تقریباً ایک ماہ بعد احمد آباد طیارہ سانحہ کی ابتدائی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں پتہ چلا ہے کہ اس کے دونوں انجن ایک ساتھ بند ہونے سے طیارہ زمین پر آگیا، لیکن یہ صرف ابتدائی رپورٹ ہے، بہت سارے سوالات کے جواب ہنوز مطلوب ہیں۔
EPAPER
Updated: July 20, 2025, 1:11 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
تقریباً ایک ماہ بعد احمد آباد طیارہ سانحہ کی ابتدائی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں پتہ چلا ہے کہ اس کے دونوں انجن ایک ساتھ بند ہونے سے طیارہ زمین پر آگیا، لیکن یہ صرف ابتدائی رپورٹ ہے، بہت سارے سوالات کے جواب ہنوز مطلوب ہیں۔
ہندوستان کے بدترین طیارہ حادثوں میں سے ایک ایئر انڈیا کے بوئنگ ۱۷۱؍ کے حادثہ کی ابتدائی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد کئی طرح کے سوال اٹھانے لگے ہیں۔ اس حادثے کی اصل وجہ کیا تھی، یہ پورا ملک اورپوری دنیا جاننا چاہتی ہے۔ سانحہ کے فوراً بعد ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بیورو کی ٹیم نے جانچ شروع کردی تھی۔ تقریباً ایک ماہ بعد احمد آباد طیارہ سانحہ کی ابتدائی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں پتہ چلا ہے کہ اس کے دونوں انجن ایک ساتھ بند ہونے سے طیارہ زمین پر آگیا، لیکن یہ صرف ابتدائی رپورٹ ہے، بہت سارے سوالات کے جواب ہنوز مطلوب ہیں۔
ابتدائی رپورٹ کے دعوؤں پر یقین کرنا مشکل
لوک مت( مراٹھی، ۱۴؍جولائی)
’’سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہونے کے باوجود ۲۲۵؍ مسافروں، دو پائلٹوں اور ایئر انڈیا کے۱۲؍ ملازمین کے ساتھ پرواز کرنے والے طیارے کے دونوں انجنوں کی ایندھن سپلائی محض ایک سیکنڈ میں منقطع ہوگئی، طیارہ مناسب اونچائی تک نہیں پہنچ سکا اور گر کر تباہ ہوگیا۔ اس طرح ہوائی جہاز کا ایک اور ہولناک سانحہ تاریخ میں رقم ہوگیا۔ ۱۲؍ جون کو احمد آباد ہوائی اڈے پر ہونے والے خوفناک حادثے کی وجہ خراب موسم، پرندوں کے ٹکرانے یا انجن سمیت طیارے کے کسی بھی حصے میں تکنیکی خرابی نہیں تھی بلکہ ایندھن کی سپلائی منقطع ہونے سے دونوں انجن بند ہوگئے۔ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بیورو(اے اے آئی بی)نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے جو کسی کو بھی ہضم نہیں ہو رہا ہے۔ اگرچہ اے اے آئی بی نے نتیجہ کی تصدیق کیلئے فرسٹ آفیسر کلائیو کندر اور کیپٹن سمیت سبھروال کے درمیان ہونے والی بات چیت کو منظر عام پر لایا ہےلیکن بذات خود حکومت اس پر یقین کرتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔ ابتدا سے حکومت اس معاملے میں عدم توجہی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اس سانحہ کی ابتدائی رپورٹ آنے میں بھی ایک ماہ کا طویل عرصہ لگا۔ گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ وجے روپانی، کچھ چھوٹے بڑے تاجر، انگلینڈ میں رشتہ داروں سے ملنے جارہے ہندوستانی اور کسی وجہ سے انگلینڈ سے ہندوستان آئے سیاحوں کو اپنی جان گنوانی پڑی ہے۔ سانحہ اتنا خوفناک تھا کہ جلی ہوئی لاشوں کی شناخت کرنا مشکل تھا۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ہی لاشوں کی شناخت ممکن ہو پائی ہے۔ اب بھی صرف ۲۶۰؍ افراد کی شناخت ہو سکی ہے۔ اس کے باوجود حکومت اور متعلقہ ادارے سرد مہری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ بلیک باکس کو امریکہ بھیج دیا جائے گا، پھراس کی تردید کردی گئی۔ اتنے سنگین مسئلہ پر بھی حکومت کا رویہ غیر ذمہ دارانہ رہا۔ اس وقت جو ابتدائی رپورٹ آئی ہے، اس میں کئے گئے دعوؤں پر کسی کو کچھ خاص یقین نہیں ہے۔ ‘‘
حادثہ کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوسکتی
مہاراشٹر ٹائمز( مراٹھی، ۱۵؍جولائی)
’’احمد آباد میں ایئر انڈیا کے ڈریم لائنر کے ہولناک سانحہ کے ایک ماہ بعد اس کے پیچھے وجوہات جاننے کیلئے ایک عبوری رپورٹ جاری کی گئی ہےتاہم کوئی ٹھوس معلومات فراہم کرنے کے بجائے، نتائج نے غیریقینی صورتحال پیدا کردی ہے۔ ’اے اے آئی بی‘ کی جانب سے تیار کردہ ۱۵؍ صفحات کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حادثہ ایندھن سپلائی کے متاثر ہونے کی وجہ سے پیش آیا۔ رپورٹ میں پرندوں کی ٹکر، ایندھن میں ملاوٹ، دیکھ بھال میں غلطی، پائلٹوں کی طبی حالت یا شراب نوشی کو مسترد کردیا گیا ہےلیکن پائلٹوں کے درمیان دو جملوں پر مشتمل گفتگو کے جاری ہونے کے بعد پائلٹوں کی یونین مشتعل ہوگئی ہے اور سوال کیا کہ آیا اس کا مقصد پائلٹ کی غلطی پر سوال اٹھانا تھا یا پائلٹ نے خودکشی کرنے کیلئے ایساکچھ کیا ہے، یہ ظاہر کرنا تھا۔ دونوں پائلٹ اپنے دفاع کیلئے زندہ نہیں ہے۔ پائلٹوں کے درمیان ہوئی دو جملوں کی گفتگو کا حوالہ دے کر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حادثے کی وجوہات کا پتہ لگانے سے ہونے والی غلطیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ حادثہ کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوسکتی ہے بلکہ ایک سے زائد وجوہات کا مجموعہ ہوسکتا ہے۔ ‘‘
لوگوں کو سوال اٹھانے کا موقع مل رہا ہے
نوبھارت ٹائمز( ہندی، ۱۵؍جولائی)
’’کسی بھی تحقیقات کا مقصد ہوتا ہے سچائی کو سامنے لانا یا کم از کم اس میں مدد کرنا، لیکن احمد آباد میں ایئر انڈیاطیارہ سانحہ کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کسی مقصد تک نہیں پہنچی ہے۔ ہاں، اس کی وجہ سے ایک دوسری بحث ضرور شروع ہوگئی ہے، جس سے تحقیقات کے بھٹکنے کا خدشہ ہے۔ ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بیورو(اے اے آئی بی)کو ۳۰؍ دن کے وقفے سے رپورٹ پیش کرنی تھی اور اس نے ایسا ہی کیا، لیکن کئی سوالوں کے ساتھ۔ رپورٹ کی توجہ اس بات پر ہے کہ ٹیک آف کے فوراً بعد فیول کنٹرول سوئچ کٹ آف کردیا گیا تھا۔ کاک پٹ کے اندر سے ۲؍ جملے عام کئے گئے۔ جن میں ایک پائلٹ دوسرے سے پوچھتا ہے کہ کیا اس نے سوئچ آف کیا؟اور دوسرا جواب دیتا ہے، نہیں۔ یہ اے اے آئی بی کی ابتدائی رپورٹ ہے مگر اسے کچھ اس طرح پیش کیا جارہا ہے جیسے یہی حتمی رپورٹ ہو۔ یہ رپورٹ سارے سوالوں کے جواب نہیں دیتی ہے۔ اس وجہ سے لوگوں کو سوال اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ ابھی پائلٹوں کو لے کر جو قیاس آرائیاں چل رہی ہیں کہ ان میں سے ہی کسی نے فیول سوئچ آف کیا ہوگا، یہ رپورٹ کی اسی کمی کا نتیجہ ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ۲۶۰؍ افراد کی موت کی ذمہ داری پائلٹوں پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایئر انڈیا ۱۷۱؍حادثے کے معاملے میں ابتدائی تحقیقات کو حتمی رپورٹ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ ‘‘
رپورٹ نے تشویش کو بڑھا دیا ہے
دی انڈین ایکسپریس( انگریزی، ۱۵؍جولائی )
’’ایئر ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بیورو(اے اے آئی بی ) نے احمد آباد میں ہوئے ایئر انڈیا ۱۷۱؍ کے حادثہ کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی ہے۔ اس ہولناک حادثے میں ۲۶۰؍ افراد کی موت واقع ہوگئی تھی۔ یہ رپورٹ جوابات کی تلاش میں صرف ایک پہلا قدم ہے۔ اے اے آئی بی نے شہری ہوا بازی تنظیم کے قواعد کے مطابق ۳۰؍ دن کے رہنما خطوط کو پورا کیا۔ ۱۵؍ صفحات پر مشتمل رپورٹ کو شہری ہوا بازی کی وزرات نے بالکل آخری وقت میں جاری کیا۔ بوئنگ ۷۸۷؍ کے دونوں انجنوں کا فیول کنٹرول سوئچ ٹیک آف کے فوراً بعد بند ہوگیا تھا۔ کاک پٹ وائس ریکارڈر سے جاری ہونے والی معلومات کے صرف ایک حصے میں ایک پائلٹ دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ اس نے ایندھن سپلائی کیوں منقطع کی جس پر دوسرا پائلٹ کہتا ہے کہ اس نے ایسا نہیں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوئچ کو رن پوزیشن میں واپس کردیا گیا تھا، جس سے خود کار انجن نے کام کرنا شروع کردیا تھا تاہم تب تک کافی دیر ہوچکی تھی۔ اس دلخراش سانحہ کی مکمل اور حتمی رپورٹ ایک سال بعد آئے گی لیکن اے اے آئی بی کی ابتدائی رپورٹ نے تشویش کو بڑھا دیا ہے۔ اس حادثے کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کی تفصیلی تحقیقات ہونا بے حد ضروری ہے۔ حتمی رپورٹ آنے تک، تمام متعلقہ ایجنسیوں کو منصفانہ، شفاف اور حقائق پر مبنی تفتیش کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن اقدام کرنا چاہئے۔ ‘‘