ارشاد نبویؐ کے مطابق یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل اور سست ہیں۔ رجب اور رمضان المبارک کے درمیان شعبان وہ مہینہ ہے جس میں اَعمال رب العالمین کے حضور پیش کئے جاتے ہیں
EPAPER
Updated: March 19, 2021, 12:23 PM IST
|
Hafiz Zaheer Ahmed Al Sanadi
ارشاد نبویؐ کے مطابق یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل اور سست ہیں۔ رجب اور رمضان المبارک کے درمیان شعبان وہ مہینہ ہے جس میں اَعمال رب العالمین کے حضور پیش کئے جاتے ہیں اللہ رب العزت کی رحمت و بخشش کے دروازے یوں تو ہر وقت ہر کسی کے لئے کھلے رہتے ہیں۔ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰه (اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو) کی فضائوں میں رحمت الٰہی کا دریا ہمہ وقت موجزن رہتا ہے۔ اس کی رحمت کا سائبان ہر وقت اپنے بندوں پر سایہ فگن رہتا ہے اور مخلوق کو اپنے سایہ عاطفت میں لئے رکھنا اسی ہستی کی شانِ کریمانہ ہے۔ اس غفار، رحمٰن و رحیم پروردگار نے اپنی اس ناتواں مخلوق پر مزید کرم فرمانے اور اپنے گناہ گار بندوں کی لغزشوں اور خطائوں کی بخشش و مغفرت اور مقربین بارگاہ کو اپنے انعامات سے مزید نوازنے کے لئے بعض نسبتوں کی وجہ سے کچھ ساعتوں کو خصوصی برکت و فضیلت عطا فرمائی جن میں اس کی رحمت و مغفرت اور عطائوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے اور جنہیں وہ خاص قبولیت کے شرف سے نوازتا ہے۔
ان خاص لمحوں، خاص ایام اور خاص مہینوں میں جن کو یہ فضیلت حاصل ہے ربّ کائنات کی رحمت کی برسات معمول سے بڑھ جاتی ہے۔ ان خصوصی ساعتوں میں ماهِ شعبان کو خاص اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سال کے مہینوں میں سے چار مہینے رجب، شعبان، رمضان اور محرم عظمت والے فرمائے۔ ان میں سے شعبان کو چن لیا اور اسے رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہینہ قرار دیا۔ لهٰذا شعبان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں تمام بھلائیوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ آسمان سے برکتیں اُتاری جاتی ہیں، گناہ گار بخشش پاتے ہیں اور برائیاں مٹادی جاتی ہیں۔ اسی لئے شعبان کو ’اَلْمُکَفِّر‘ یعنی گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بننے والا مہینہ کہا جاتا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’شعبان کو شعبان اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں احترام رمضان کی وجہ سے بہت سی نیکیاں پھیلتی ہیں اور رمضان کو رمضان اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں بہت سے گناہ جلا دیئے جاتے ہیں۔‘‘
شعبان کے الفاظ میں پوشیدہ حکمت
شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ’غنیۃ الطالبین‘ میں بیان فرماتے ہیں: لفظ شعبان پانچ حرفوں کا مجموعہ ہے: {ش، ع، ب، الف اور ن} ’شین‘ شرف سے، ’عین‘ علو، عظمت (بلندی) سے، ’باء‘ بِر (نیکی اور تقویٰ) سے، ’الف‘ اُلفت (اور محبت) سے اور ’نون‘ نور سے ماخوذ ہے۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو یہ چار چیزیں عطا ہوتی ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں نیکیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور برکات کا نزول ہوتا ہے، گناہ گار چھوڑ دیئے جاتے ہیں اور برائیاں مٹا دی جاتی ہیں اور مخلوق میں سب سے افضل اور بہترین ہستی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں کثرت سے ہدیہ درود و سلام بھیجا جاتا ہے۔‘‘
آیت درود و سلام کا شانِ نزول
امام قسطلانی نے ’المواہب اللدنیہ‘ میں ایک لطیف بات کہی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’بے شک شعبان رسولؐ اﷲ پر درود و سلام بھیجنے کا مہینہ بھی ہے، اس لئے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں درود و سلام کی آیت (’’بیشک اللہ اور ا س کے فرشتے نبی ؐ پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘ الاحزاب:۵۶) نازل ہوئی۔‘‘ (قسطلانی، المواهب اللدنية،۲/ ۶۵۰)
یہ آیت ماهِ شعبان میں نازل ہوئی تو شعبان کا تعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درود و سلام کے ساتھ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بخشش و مغفرت اور توبہ کے ساتھ بھی ہے لهٰذا اس ماہ اور شب برأت کی عبادت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے بھی قربت نصیب ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی قرب نصیب ہوتا ہے۔
ماهِ شعبان میں آپ ﷺ کا معمول
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کو اپنا مہینہ قرار دیا اور اس ماہ کی حرمت و تعظیم کو اپنی حرمت و تعظیم قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ماہ میں کثرت سے روزے رکھتے اور دیگر اَعمال صالحہ بجالاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ماهِ رمضان اﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے، اور ماهِ شعبان میرا مہینہ ہے، شعبان (گناہوں سے) پاک کرنے والا ہے اور رمضان (گناہوں کو) ختم کر دینے والا مہینہ ہے۔‘‘
( کنزالعمال)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ماهِ رجب کی آمد پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں فرمایا کرتے: ’’اے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان میں برکتیں نازل فرما اور رمضان ہمیں نصیب فرما۔‘‘ (طبرانی، المعجم الاوسط)
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ماهِ شعبان میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت سے روزے رکھتے:
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام مہینوں میں سے شعبان کے روزے رکھنا زیادہ محبوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان (کے روزوں) کو رمضان المبارک کے ساتھ ملا دیا کرتے تھے۔‘‘(احمد بن حنبل، المسند)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے افضل روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’شعبان کے روزے رمضان کی تعظیم و قدر کیلئے ہیں۔‘‘ (بيهقی، السنن الکبریٰ)
اَعمال کا بارگاهِ الٰہی میں پیش کیا جانا
ماهِ شعبان کی اہمیت و فضیلت کا اس امر سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مہینے میں بندوں کے اَعمال اﷲتعالیٰ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں۔
حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! میں آپؐ کو سب مہینوں سے زیادہ شعبان المعظم کے مہینے میں روزے رکھتے دیکھتا ہوں۔ (اس کی کیا وجہ ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل اور سست ہیں۔ رجب اور رمضان المبارک کے درمیان یہ وہ مہینہ ہے جس میں اَعمال رب العالمین کے حضور پیش کئے جاتے ہیں۔ لهٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں پیش کئے جائیں کہ میں روزہ سے ہوں۔‘‘
(نسائی، السنن، کتاب الصيام)
اس حدیث مبارکہ میں خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ماہ کی فضیلت کا ایک راز یہ بتا دیا کہ شعبان میں ہمارے اَعمال اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں۔ جو شخص اس مہینے میں جتنے زیادہ اعمال صالحہ بجا لاتا ہے، زیادہ عبادات کرتا ہے، روزے رکھتا ہے، صدقات و خیرات کرتا ہے، اسے اتنی ہی اﷲ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت نصیب ہوتی ہے اور اسی قدر بارگاهِ الٰہی سے قرب اور مقبولیت نصیب ہوتی ہے۔
ماهِ شعبان میں شب ِ برأت کا پایا جانا
سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان تو ایسا مہینہ تھا جس کے روزے فرض تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورا کا پورا مہینہ روزے رکھتے لیکن بقیہ گیارہ مہینوں میں سب سے زیادہ روزوں کا اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان میں فرماتے تھے۔ آخر کار کوئی سبب اور وجہ تو ہوگی اور کوئی تو خیر اور برکت کا پہلو ایسا ہوگا جو ماهِ شعبان کو ایسی فضیلت و بزرگی عطا کی گئی؟
اس مہینے کی فضیلت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسی ماهِ مبارک میں وہ مبارک رات بھی آتی ہے جسے ’’شب برأت‘‘ سے موسوم کیا جاتاہے۔ امام بیہقی ’شعب الایمان‘ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے کہا: (یا رسولؐ اللہ) یہ رات، پندرھویں شعبان کی رات ہے اور اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتا ہے۔‘‘