Inquilab Logo

جنگ شروع کرنا آسان ہے لیکن

Updated: March 01, 2023, 10:23 AM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

یوکرین جنگ نہ صرف متحاربین کیلئے بلکہ دنیا بھر کیلئےعذاب بن گئی ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے تیل اور گیس کی قیمتوں میں ہر جگہ اضافہ ہوا ہے،مہنگائی ہر جگہ بڑھی ہے، خوراک کی فراہمی متاثر ہوئی ہے، عالمی امور کی خستہ حالی بھی نمایاں ہوئی ہے۔

The Ukraine War
یوکرین جنگ

 ؍۲۴فروری کو یوکرین جنگ کا ایک سال مکمل ہوگیا اور مستقبل قریب میں بھی اس کے تھمنے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یورپ میں اتنی بڑی جنگ پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ شروع کرنا آسان ہے لیکن اسے ختم کرنا بے حد مشکل۔اکیسویں صدی کے اوائل میں امریکہ نے افغانستان اور عراق پر چڑھائی کرنے میں تو ذرا سی تاخیر نہیں کی تھی لیکن دونوں جنگیں ایسی دلدلیں ثابت ہوئیں جن سے باہر نکلنے میں عالمی سپر پاورکے چھکے چھوٹ گئے۔
 ولادیمیر پوتن کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ سار ا یورپ یوں متحد ہوکر یوکرین کا ساتھ دے گا اور امریکہ جس نے پرائی جنگوں سے دامن بچانے کا اعلان کردیا تھا،اتنے بڑے پیمانے پر یوکرین کی مالی اور فوجی امداد کرے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پوتن کو بھی آخر کار وہ سبق مل گیا جو ماضی میں بے شمار عالمی لیڈروں کو حاصل ہوچکا تھا: جنگ شروع کرنا آسان ہے جنگ ختم کرنامشکل۔جنگ میں کسی کی فتح نہیں ہوتی ہے، سبھی ہارتے ہیں اور سب سے بڑی شکست انسانیت کی ہوتی ہے۔
 امریکہ اور اس کے نیٹواتحادی پچھلے ایک سال سے چیخ چیخ کر اپنے عوام کو اورساری دنیا کو یہ باور کرارہے ہیں کہ یوکرین روسی جارحیت کا مظلوم شکار ہے اور پوتن نے بلاجواز اور بلا اشتعال انگیزی کے ایک چھوٹے ملک پرناجائز جنگ مسلط کی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں جتنے فریق شامل ہیں وہ سب کے سب کسی نہ کسی حد تک اس کے ذمہ دار ہیں۔روس، یوکرین، امریکہ اور نیٹو اتحادی کوئی بھی بری الذمہ نہیں ہے۔ جو بائیڈن مسلسل دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ وہ روس کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے ہیں اور یوکرین کی جنگ میں امریکی بوٹ زمین پر نہیں اتریں گے۔ پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر امریکہ نہیں لڑرہا ہے تو روس کے مدمقابل کون ہے؟ پچھلے بارہ ماہ میں امریکہ یوکرین کو ۱۰۰؍ بلین ڈالر کی فوجی اور مالی امداد دے چکا ہے اور پچھلے ہفتے جنگ کے دوران امریکی صدر نے کیف پہنچ کریہ اعلان کردیا کہ وہ یوکرین کی دفاع کیلئے سب کچھ کرگزرنے کو تیار ہیں۔امریکہ دعویٰ تو کرتا ہے کہ وہ یوکرین کی خودمختاری، آزادی اور جمہوریت کی حفاظت کے لئے یوکرین کواسلحے فراہم کررہا ہے لیکن وزیر دفاع لائڈ آسٹن کے بیان سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ واشنگٹن کا گیم پلان یہ ہے کہ طویل اور تباہ کن جنگ کے ذریعہ پوتن کو نہ صرف کمزور کردے بلکہ اقتدار سے بھی بے دخل کروا دے۔جنگ یوکرین کی سرزمین پر لڑی جارہی ہے، ایک لاکھ سے زیادہ ہلاک اور ہزاروں زخمی ہونے والے بھی یوکرینی باشندے ہیں اور جو ایک کروڑ سے زیادہ لوگ گھربار چھوڑ کرہجرت کے لئے مجبور ہوئے وہ بھی یوکرینی ہی ہیں۔ پچھلے سال مارچ میں ترکی کی براہ راست اور اسرائیل کی بلاواسطہ ثالثی کے بعد زیلنسکی جنگ بندی کے لئے پوتن سے مذاکرات کیلئے تیار ہوگئے تھے۔ لیکن برطانیہ اور امریکہ نے یوکرین کی امن کی اس پیش رفت کو سبوتاژ کردیا۔
  امریکہ اور مغرب نے روس کے خلاف اقتصادی جنگ بھی چھیڑ رکھی ہے۔ لیکن روس کے قدرتی گیس اور تیل کا بائیکاٹ کی سزا خود یورپ کے عوام کو بھگتنا پڑی کیونکہ پورے خطے میں توانائی اور ایندھن کی قلت ہوگئی اور قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ دوسری جانب چین، انڈیا، ترکی، ایران اور کئی دیگر ممالک نے ان پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے روس سے تجارت جاری رکھی۔ اس جنگ میں یوکرین کی معیشت پوری طرح تباہ ہوگئی اور برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور متعدد یورپی ممالک کی معیشتیں بھی بری طرح متاثر ہوئیں لیکن روس کی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی رہی۔ ’ایف آئی ایم‘ کی پیشن گوئی ہے کہ ۲۰۲۳ء میں روس کی معیشت برطانیہ اور جرمنی کی معیشتوں سے بہتر رہے گی۔مغرب کو توقع تھی کہ جنگ کی وجہ سے روسی عوام کو مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ پوتن کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں گے لیکن ہوا اس کے برعکس۔ افراط زر اور مصارف زندگی میں ہوئے اضافے سے پریشان حال لوگ لندن، پیرس اور برلن کی سڑکوں پر اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ یوکرین کی جنگ میں اربوں ڈالر جھونک دینے سے امریکہ کی اکانومی بھی بری طرح جھلس رہی ہے۔
  یوکرین جنگ نہ صرف متحاربین کیلئے بلکہ دنیا بھر کیلئےعذاب بن گئی ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے تیل اور گیس کی قیمتوں میں ہر جگہ اضافہ ہوا ہے،مہنگائی ہر جگہ بڑھی ہے، خوراک کی فراہمی متاثر ہوئی ہے، عالمی امور کی خستہ حالی بھی نمایاں ہوئی ہے۔ اس جنگ نے اقوام متحدہ کی بے وقعتی، عالمی نظام کی نااہلی اور بین الاقوامی قوانین کی بے توقیری سب کو عیاں کردیا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں عالمی سطح پر ہتھیاروں کی ریس تیز ہوئی ہے اور عالمی امن کو خطرہ بڑھا ہے۔
 پھر بھی کسی کو ہوش نہیں آرہا ہے۔جنگ ختم کرنے کی راہ ڈھونڈنے کے بجائے جنگ کو طول دینے کی تدابیر ڈھونڈی جارہی ہیں۔پوتن نے اپنی حالیہ تقریر میں جنگ کے لئے مغرب کو ذمہ دار ٹھہرایا اور اسے جاری رکھنے کااعلان کیا۔دوسری جانب حالیہ میونخ سیکوریٹی کانفرنس میں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے روس کے خلاف اپنے جارحانہ عزائم کا اعادہ کرکے یہ واضح کردیا کہ ان کی دلچسپی بھی یوکرین جنگ کے خاتمے میں نہیں بلکہ اس کو جاری رکھنے میں ہے۔کسی ملک کی جانب سے روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات، مکالمے اور مفاہمت کی کوئی تجویز نہیں پیش کی گئی۔ ہر کوئی آگ میں اپنے اپنے حصے کاپیٹرول ڈالنے کا کام کررہا ہے۔
  امریکہ کے ساتھ روس کے ایٹمی ہتھیاروں کی تخفیف کے آخری معاہدے سے علاحدگی کا پوتن کا حالیہ اعلان ساری دنیا کے لئے بے حد تشویشناک ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گٹریس کے مطابق نیوکلیئر اسلحوں پر کنٹرول کئے بغیر دنیا بے حد خطرناک اور غیر مستحکم ہوگئی ہے۔ پوتن پچھلے سال بھی جوہری جنگ کی دھمکی دے چکے ہیں اس لئے ان کی دھمکی کو گیدڑ بھبھکی سمجھنا غیر دانشمندی ہوگی۔ چین نے روس کو مکمل سفارتی اور اقتصاد ی حمایت دے رکھی ہے اگراب وہ اسے فوجی مدد بھی فراہم کردیتا ہے توعالمی امن کے لئے بہت بڑا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔
پس نوشت:حکمرانوں کے برعکس ساری دنیا کے عوام جنگ سے پناہ مانگ رہے ہیں۔ واشنگٹن، لندن، پیرس اور بون میں یوکرین جنگ کے خلاف زبردست مظاہرے ہورہے ہیں۔مغربی ممالک کے عوام اپنی حکومتوں سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ یوکرین کو ہتھیار وں کی سپلائی بند کریں اور مذاکرات کے ذریعہ امن کی راہ تلاش کریں۔n

ukraine Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK