادا کرنا ہوتا ہے) کی وجہ سے لیکویڈیٹی (ایسے اثاثے جنہیں فروخت کرکے نقدی کا بندوبست کیا جاسکے)کے خطرات کا سامنا ہے۔اڈانی گروپ کی۷؍ اہم کمپنیوں میں سے ۵؍ کا کرنٹ ریشو (یہ اگر ایک (۱)سے کم ہو تو اس کا معنی ہے کمپنی کے پاس ایسے اثاثوں کی قلت ہے جنہیں نقدی کے بدلے فروخت کیا جاسکے، اگر ایک (۱) سے زیادہ ہو تو اس کا معنی ہے کمپنی قرض ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے) ایک (۱) سے کم ہے، جو کمپنی کی کمزور صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔یعنی اڈانی کی کمپنیوں پر قرض کا بوجھ اتنا ہے کہ ان کی مالی صورتحال ’غیر یقینی‘ ہوگئی ہے۔ ہنڈن برگ نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ اڈانی خاندان کے افراد مبینہ طور پر ماریشس، یو اے ای اور کیریبین جزائر جیسے ٹیکس ہیونز میں آف شور شیل ادارے (ایسی کمپنی جو ٹیکس ہیونز میں قائم کی جائے۔ اس کے ذریعے کسی دوسری کمپنی کا مالی لین دین سنبھالا جاتا ہے) چلاتے تھے، اور یہ کہ انہوں نے مبینہ طور پر جعلی درآمد اوربرآمدی دستاویزات تیار کیں تاکہ غیر قانونی طریقے سے جعلی کاروبار دکھایا جاسکے اور شیئر مارکیٹ میں لسٹڈ کمپنیوں سے پیسہ کمایا جا سکے۔ یہ آف شور کمپنیاں اڈانی کی لسٹڈ کمپنیوں کی شیئر خرید کر یہ تاثر دیتی تھیں کہ اڈانی ایک مشہور کمپنی ہے جس پر لوگوں کو اعتماد ہے اور شیئر مارکیٹ میں اس کے شیئرز میں اچھال ہے۔رپورٹ میں گوتم اڈانی کے بھائی راجیش اڈانی اور بہنوئی سمیر وورا کی بابت بتایا گیا ہے کہ انہوں نے ۲۰۰۵ء میں ہیروں کی درآمد اور برآمد کے سلسلے میں کئی آف شور کمپنیاں بنائی تھیں تاکہ ’’مصنوعی منافع‘‘ دکھایا جاسکے۔ علاوہ ازیں، گوتم اڈانی کے بڑے بھائی ونود اڈانی نے ’’آف شور کمپنیوں کا بھول بھلیاں قائم کیا ہے کہ کوئی شخص اصل راستے کی طرف نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ 
 ۱۰۰؍ صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ ہنڈن برگ نے ۲؍ سال میں تیار کی ہے جس میں اڈانی گروپ سے مالی معاملات کے ۸۸؍ سوالات پوچھے گئے ہیں۔
 اس رپورٹ کے جواب میں اڈانی گروپ نے ۴۱۳؍ صفحات کی ایک رپورٹ محض ۴؍ دنوں میں تیار کرلی جس میں ۸۸؍ سوالات میں سے کسی بھی سوال کا تشفی بخش جواب نہیں دیا گیا بلکہ اسے ہندوستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔
 ہنڈن برگ کی رپورٹ کی روشنی میں یہ واضح ہوا ہے کہ اڈانی گروپ کا جو کاروبار تیزی سے پھیل رہا ہے، وہ زیادہ تر قرضوں پر ہے جبکہ یہ گروپ ٹیکس میں ہیرا پھیری بھی کررہا ہے۔ اس معاملے پر ماہرین معاشیات کے ایک پینل نے سی این بی سی سے تبادلۂ خیال کیا جس کا نتیجہ کچھ یوں ہے: ’’ہنڈن برگ رپورٹ کا واضح اثر اڈانی گروپ کے شیئرز پر نظر آرہا ہے لیکن یہ طویل مدتی نہیں ہوگا کیونکہ ہندوستان کے کئی انفر اسٹرکچر پروجیکٹ اڈانی گروپ کے ذمہ ہیں، ایسے میں گروپ کو بینکوں اور مالی اداروں سے قرض ملنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تاہم، اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ان حالات میں سرمایہ کاروں کو اڈانی گروپ کے شیئر نہیں خریدنے چاہئیں۔ مستقبل میں مشکل میں پڑنے سے بہتر ہے کہ وہ ابھی اس مشکل سے دور رہیں۔‘‘
 اڈانی گروپ نے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ وہ ہنڈن برگ پر مقدمہ دائر کرے گا تو اس کا جواب ریسرچ کمپنی نے بڑی بے باکی سے دیا کہ ’’اگر اڈانی(گروپ) سنجیدہ ہے تو اسے امریکہ میں بھی ہمارے خلاف مقدمہ دائر کرنا چاہئے کیونکہ ہم یہاں کام کرتے ہیں۔ ہمارے پاس دستاویزات کی ایک لمبی فہرست ہے جن کا ہم قانونی کارروائی کے دوران استعمال کریں گے، اور گروپ سے ان دستاویزات کا مطالبہ بھی کریں گے۔‘‘
 ہندوستان سے ہزاروں کلومیٹر دور امریکہ میں واقع یہ کمپنی ٹھوس تحقیق کی بنیاد پر مضبوطی سے قائم ہے لیکن جس گروپ کے خلاف اس نے رپورٹ تیار کی ہے، وہ ہنڈن برگ کے سوالوں کے جواب دینے سے قاصر ہے۔ اس سے قبل امریکی ریسرچ کمپنی نے نکولا، ونس فائنانس، چائنا میٹل ریسورس یوٹیلائزیشن،  ایچ ایف فوڈز اور رائٹ بلاک چین جیسی دنیا کے مختلف ممالک میں موجود کمپنیوں کا بھی مالی معاملات میں ہیرا پھیری اور فراڈ کا پردہ فاش کیا ہے، اور اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی کمپنی ہنڈن برگ کی تحقیقات کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکی ہے۔ اس کمپنی کی ’’ریسرچ‘‘ میں استحکام کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر اڈانی گروپ اور شیئر مارکیٹ کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ کافی تشویشناک ہے کیونکہ ہندوستان میں اڈانی ایک گھریلو برانڈ بن چکا ہے۔ بجلی، گیس، عمارتوں کی تعمیر اور خوردنی تیل (کوہ نور برانڈ) وغیرہ جیسی اشیائے ضروریہ آج ملک کے ہر شہری سے کسی نہ کسی طرح جڑی ہوئی ہیں۔یہ برانڈ اسپورٹس کے میدان میں بھی سرمایہ کاری کررہا ہے۔ گزشتہ ۱۰؍ برسوں میں اڈانی گروپ نے جو ترقی دیکھی ہے، وہ ملک کے شاید ہی کسی برانڈ نے دیکھی ہو۔
 اڈانی گروپ پر کم و بیش ۳۰؍ ارب ڈالر (تقریباً ۳؍ کھرب روپے) کا قرض ہے۔ اکنامک ٹائمس کی ایک رپورٹ کے مطابق اڈانی گروپ نے ہندوستانی بینکوں اور مالیاتی اداروں سے ۹؍ ارب ڈالر کا قرض لیا ہے جبکہ بقیہ قرض دنیا کے دیگر بینکوں اور مالی اداروں سے لئے گئے ہیں لیکن قومی بینکوں اور اداروں کا کہنا ہے کہ اڈانی گروپ کے مجموعی قرض میں ان کا اشتراک چند فیصد ہی ہے۔ کسی ناگہانی کی صورت میں اس سیکٹر پر ’’زیادہ‘‘ اثر نہیں پڑے گا۔ ہمارے مرکزی بینک ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے جب ملکی بینکوں سے اڈانی کو دیئے جانے والے قرض کے معاملے میں رپورٹ طلب کی تو واضح ہوا کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے اس گروپ کو ۲۱؍ ہزار کروڑ روپے جبکہ پنجاب نیشنل بینک نے ۷؍ ہزار کروڑ روپے کا قرض دیا ہے۔ اس میں انڈس انڈ بینک اور دیگر مالیاتی ادارے بھی شامل ہیں۔ تاہم، غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر قومی بینکوں نے اڈانی گروپ کو نیا قرض نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
 ملک کے ۲؍ اہم ادارے آر بی آئی اور سیبی، جو شیئر مارکیٹ پر لسٹڈ کمپنیوں پر نظر رکھتے ہیں، نے اڈانی معاملے پر اب تک کوئی بیان نہیں دیا ہے البتہ منی کنٹرول کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ سیبی اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے۔اس معاملے میں ہندوستانی حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ دنیا کی امیر ترین شخصیات کی فہرست میں ملک کی نمائندگی کرنے والے گوتم اڈانی اور ان کی کمپنیوں پر اگر کوئی غیر ملکی کمپنی سنگین الزامات عائد کرے تو یہ کس حد تک درست ہے کہ حکومت اس پر خاموش رہے؟ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ این ڈی اے کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی اڈانی گروپ ابھرا اور اسی حکومت میں گوتم اڈانی کا کاروبار تیزی سے پھیلا۔ 
 قومی بینکوں نےیقین دہانی کروائی ہے کہ اڈانی گروپ کی جانب سے انہیں کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندوستان کے بینکنگ شعبے کو ماضی میں متعدد مالی فراڈ کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں وجے مالیا فراڈ کیس (۱۰؍ہزار کروڑ روپے)، پنجاب نیشنل بینک اسکیم (۱۱؍ ہزار ۴۰۰؍ کرو ڑوپے)، ون سم ڈائمنڈس بینک فراڈ (۹۷؍ ہزار کروڑ روپے)، کنشک گولڈ بینک فراڈ (۸۲۴؍ کروڑ روپے)، آندھرا بینک فراڈ (۸۱۰۰؍ کروڑ روپے)، روٹومیک پین اسکیم (۲۹۱۹؍ کروڑ روپے)، اور ویڈیوکون فراڈ کیس (۳؍ ہزار ۲۵۰؍ کروڑ روپے) کے نام قابل ذکر ہیں۔ بڑے پیمانے پر اور کھربوں ڈالر کے گھوٹالوں کے بعد بھی ہمارا بینکنگ شعبہ مضبوطی سے کھڑا ہے۔ ماضی میں ہوئے ان فراڈ کے پیش نظر کیا ہمارے اقتصادی ماہرین اور بینکوں کو پورے فنانشیل نیٹ ورک میں کوئی خامی نظر نہیں آتی؟ اگر خامیاں ہیں تو ان کا سد باب کیوں نہیں کیا جاتا؟ ہمارے مالی نظام میں یقیناً خامیاں ہیں  ورنہ یہ گھوٹالے نہیں ہوپاتے۔ 
 ہنڈن برگ بمقابلہ اڈانی گروپ کب تک جاری رہے گا، اس کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگالیکن اس رپورٹ نے شیئر مارکیٹ کو زبردست نقصان پہنچایا ہے اور عالمی سطح پر ہندوستان کی ساکھ متاثر کی ہے۔ ہر شخص یہ جاننا چاہتا ہے کہ حکومت ہند، آر بی آئی، سیبی اور اڈانی گروپ عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے  کیا کریں گے؟رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ہی ان اداروں کو اس ضمن میں بیان ضرور دینا چاہئے کیونکہ اس کی سچائی جاننے کا حق ہر ہندوستانی کو ہے۔ قومی بینکوں نے اڈانی گروپ کو جو خطیر رقم قرض کی شکل میں دی ہے، وہ رقم کس کی ہے؟اگر لسٹڈ کمپنیاں ’’پبلک ڈومین‘‘ (عوامی حلقہ) میں ہوتی ہیں تو ان کی حقیقت بھی پبلک ڈومین میں ہونی چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK