Inquilab Logo

کاغذ پر یہ حرف و لفظ و معنی ہے یاموج ِطلسم ؟

Updated: January 06, 2024, 1:10 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

اُردو معاشرہ کے کسی شخص سے پوچھا جائے کہ اُس نے کب کس کتاب کو پورا پڑھا تھا تو اُسے یاد نہیں آئے گا۔ ہوسکتا ہے یہ جواب دینے والے بھی مل جائیں کہ اُنہیں مطالعے سے دلچسپی نہیں۔

Book lovers looking at their favorite books. Photo: INN
کتابوں کے شوقین اپنی پسند کی کتابیں دیکھ رہے ہیں۔تصویر:آئی این این

ممبئی میں  آج سے قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان کا ۹؍ روزہ قومی اُردو کتاب میلہ شروع ہورہا ہے جو اپنی نوعیت کا ۲۶؍ واں  میلہ ہے۔ اِس مضمون میں  کتاب ہی سے متعلق چند باتیں  پیش خدمت ہیں :
 یہ زیادہ پرانی بات نہیں  ہے۔ ممبئی کے مضافاتی علاقہ ممبرا میں   ایک ایسی شخصیت سے ملاقات کا اتفاق ہوا تھا جس نے اپنے بارے میں  انکشاف کیا کہ اُسے کتابیں  جمع کرنے کا شوق ہے۔’’کتنی کتابیں  ہوں  گی آپ کے پاس؟‘‘ میرے اس سوال کے جواب میں  اُنہوں  نے کہا تھا: ’’یہ سمجھ لیجئے کہ جس مکان میں  رہتا ہوں  وہاں  اتنی کتابیں  رکھنے کی جگہ نہیں  ہے اس لئے ہر گیارہ ماہ پر ایک فلیٹ کرائے پر لیتا ہوں  تاکہ اُنہیں  بحفاظت رکھ سکوں ۔‘‘ یہ سن کر میرا تجسس جاگا۔ مَیں  نے اُن سے درخواست کی کہ مجھے اپنا ذخیرۂ کتب دکھائیں ۔ اُنہوں  نے کہا ابھی چلئے۔ ہم کوسہ میں  مقصود نگر کی طرف کوئی سو ڈیڑھ سو قدم پیدل چلے ہوں  گے کہ ایک عمارت کے سامنے وہ ٹھہر گئے اور گویا ہوئے کہ فی الحال اسی عمارت میں  فلیٹ کرائے پر لیا ہے۔ یاد نہیں  کہ ہم  دوسرے منزلے پر گئے تھے یا تیسرے مگر ہم پہنچے ایک مقفل فلیٹ کے سامنے۔ اُنہوں  نے قفل اور دروازہ کھولا تو میرے ہوش اُڑ گئے۔ فلیٹ کتابوں  سے اِس طرح اَٹا ہوا تھا جیسے گلاس پانی سے لبالب بھرا ہوتا ہے۔مَیں  نے دہلیز سے، کہ فلیٹ میں  گھسنا محال تھا، ہاتھ بڑھا کر کچھ کتابوں  پر نظر ڈالی تاکہ اندازہ ہو کہ اُن کے ذخیرہ  میں  کس نوع کی کتابیں  اور رسائل و جرائد ہیں ۔ چند شمارے ’’نیشنل جیوگرافی‘‘ کے دکھائی دیئے اور چند ’’ٹائم میگزین‘‘ کے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کئی قدیم اور کئی نایاب کتابیں  بھی اِس ذخیرے کا حصہ ہیں ۔ 
 اس کے بعد ایک عرصہ تک اُن سے ملاقات نہیں  ہوئی۔ ایک دن اُن کے ایک شناسا سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ خلد مکانی ہوچکے ہیں ۔ اُن کے حق میں دُعائے مغفرت کرتے وقت میرے ذہن میں  سوال تھا کہ کتابیں  تو وہ ساتھ لے کر نہیں  گئے ہوں  گے؟ مگر کتابیں  چھوڑ کر اُن سے کیسے جاتے بنا؟ اِس سوال کا جواب مجھے کبھی نہیں  ملا، مل بھی نہیں  سکتا بالکل اِسی طرح جیسے اِس سوال کا جواب ملنا مشکل ہے کہ اُن کے انتقال کے بعد اُن کے ذخیرۂ کتب کا کیا ہوا۔ ذخیرۂ کتب کا انتقال تو نہیں  ہوا ہوگا مگر وہ کس حال میں  اور کہاں  ہوگا یہ شاید کوئی نہ بتا پائے۔بہت سی کتابیں  دیمک کھا جاتی ہیں ۔ ممکن ہے یہ ذخیرہ بھی دیمک کی غذا بن گیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ردی خریدنے بیچنے والا کوئی شخص اسے اُٹھا لے گیا ہو یہ جانے بغیر کہ رسالوں  اور کتابوں  کے صفحات پر الفاظ نہیں  لعل و جواہر تھے جن کی قیمت وہ دس جنم لے تب بھی نہیں  لگا سکتا۔
 یہ شاید دو دہائی پہلے کی بات ہے۔ اب سوچتا ہوں  تو یقین سے کہنے کو جی چاہتا ہے کہ ایسا شخص نہیں  ملے گا۔ کم سے کم اُردو معاشرہ میں  تو ہرگز نہیں  جس میں  کتابوں  کو بوجھ سمجھ کر اُنہیں  ٹھکانے لگا دینے والے ایک نہیں  سیکڑوں  مل جاتے ہیں ۔ابا ّ کے زمانے کی پرانی کتابوں  کی الماری ہٹا دی گئی، اُس کی جگہ بچوں  کی پسند کا نیا فرنیچر آگیا ہے۔ کتابیں  ذخیرہ کرنا تو دور کی بات اب کتابوں  کا ذخیرہ دیکھنے کی تاب بھی نہیں  ہے لوگوں  میں ۔ یہ مضمون نگار ایک دن گھر کی کتابوں  کو دھوپ دِکھلانے کے بعد نئے سرے سے الماری میں  رکھ رہا تھا کہ پڑوس کے ایک صاحب آدھمکے جو نئے نئے وہاں  رہنے آئے تھے۔ اُنہوں  نے اتنی کتابیں  دیکھیں  تو ششدر رہ گئے، کہا: ’’آپ کا کتابوں  کا کاروبار ہے کیا؟‘‘ اِس بے ساختگی کی داد تو دیجئے مگر اس المیہ کو محسوس بھی کیجئے کہ کتابوں  سے ہم کتنا دور ہوچکے ہیں !
 یہ دوری نئی نہیں  ہے مگر یوٹیوب، وہاٹس ایپ، فیس بُک وغیرہ نے اس دوری کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ پڑھنا تو چھو‘ٹ ہی گیا، پڑھنے کی تمنا بھی رخصت ہوچکی ہے۔ یہی یوٹیوب، وہاٹس ایپ اور فیس بُک وغیرہ اُن ملکوں  کے لوگ بھی استعمال کررہے ہیں  جہاں  ان سے فیض پانے کا سلسلہ ہم سے بہت پہلے شروع ہوا تھا مگر اُنہوں  نے کتابیں  جمع کرنے اور اُن کا مطالعہ کرنے کا اپنا مشغلہ ترک نہیں  کیا۔ وہاں  تو آج بھی یہ بحث چلتی ہے کہ اوسط درجے کا قاری، وہ قاری جو اوسط سے اوپر کے منصب پر ہے اور وہ جو سب سے اوپر کی منزل میں  ہے، اپنی پوری زندگی میں  کتنی کتابیں  پڑھ سکتے ہیں ؟ ایسے ہی ایک مطالعہ میں  (جو مشہور تحقیقی ادارہ ’’پیو ریسرچ سینٹر کے تعاون سے کیا گیا تھا) یہ حیرت انگیز انکشاف کیا گیا کہ اوسط درجے کا قاری سال بھر میں  بارہ کتابیں  پڑھتا ہے، جو قاری اوسط درجے سے اوپر ہے وہ سال میں  پچاس کتابیں  پڑھ سکتا ہے اور وہ جس کا اوڑھنا بچھونا کتابیں  ہیں ، سال بھر میں  ۸۰؍ کتابیں  پڑھتا ہے۔ 
 یہ نتیجہ کسی سروے سے نہیں  نکالا گیا ہے اس لئے مجھے اس کی صداقت پر شبہ ہے۔ شبہ اس لئے بھی ہے کہ مطالعہ کوئی تکنیکی عمل نہیں  ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کتابیں  ایک جیسی نہیں  ہوتیں ، کچھ آسان تو کچھ مشکل ہوتی ہیں ۔ آسان کتابیں  جلد پڑھی جاسکتی ہیں ، مشکل کتابوں  کے مطالعے میں  دیر لگتی ہے۔ یہاں  مذکورہ مطالعہ کے تذکرہ کی ضرورت محض یہ بتانے کیلئے پیش آئی کہ ایک طرف ہم ہیں  جو کتابوں  سے دور ہوکر جدید ذرائع ابلاغ میں  غارت و غلطاں  ہیں  جبکہ دوسری طرف وہ دُنیا ہے جس نے جدید ذرائع ابلاغ ایجاد کئے مگر کتابوں  کو خیر باد نہیں  کہا، شاید اس لئے کہ اُسے کتابوں  کی اہمیت کا احساس ہے اور ہم اس احساس سے عاری ہیں ۔ اُسی دُنیا کے لوگ کہتے ہیں  کہ کتابیں  پڑھنی چاہئیں  اور بعض کتابیں  بار بار پڑھنی چاہئیں ۔ وہ ایسا کیوں  کہتے ہیں  یہ جاننے کیلئے ہمیں  کتابوں  کا ویسا ہی مطالعہ کرنا ہوگا جیسا وہ کرتے ہیں ۔ وہ اس لئے نہیں  پڑھتے کہ اُنہیں  مزید معلومات درکار ہے، وہ اس لئے پڑھتے ہیں  کہ اُن کے خیال میں  ’’قاری اپنی موت سے پہلے ہزار زندگیاں  جیتا ہے‘‘، وہ اس لئے پڑھتے ہیں  کہ اُن کا ایقان ہے کہ ’’دُنیا کا سب سے قابل رحم شخص وہ ہے جو پڑھنا نہیں  چاہتا‘‘اور وہ اس لئے پڑھتے ہیں  کہ اُنہیں  علم ہے کہ ’’ مطالعہ سے عاجز اور ناخواندہ شخص میں  کوئی فرق نہیں  ہے۔‘‘ 
 مجھے اُمید ہے کہ ممبئی کا یہ کتاب میلہ سابقہ ریکارڈ توڑیگا، کتابیں  بڑے پیمانے پر فروخت ہونگی اور میلہ اس حد تک کامیاب ہوگا کہ اس کی مثال دی جائیگی مگر مجھے شبہ ہے کہ کتابیں  خریدنے والے کتابیں  پڑھیں  گے۔خدا کرے میرا شبہ غلط ثابت ہو!

urdu books Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK