Inquilab Logo

شعبان کی ۱۵؍ویں شب کی افضیلت بے اصل نہیں، البتہ بدعات سے بچنا چاہئے

Updated: February 23, 2024, 12:56 PM IST | Mufti Asjadullah Qasmi | Mumbai

شبِ برأت کے حوالے سے دو طرح كے نظریات پائے جاتے هيں۔ ایک نظريه اُن لوگوں كا ہے جو اسے مكمل بدعت قرارديتے ہیں اور اس سے متعلقہ روایت کردہ تمام احادیثِ مبارکہ کو ضعیف یا موضوع سمجھتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ ہیں جنہوں نے اغیار کی نقالی کرتے ہوئے بہت ساری رسومات و بدعات کو بھی اِس رات كي عبادت کا ایک حصہ بنا لیا ہے۔

It is mustahab to stay up in this night, frequently reciting the Qur`an, dhikr, worship and supplication. Photo: INN
اس رات میں قیام کرنا، کثرت سے تلاوتِ قرآن، ذکر، عبادت اور دعا کرنا مستحب ہے۔ تصویر : آئی این این

شب برأت کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین (حضرت ابوبکرصدیق، حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عائشہ صدیقہ حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوہریرہ، حضرت عوف بن مالک، حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت ابو ثعلبہ الخشنی، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص اور حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنهم اجمعين) سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی۔ ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تائید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اس کی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیساکہ ذكر کیا گیا کہ دس صحابہ کرامؓ سے اس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل نہیں کہا جاسکتا۔ 
شبِ برأت کے حوالے سے دو طرح كے نظریات پائے جاتے هيں۔ ایک نظريه اُن لوگوں كا ہے جو اسے مكمل بدعت قرارديتے ہیں اور اس سے متعلقہ روایت کردہ تمام احادیثِ مبارکہ کو ضعیف یا موضوع سمجھتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ ہیں جنہوں نے اغیار کی نقالی کرتے ہوئے بہت ساری رسومات و بدعات کو بھی اِس رات كي عبادت کا ایک حصہ بنا لیا ہے۔ علامہ البانی نے ماہِ شعبان اور شبِ برأت کے حوالے سے تقریباً ایک سو پینتیس (۱۳۵) صحیح، حسن، ضعیف اور موضوع روایات کو مختلف کتبِ احادیث میں بیان کیا ہے۔ بعض دوسرے علماء نے بھی کتب تفسیر وغیرہ میں کچھ روایات کا تذکرہ کیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: بارگاہِ الٰہی میں مناجات، طلب ِ مغفرت اور دعاؤں کی قبولیت کے لمحات کو ضائع نہ کریں

 شب ِ برأت میں عبادت 
 امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے، لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔ 
شب ِ برأت میں قبرستان جانا
 اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شبِ برأت میں قبرستان جائیں، لیکن شيخ الاسلام حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے ایک بڑی کام کی بات بیان فرمائي هے جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، فرماتےهيں کہ جو چیز رسول کریم ﷺ سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسولؐ کریم سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے، کہ آپ شبِ برأت میں جنت البقیع تشریف لے گئے، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے، لیکن ہر شب برأت میں جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا، اس کو ضروری سمجھنا، اس کو شبِ برأت کے ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شب برأت کا لازمی حصہ سمجھنا، یہ اس کو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نماز پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں، ذکر کریں، تسبیح پڑھیں، دعائیں کریں، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں ہے۔ 
شعبان میں نفل روزے
  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزے (کبھی) مسلسل رکھنے شروع کرتے یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ اب ناغہ نہیں کریں گے اور (کبھی) بغیر روزے کے مسلسل دن گزارتے؛ یہاں تک کہ ہمیں خیال ہونے لگتا ہے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا روزہ ہی رہیں گے۔ نیز فرماتی ہیں کہ: میں نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا پورا روزہ رکھتے نہیں دیکھا، اسی طرح کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (مشکوٰة: ۱۷۸) بعض روایتوں میں ہے کہ شعبان کے مہینہ میں بہت کم ناغہ فرماتے، تقریباً پورے مہینے روزے رکھتے تھے۔ (الترغیب والترہیب:۲/۱۱۷)۔ شعبان کے مہینے میں آپؐ کے کثرت سے روزے رکھنے کی علماء نے کئی حکمتیں بیان کی ہیں :
  ۱- چونکہ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کے دربار میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے؛ اس لیے سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال کی پیشی ہوتو میں روزے کی حالت میں رہوں، یہ بات حضرت اسامہ بن زید رضي الله عنه کی روایت میں موجود ہے۔ (نسائي)
 ۲- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ: پورے سال میں مرنے والوں کی فہرست اسی مہینے میں ملک الموت کے حوالے کی جاتی ہے؛ اس لئے آپ ﷺ فرماتے تھے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ جب موت کا فرشتہ سامنے آجائے تواس وقت میں روزے سے رہوں۔ (معارف الحدیث)
  ۳- رمضان المبارک کے قریب ہونے اور اس کے خاص انوار وبرکات سے مناسبت پیدا کرنے کے شوق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینہ میں روزے کا اہتمام کثرت سے فرماتے تھے، جس طرح فرض نمازوں سے پہلے سنتیں پڑھتے تھے، اسی طرح فرض روزے سے پہلے نفلی روزے رکھا کرتے تھے اور جس طرح فرض کے بعد سنتیں اور نفلیں پڑھتے تھے؛ اسی طرح رمضان کے بعد شوال میں چھ روزے رکھتے اوراس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔ 
 شب ِ برأت پر کثیر تعداد میں مروی احادیث، تعاملِ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ سلف، فقہاء صرف اس لئے نہیں ہیں کہ کوئی بھی بندہ فقط ان کا مطالعہ کر کے یا بنا مطالعہ کے ہی انہیں قصے، کہانیاں سمجھتے ہوئے ان سے صرفِ نظر کرے بلکہ ان کے بیان سے مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے مولا خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے ٹوٹے ہوئے تعلق کو پھر سے اُستوار کرے جو کہ اس رات اور اس جیسی دیگر روحانی راتوں میں عبادت سے باسہولت میسر آ سکتا ہے۔ 
 ان بابرکت راتوں میں رحمتِ الٰہی اپنے پورے آب و تاب كےساتھ بندوں پرسايه فگن ہوتی ہے اور اپنے گناہ گار بندوں کی بخشش و مغفرت کے لئے بے قرار ہوتی ہے، لہٰذا اس رات میں قیام کرنا، کثرت سے تلاوتِ قرآن، ذکر، عبادت اور دعا کرنا مستحب ہے اور یہ اَعمال احادیث ِ مبارکہ اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہیں اس لئے ان اعمال کی انجام دہی ازحد لازم ہے، یہ عین سعادت ہے، اس رات کی عبادات کے ذریعہ اللہ کا فضل و کرم میسر آسکتا ہے جو اپنے بندوں کو نوازنے کے حیلے بہانے تلاش کرتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ فکر کریں، اپنے معمولا ت کو بدلیں اور اپنے اہل خانہ کو متوجہ کریں۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے، آمین، ثم آمین۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK