Inquilab Logo

ملک کی ترجیحات میں شایداسکولی تعلیم نہیں رہ گئی ہے

Updated: November 05, 2023, 3:00 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ جس ملک میں اعلیٰ تعلیم کیلئے آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم جیسےسرکاری اداروں میں داخلے کی ہوڑ مچی ہو، اسی ملک کے ’ سرکاری پرائمری اسکولوں‘ میں داخلے نہ ہونے سے اسکول بند ہورہے ہیں؟ کہیں یہ اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی کوئی کوشش تو نہیں کہ تعلیم پر صرف ایک مخصوص طبقے کا حق ہے؟

An ancient Urdu school in Bhiwandi is suffering from the indifference of the government administration. Photo: INN
سرکاری انتظامیہ کی بے حسی کا شکار بھیونڈی کا ایک قدیم اُردو اسکول ۔ تصویر:آئی این این

باندرہ کا شمار ممبئی کے مہنگے ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ جنوری ۲۰۱۱ء میں وہاں کے ایک اسکول پر بلڈر لابی کی نظرجم گئی تھی۔ وہ جگہ بہت قیمتی تھی۔قیاس آرائیاں زوروں پر تھیں کہ اس اسکول کو ’کہیں اور‘ شفٹ کرکے وہاں پر شاپنگ مال کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ اُس وقت اس اسکول میں ۳؍ ہزار سےزائد طلبہ زیر تعلیم تھے۔ اس خدشے کو وقت رہتے طلبہ کے والدین، ان کے سرپرستوں اور مقامی سماجی کارکنوں نے بھانپ لیا اور سڑکوں پر اُتر آئے۔ ان کا احتجاج اور مظاہرہ رنگ لایا۔ حکومت نے یقین دہانی کرائی کہ اسکول کوبند نہیں ہونے دیا جائے گا۔
 لیکن اس طرح کی خوش بختی سب کے حصے میں نہیں آتی ۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح کی بیداری ملک کے دوسرے حصوں میں نہیں پائی جاتی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ملک بھر میں اوسطاً ۳۲؍ اسکول روزانہ بند ہورہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۴ء سے ۲۰۲۲ء کے درمیان ملک بھر میں ۹۳؍ ہزار ۶۹۳؍ اسکول بند ہوچکے ہیں ۔ کوششیں تو اس سے زیادہ کی ہوئی ہوں گی لیکن مخالفت اورمزاحمت کی وجہ سے کچھ اسکول بند ہونے سے بچ گئے ہوں گے۔ دلچسپ بات ہے کہ ملک کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، تعلیم کی شرح بھی بتدریج بڑھ رہی ہے لیکن اسکولوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ ۲۰۱۴ء میں ملک کی آبادی ۱۳۰؍ کروڑ ۷۲؍ لاکھ تھی جبکہ ۲۰۲۳ء میں ۱۴۲؍ کروڑ ۸۶؍ لاکھ تک پہنچ گئی لیکن اس دوران اسکولوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۴ء میں ملک بھر میں ۱۲؍ لاکھ ۸۹؍ ہزار ۹۵۸؍ پرائمری اسکول چل رہے تھے جبکہ ۲۰۲۲ء آتے آتے ۱۱؍ لاکھ ۹۶؍ ہزار ۲۶۵؍ اسکول ہی باقی رہ گئے۔ 
 اسی حوالے سے گزشتہ دنوں مہاراشٹر سے ایک بری خبر آئی ہے۔ ریاستی ایجوکیشن کمشنر نے ایک سرکیولر جاری کرکے سبھی علاقائی ڈپٹی ڈائریکٹرس آف ایجوکیشن اورضلع ایجوکیشن افسران کو ایسے اسکولوں کی فہرست تیار کرنے کا حکم دیا ہے جہاں طلبہ کی تعداد کم ہے تاکہ ان اسکولوں کو بند کیا جاسکے۔ اطلاعات کے مطابق اس سرکاری حکم نامے کی وجہ سے ایک ساتھ ۱۴؍ہزار ۷۸۳؍اسکولوں پر بند ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ان اسکولوں کے بند ہونے کی وجہ طلبہ کی تعداد میں کمی بتائی جارہی ہے لیکن ممبئی سےمتصل بھیونڈی میں ایسے کئی اسکولوں کو بند کردیا گیا ہے جہاں طلبہ کی تعداد خاطرخواہ ہے۔ان اسکولوں کے بند ہونے کی وجہ ان عمارتوں کا مخدوش ہونا بتایا گیا ہے... کیا واقعی یہی وجہ ہے؟ یا اس کے پس پشت کوئی ا ور بات ہے؟ یہ بات کسی بھی طرح سے ہضم نہیں ہوپارہی ہے کہ جس بھیونڈی میونسپل کارپوریشن کا سالانہ بجٹ تقریباً ۹۰۰؍ کروڑ روپے کا ہو، وہ محض ۴۰۔۳۵؍ لاکھ روپے خرچ کرکے ’مخدوش عمارتوں ‘کی مرمت کے بجائے اسکول ہی بند کردینے پر آمادہ ہو۔ اسی بھیونڈی میں ایک اسکول کو محض اسلئے بند کردیا گیا کہ انسانی حقوق کمیشن نے از خود نوٹس لیتے ہوئے اسکول میں پینے کا پانی فراہم کرنے اور بیت الخلاء کا انتظام کرنے کی بات کہی تھی۔ میونسپل انتظامیہ کو بنیادی سہولیات کی فراہمی سے زیادہ مناسب یہ لگا کہ اسکول ہی بند کردیا جائے۔ 
 حیرت اس بات پر تو ہے کہ کارپوریشن نے اسکول بند کردیا مگر اس سے کہیں زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسکول بند کردینے کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں ہوئی، کوئی احتجاج اور کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔ کارپوریشن میں عوامی نمائندگی کا دم بھرنے والے کارپوریٹروں کی جانب سے بھی ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ، جسے یہاں دہرایا جاسکے۔ میئر بنانے اور ہٹانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے بھیونڈی کے ’ٹاپ کارپوریٹروں‘کی آنکھوں کے سامنے یکے بعد دیگرے اسکولوں پر تالے لگائے جاتے رہے اور وہ سب منہ میں دہی جمائے بیٹھے رہے۔ اپنے اپنے مفادات کی حفاظت کیلئے ’عوامی مفاد‘ کا بہانہ بناکر مظاہرہ کرنے والی سیاسی جماعتوں نے بھی خاموشی ہی میں عافیت محسوس کی ہے۔ عوام بے چارے کیا کریں ، دو روٹی کے انتظام میں انہیں اس قدر الجھا دیاگیا ہے کہ بچوں کی تعلیم ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہ گئی ہے۔ اور یہ ستم ظریفی ہی ہے کہ میونسپل اسکولوں میں انہی کے بچوں کی اکثریت ہے، جن کے اسکول جانے ، نہ جانے سے کسی کو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ ان عام لوگوں میں موجود کچھ ’خاص‘ لوگ بھی ہوتے ہیں جو مختلف مسئلوں پر سرگرم رہتے ہیں ، اسکول، کارپوریشن اور پولیس اسٹیشنوں کا چکر بھی لگاتے ہیں لیکن ان میں سے اکثریت کا رجحان منفی ہوتا ہے۔ اس قبیل کے لوگ سرکاری اسکولوں میں جاری بدعنوانیوں پر سرگرمی دکھانے کے بجائے ٹرسٹ اور سوسائٹی کے تحت جاری اداروں پر’دینیات‘ اور ’کمپیوٹر‘ فیس پر اعتراض کرتے ہوئے معاملات کو پولیس اسٹیشنوں تک پہنچانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔
ہندوستان کے اسکولی نظام کا شماردنیا کے چند بہترین تعلیمی نظام میں ہوتا رہا ہے اور ہندوستان بجا طور پر دنیا کا سب سے بڑا ’اسکولنگ سسٹم‘ ہونے پر فخر کااظہار بھی کرتا رہا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ حالیہ کچھ برسوں میں سب سے بڑا جھٹکا اسی ’اسکولنگ سسٹم‘ پر لگا ہے۔ یہاں ۹۷؍ لاکھ سے زیادہ اساتذہ اور ۲۶؍ کروڑ سے زیادہ طلبہ ہیں ۔ پریس انفارمیشن بیورو کی رپورٹ کے مطابق ۲۲۔۲۰۲۱ء اور ۲۳۔۲۰۲۲ء کے درمیان پرائمری سطح پر طلبہ کی تعداد میں ایک کروڑ ۱۰؍ لاکھ کی کمی آئی ہے.. اور طلبہ کی یہی کمی، اسکولوں کے بند کرنے کی وجہ بنتی جارہی ہے۔ 
 کیا واقعی طلبہ کی تعداد میں کمی آرہی ہے؟ نہیں ۔ قطعی نہیں ۔ ملک میں آبادی کے اضافے کے ساتھ ہی تعلیم کی شرح بھی بڑھ رہی ہے، ایسے میں اس بات پر کیوں کراعتبار کیا جاسکتا ہے کہ پرائمری سطح پر طلبہ کی تعداد میں کمی آرہی ہے؟ دراصل یہ ایک گہری سرکاری سازش ہے جو عوام کی بے حسی سے پروان چڑھ رہی ہے۔حکومت پرائمری ایجوکیشن سے رفتہ رفتہ اپنا ہاتھ کھینچ رہی ہےتاکہ پرائیویٹ اسکول چلانےوالے کارپوریٹ گھرانے مستحکم ہوسکیں ۔ حکومت کو اس سے ۲؍ فائدے ہیں۔ اول یہ کہ ایسا کرنے سے اس کا بجٹ کم ہورہا ہے ۔ دوم یہ کہ پرائمری اسکول کی وہ زمینیں بہت قیمتی ہیں جن سے حکومت فائدہ اٹھاسکتی ہے، ان پر شاپنگ مال بناسکتی ہے، کارپوریٹ گھرانوں کو بیچ سکتی ہے یا کوئی سیاست داں اس پر اعلیٰ تعلیمی ادارہ کھول کر اپنی کمائی کا ایک مضبوط ذریعہ بنا سکتا ہے۔ پرائمری سطح پر طلبہ کی تعداد کم اسلئے نظر آرہی ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنے والے ان طلبہ کااس میں اندراج نہیں ہوپاتا جن کا رجسٹریشن نہیں ہے۔ ایسے طلبہ کی آگے کی تعلیم کیلئے کوئی خطرہ بھی نہیں ہے کیونکہ ۸؍ویں جماعت تک طلبہ کیلئے فیل پاس کی اب کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ عمر کی بنیاد پر اِن طلبہ کا آگے کی جماعتوں میں داخلہ آسانی سے ہوجاتا ہے۔ سرکاری سازش کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۰۔۲۰۱۹ء میں اسکولی تعلیم کا بجٹ ۵۶؍ ہزار ۳۸۶؍کروڑ روپے تھا جبکہ ۲۲۔۲۰۲۱ء میں یہ کم ہوکر ۳۱؍ ہزار ۵۰؍ کروڑ روپے ہو گیا۔
 کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ جس ملک میں اعلیٰ تعلیم کیلئے آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم جیسے’سرکاری اداروں ‘ میں داخلے کی ہوڑ مچی ہو، اسی ملک کے ’سرکاری پرائمری اسکولوں‘ میں داخلے نہ ہونے کی وجہ سے اسکول بند ہورہے ہیں ؟ دراصل یہ اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی سمت ایک کوشش ہے کہ تعلیم پر صرف ایک مخصوص طبقے کا حق ہے، اسلئے رفتہ رفتہ سرکاری اسکولوں پر تالے لگ رہے ہیں اور کارپوریٹ اسکولوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ یہ بات جب تک ہماری سمجھ میں آئے گی، تب تک شاید بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK