Inquilab Logo

وہ چند اہم عناصر جو ہمیں وقت کی مناسب تقسیم یعنی ٹائم مینجمنٹ سے روکتے ہیں

Updated: February 18, 2024, 12:35 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

ہم میں سے ہرکسی کے پاس ایک دن میں ۲۴؍ گھنٹے ، ایک گھنٹے میں ۶۰؍منٹ اور ہر منٹ میں ۶۰؍ سکینڈ ہوتے ہیں، مگراس دوران کچھ لوگ اپنی زندگی کو روشنیوں سے بھر لیتے ہیں اور کچھ اندھیروں میں بیٹھ کر قسمت کو کوستےاور وقت کی قلت کا رونا رونا روتے رہتے ہیں۔

Those who want to read, will read anywhere and those who don`t want to read, will not read anywhere. Photo: INN
جن کو پڑھنا ہے، وہ کہیں بھی پڑھیں گے اور جنہیں نہیں پڑھنا ہے، وہ کہیں بھی نہیں پڑھیں گے۔ تصویر : آئی این این

آج جب، پہلے ہائی اسکول، جونیئر کالج پھر سینئر اورپروفیشنل کالج اور پھر مقابلہ جاتی امتحانات کا دَور شروع ہورہا ہے ہمیں اِن سارے عناصر کا جائزہ لینا ہے جوہمارے وقت کی مناسب تقسیم یعنی ٹائم مینجمنٹ سے ہمیں روکتے ہیں۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہر ایک کے پاس ایک دن میں ۲۴؍ گھنٹے ہیں، ایک گھنٹے میں ۶۰؍منٹ اور ہر منٹ میں ۶۰؍سکینڈ ہیں، مگر کچھ لوگ مہینوں، ہفتوں اور دِنوں میں اپنی زندگی کو روشنی سے بھر لیتے ہیں اور کچھ اندھیروں میں بیٹھ کر قسمت کو مسلسل کوستے رہتے ہیں۔ ان آخر الذکر لوگوں میں سے بڑی اکثریت کو ہمیشہ شکایت رہتی ہے وقت کی کمی کی۔ دراصل اُنھیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اُن کا وقت کیسے گزرتا ہے یا ضائع ہوتا ہے؟ وہ کون سے عناصر ہیں جو مسلسل اُن کے وقت کو دیمک کی طرح چاٹتے رہتے ہیں۔ آئیے اِن سب کا تفصیلی جائزہ لیں:
 اندیشے، وسوسے، خدشات:
 وقت کا سب سے بڑا دشمن یہی ہے :انجانے خوف، وسو سے، کل کیا ہوگا؟ اگر اور مگر، ایسا نہ ہوتو؟ کیا میں یہ کرسکتا ہوں؟ یہ میرے مقدّر میں کہاں؟ باوجود کوشش کے ناکامی ملی تو ؟ چلو دیکھتے ہیں، کوشش کرتے ہیں۔ اِنہی وسوسوں اور اندیشوں میں ان کا وقت ضائع ہوتا رہتا ہے کہ وقت، حالات، قسمت کیا کروٹ بدلتے ہیں۔ 
 علاج؟ آپ بس چند لمحوں کیلئے یہ جائزہ لیں کہ آپ صحیح راستے پر ہیں یا نہیں؟ اور پھر انجام کی پروا کئے بغیر آگے بڑھیں۔ کسی وسوسے کو اپنے اوپر حاوی ہونے مت دیں۔ جب دوسرے کامیاب ہوتے ہیں تو آپ بھی کامیاب ہوسکتے ہیں ورنہ اندیشے، وسوسوں اور انجانے خدشات میں وقت مسلسل برباد ہوتے رہتا ہے۔ 
 قوت فیصلہ کی کمی:
 وقت کی احسن تنظیم میں ایک بڑی رکاوٹ قوت فیصلہ کی کمی یا کمزوری ہے۔ کبھی کبھی کوئی کام پورا کرنے میں فرض کیجئے ۱۵؍منٹ لگتے ہیں اس کام کو شروع کریں یا نہ کریں یہ صرف فیصلہ کرنے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ ہم ہمیشہ اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں بچّوں سے بڑوں تک سبھی کبھی کبھی ایک ایک گھنٹہ ’سوچتے‘ رہتے ہیں کہ وضو کریں یا نہ کریں جبکہ پھر جب وہ بالآخر طے کرتے ہیں کہ وضو کر ہی لیتے تب وہ دیکھتے ہیں کہ وضو کرنے میں تین منٹ صَرف ہوئے اور نماز ادا کرنے میں ۱۲؍تا ۱۵؍منٹ جبکہ اس کا فیصلہ کرنے میں ایک گھنٹہ ضائع ہوا تھا۔ یعنی کمزور قوّتِ ارادی کی بناء پر کسی بھی کام کو انجام دینے میں کم وقت درکار ہوتا ہے اور اس کو ’کریں نہ کریں ‘ اس کا فیصلہ کرنے میں کئی گنا زیادہ وقت برباد ہوتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:علی گڑھ یونیورسٹی کےتعلق سے صرف علیگ برادری کو نہیں، پوری قوم کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے
 اب اس قوّت فیصلہ ہی کے ضمن میں طلبہ کا رویّہ دیکھ لیجئے: (۱) کیا پڑھوں، ابھی کون سا مضمون پڑھوں ؟ (۲) کتاب سے پڑھوں یا نوٹس سے یا کسی رہبر کتاب سے؟ (۳) جواب یاد کروں یا کاغذ پر لکھ دوں ؟ (۴) پہلے معروضی سوالات حل کروں یا طویل نوٹس کا اعادہ کروں ؟ (۵) جوپڑھنے جارہا ہوں وہ یاد نہیں رہا تو؟(۶) یہ سارے سوال پوچھے نہیں گئے تو؟ اب کریئر کے تعلق سے قوّتِ فیصلہ کی کمی اور وقت کی بربادی کا نظارہ کرلیجئے:(۱) سائنس، کامرس یا... (۲) چاچا کا بیٹا کر رہا ہے وہی کرلوں (۳) ایسا کوئی کورس ہے جو آج تک کسی نے نہیں کیا؟ (۴) فیس کیلئے مدد نہیں ملی تو؟ (۵) پھر بھی نوکری نہیں ملی تو ؟ ہمارے بچّے اورنوجوانوں کے اس رویے کیلئے ہمارے بڑے بھی ذمہ دار ہیں جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ مثلاً اگر ان بڑوں کو کہیں جانا ہے تو وہ یہ بھی فیصلہ نہیں کر پاتے ہیں کہ ٹرین سے جائیں یا بس سے؟ رِکشا کا استعمال کریں یا ٹیکسی؟ کہیں جانے کیلئے آدھا گھنٹہ درکار ہوتا ہے اور جائیں یا نہ جائیں یہ فیصلہ کرنے میں چار گھنٹے ضائع ہوتے ہیں۔ 
 جاگتی آنکھوں کے خواب :
 ہماری قوم کا المیہ ہے کہ نوجوان خواب دیکھتے ہی نہیں اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کی ایک بڑی اکثریت صرف خواب ہی دیکھتی ہے۔ یعنی ہمارے یہاں اعتدال کا فقدان ہے۔ دراصل ہمارے معاشرے میں ہمارے نوجوانوں کو زندگی کا کوئی مقصد، کوئی نصب العین طے کرنے والے خواب نہیں دکھاتا۔ یعنی ہمارے محلوں اور گلیوں میں سپنوں کے سوداگر زندگی سے بھرپور حقیقی سپنے بیچتے نظر ہی نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے خود کے سپنوں کے محلوں میں رہتے ہیں اور کوئی ان کا جگائے تو بُرا مانتے ہیں اسلئے کہ اُنھیں کسی نے یہ بتایا نہیں کہ سپنے شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے عمل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمارا نوجوان طبقہ جاگتی آنکھوں کے ان نشیلے سپنوں میں مسلسل اپنا وقت ضائع کرتے رہتا ہے۔ اس نوجوان طبقہ کو بدبختی سے ان بے بنیاد خوابوں کی دنیا میں بڑے لوگ’ ہلدی لگے نہ پھٹکری‘ کی کیفیت میں مبتلا رکھتے ہیں۔ جھوٹی و فریبی اسکیموں میں بھی سرمایہ کاری کرنا اُنھیں پسند ہے۔ اُنھیں آناً فاناً بس ’بڑا‘ بننا ہے۔ ایسے خوابوں کی دنیا کو ہم اپنے بچّوں کو ورثے میں چھوڑتے رہتے ہیں اور وہ اپنا بیش قیمت وقت اس میں ضائع کرتے رہتے ہیں۔ 
 ہمارے نکّڑ، ہمارے گھر :
 وقت گزاری کے سب سے بڑے مراکزہمارے محلوں کے نکّڑ اور ہمارے اپنے گھر ہیں۔ ان نکّڑوں پر ہمارے نوجوان و مرد اور گھروں میں ہماری خواتین اکثر و بیشتر فضول کی باتیں اور غیبت کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔ وہاں بے موضوع باتیں ہی نہیں بلکہ نکتہ چینی، غیبت اور عیب جوئی بھی جاری رہتی ہے۔ کورونا کے دَور میں کچھ عرصے کیلئے یہ نکّڑ ویران رہے۔ ہمارے نوجوانوں کو اِن کودوبارہ آباد نہیں ہونے دینا ہے۔ دراصل ہم میں سے اکثر انسانوں کی آدھی زندگی یہ ثابت کرنے میں ضائع ہوجاتی ہے کہ وہ کتنا اچھا انسان ہے اور خود کو ’اچھا‘ ثابت کرنے کیلئے وہ دوسروں کی عیب جوئی کرکے اپنا قد ’بلند‘ کرتے ہیں، اور اس کل وقتی مشغلے میں اُنھیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کی زندگی کی میعاد کتنی گھٹ رہی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے محلوں کے نکّڑ اور چائے خانے دن رات ’آباد‘ رہتے ہیں۔ لال قلعے کے ’دیوانِ عام‘ اور ’دیوانِ خاص‘ سے یہ قوم نکّڑوں پر کیوں کر آباد ہوگئی یہ ایک تحقیق کا موضوع ہے۔ اب یہ نکّڑ گویا ہمیں وراثت میں ملے ہیں۔ نہ جانے کتنی نسلیں ان نکّڑوں کی زینت بنی رہتی ہیں۔ قوم کے تئیں اتنی’ فکر‘ ان نکّڑوں پر برسوں سے ہوتی رہی ہے مگر یہ کیا بات ہے کہ نکّر کے پتھروں پر بیٹھ کر پتھر گھِس گئے، دب گئے، پتھروں پر بیٹھنے کے نشان پڑ گئے مگر اس درجہ ’فکر‘ کر کے بھی قوم کے مسائل جوں کے توں برقرار ہیں البتہ لگ بھگ پوری قوم کو ان نکّڑ پر اپنا وقت ضائع کرکے تسکین سی ملتی ہے۔ 
 ترجیحات کی لاعلمی:
 ٹائم مینجمنٹ میں ایک بڑی اَڑچن کا نام ہے :اپنی ترجیحات سے لاعلمی کہ آخر پہلے آپ کو کون سا کام کرنا ہے اور بعدمیں کیا؟یہ صرف طلبہ کی نہیں بلکہ بڑوں کی بھی کمزوری ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کے تعلق سے صحیح فیصلہ نہیں کرپاتے، طلبہ کا معاملہ بھی یہی ہوتا ہے۔ اُن کے سامنے پڑھائی کا، دیگر کاموں کاایک انبار لگا رہتاہے اور اس نبار کو دیکھ دیکھ کر کوفت ہوتی ہے، جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں، بوکھلاہٹ سے دوچار ہوتے ہیں اور محض ترجیحات سے بے خبری کی بناء پروقت ضائع ہوتے رہتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ (الف) ہم یہ سمجھیں کہ ہم کوئی کام کریں یا نہ کریں مگر پھر بھی وقت تو بھاگے جارہا ہے۔ اسلئے صرف سر پکڑ کر بیٹھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ (ب) اس کا ایک علاج یہ ہے کہ دن بھر، ہفتہ بھر کے کاموں کی فہرست بناتے وقت اس کو نمبر بھی لگا دیں (ج) آپ کے پاس یہ ویژن یا سوجھ بوجھ ہو کہ کس کام کو کس پر ترجیح دیں۔ ترجیحات کی فہرست بگڑ رہی ہے، تب بھی آپ ڈسٹرب نہ ہوں۔ (د)کئی چیزیں، کئی کام ایک ساتھ شروع نہ کریں (۲) جو بھی کام شروع کرتے ہیں اس کے تعلق سے اطمینان رکھیں اور کنفیوژن کا شکار نہ ہوں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK