Inquilab Logo

طلبہ پر ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ عوام کو ملک کےحقیقی معاشی اور معاشرتی حالات سے واقف کرائیں

Updated: May 05, 2024, 3:54 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

ہمارے سیاست داں عوام کی ایک کمزوری بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ عوام کی یادداشت بڑی کمزور ہوتی ہے۔ اس کمزوری کا یہ سیاست داں بھر پور فائدہ اُٹھاتےہیں۔

In the current situation, for the survival of democratic institutions, it has become necessary for the students of the university to brace themselves. Photo: INN
موجودہ حالات میں جمہوری اداروں کی بقاء کی خاطریونیورسٹی کے طلبہ کیلئے اب کمر کس لینا ضروری ہو گیا ہے۔ تصویر : آئی این این

ہمارے سیاست داں عوام کی ایک کمزوری بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ عوام کی یادداشت بڑی کمزور ہوتی ہے۔ اس کمزوری کا یہ سیاست داں بھر پور فائدہ اُٹھاتےہیں۔ ہر بار الیکشن میں نِت نئے وعدے کرتے ہیں، کوئی اُن سے یہ نہیں دریافت کرتا کہ پُرانے وعدوں کو اُنہوں نے کیوں پورا نہیں کیااور پھر الیکشن تو پانچ برسوں بعد آتا ہے البتہ ان کے سالانہ وعدے یعنی بجٹ سے متعلق بھی کوئی سوال نہیں کرتا۔ کیا ملک کے سارے عوام نسیان کا شکار ہیں ؟جی نہیں یہ سیاست داں اپنے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے عوام کی عقل و خرد اور یادداشت کو ہائی جیک کر دیتے ہیں۔ آج یہ ملک آزادی کے بعد نازک ترین دَور سے گزر رہا ہے۔ ان حالات میں جمہوری اداروں کی بقاء کیلئے ہمارے یونیورسٹی کے طلبہ کو اب کمر کس لینا ضروری ہو گیا ہے۔ جونیئر کالج میں رہتے ہوئے ہی لگ بھگ انہیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہو جاتا ہے، اب اتنی قیمتی چیز کو کچرے کے ڈبے میں ڈالنا نہیں ہے بلکہ اسے جمہوریت کی بقاء کیلئے اپنا لازمی و سماجی فریضے کے طور پر استعمال کرنا ہے اور اس ضمن میں عوامی بیداری لانی ہے اور اُس کیلئے محلّوں اور بستیوں میں جاجاکر دو تین سال پُرانے حالات و واقعات لوگوں کو یاد دلانے ہیں کہ آزادی کے بعد پہلی بار لاکھوں مزدور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئے اور ان میں سے کئی بھوکے پیاسے اور پیدل بھی چل رہے تھے۔ ۵۰۔ ۶۰؍سال پہلے بھی کبھی ٹرین کے سگنل فیل نہیں ہوئے اور پھر یہ ہوا کہ۲۴؍گھنٹے میں ممبئی سے دھنباد جانے والی ٹرین چار دن بعد ہائوڑہ پہنچی۔ کئی ٹرینوں کے ساتھ یہی ہوا توہر ایک کے دل میں یہ سوال اٹھنا لازم ہے کہ کیا یہ مزدوروں کو سبق سکھانے کیلئے کیا جاتا رہا تاکہ آئندہ وہ اپنے گاؤں (اور وہ بھی مفت میں ) جانے کی ضد کر کے راستے پر نہ اُتر آئیں، (انہی پٹریوں پر بلیٹ ٹرین چلانے کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے)کہیں کوئی ماں اپنی اٹیچی پر اپنے بچّے کو سُلا کر کھینچ رہی ہے اور کہیں کسی پلیٹ فارم پر اپنی مردہ ماں کو دو سال کا بچہ جگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایسے میں نوجوانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سماج کو تربیت دیں کہ عوام کو یہ مظالم برداشت نہیں کرنے ہیں۔ 
 کورونا کی وبا کو بھی ملک کے سر براہ نے زعفرانی رنگ دینے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ پردھان سیوک نے پہلے ہی دن اعلان کر دیا تھا کہ مہا بھارت کی جنگ ۱۸؍ دِنوں میں جیتی گئی تھی، اب ہم کو رونا کی جنگ ۲۱؍ دنوں میں جیت لیں گے اور کورونا کم و بیش تین سال تک قائم رہا لیکن ذہن پر اور معیشت پر اب بھی قائم ہے۔ ملک بھر میں سرکاری اعداد و شمار کو مان بھی لیں کہ روزانہ ایک لاکھ افراد کی میڈیکل جانچ ہو رہی تھی تو پھر اس رفتار سے ۱۳۵؍کروڑکی آبادی والے اس ملک کے شہریوں کی شہریت ثابت کرنے والا این آرسی کا معاملہ کیسے پورا کریں گے؟ پورے ۳۶؍ سال گزر جائیں گے اور اس دوران ۶۵؍ کروڑ کی آبادی مزید بڑھ جائے گی۔ نوجوانو! آپ کو محلہ تنظیموں کے ذریعے عوام کو بتانا ہے کہ سی اے اے وغیرہ کے ذریعے موجود حکمرانوں کو اصل مسائل سے ذہن بھٹکانا ہے۔ کورونا کے بھیانک دَور میں آپ ہی نوجوانوں نے انسانیت کا سر اونچا کرنے والے کام کئے۔ کہیں سیکڑوں اور ہزاروں بھوکوں کو کھانا کھلایا، پیاسوں کو پانی پلایا اور مریضوں کو اسپتال پہنچایا۔ اب اُنہی نو جوانوں سے اُمید ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کے سارے وائرس کا مقابلہ بھی بہادری اور خوش اسلوبی سے کریں گے۔ 

یہ بھی پڑھئے: سیاسی بیداری ہی نہیں بلکہ طلبہ سیاسی انقلاب لانے میں بھی کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں

نو جوانو ! معاشرت اور معیشت کا اٹوٹ رشتہ ہے۔ ایک بگڑتی ہے تو دوسری متاثر ہوتی ہے۔ اسلئے آئیے! لاک ڈاؤن کے بعد کی معیشت کے منظر نامے کا جائزہ لیں۔ معیشت کی صورتِ حال صرف کامرس اور اکنامکس کے طلبہ نہیں بلکہ عام لوگ بھی سمجھ سکتے ہیں البتہ اس میں سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ حقیقی اعداد و شمار عوام کے سامنے آجا ئیں۔ اگر صرف الیکشن کے دوران نہیں بلکہ عام دنوں میں بھی اشتہاری ایجنسیوں سے خوبصورت اسکرپٹ اور جوشیلے و جذباتی نعرے لکھوائے جائیں۔ تب حقیقت کبھی سامنے نہیں آئے گی۔ گزشتہ دس برسوں میں ۴۰۔ ۴۵؍ نِت نئے نعرے ان اشتہاری کمپنیوں نے لکھ کر دیئے اور وہ بڑے دلکش بھی تھے، اسلئے عوام ان نعروں میں کھو بھی گئی مگر اب ان نعروں کا اسٹاک ختم ہو گیا ہے اسلئے دہرایا جا رہا ہے جیسے’ میک اِن انڈیا‘ کا اب ہندوستانی ترجمہ’ آتم نر بھر بھارت‘ پیش کیاگیا۔ اُس سے چند ہفتے پہلے پانچ ٹریلین معیشت کا نعرہ ہے دیا گیا تھااور ۲۰؍ لاکھ کروڑ کا پیکیج بھی دیا گیا تھا۔ جی ہاں یہ نیا نعرہ کیوں کہ ماہرینِ اقتصادیات بتا رہے تھے کہ یہ ایک لاکھ کروڑ کا پیکیج نہیں ہے، باقی سب قرض ہے۔ کورونا کے دَور میں سرکاری امداد کوکل جی ڈی پی ( مجموعی قومی پیداوار ) کو حکمراں طبقہ۱۰؍ فیصد بتا رہے تھے جبکہ ماہرینِ معیشت بتارہے تھے کہ یہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ انہیں ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ معیشت کا پہیہ صرف رکا ہی نہیں بلک الٹی سمت میں چل پڑا ہے۔ 
 چارلس ڈیگال نے کہا تھا کہ سیاست میں وطن کو دھوکہ دینا پڑتا ہے یا پھر عوام کو۔ آج بدبختی سے عنان حکومت ان کے ہاتھوں میں ہے جو منصوبہ بند طریقے سے دونوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اس ملک میں چند برسوں سے کئی افراد کئی جمہوری ادارے اور کئی سماجی وفلاحی تنظیمیں حکمرانوں کی زد پر ہیں اور ہر سو سنّاٹا ہے۔ انگریزوں سے بھی یہ کسی نے نہیں پوچھا تھا کہ ۳۵؍افراد پر مشتمل ان کی ایسٹ انڈیا کمپنی اس ملک میں صرف تجارت کی غرض سے آئی تھی۔ دھوکے سے انہوں نے ملک کی ایک ایک ریاست پر قبضہ کر لیا اور پھر ان کے راج کو چیلنج کرنے والوں کو انہوں نے کس بنا پر اور کسی قانون کے تحت سُولی پر تک چڑھایا ؟ سنگھ پریوار سے بھی آج کوئی یہ دریافت نہیں کر رہا ہے ایک جمہوری عمل سے انہیں اس ملک کی عنان حکومت سونپی گئی تھی، آج اس ملک کے شہریوں کو اذیت پہنچانےاور سارے جمہوری ادارے تباہ کرنے کا حق انہیں کس نے دیا؟ 
 نوجوانو! آج اس ملک پر سب سے برا حملہ سوشل میڈ یا یونیورسٹی وائرس نے کیا ہے جس میں اپنے کسی مخالف پر ۵۔ ۱۰؍سے لے کر ۱۰۰۔ ۲۰۰؍روپوں کے عوض میں کردار کشی کے کمنٹس لکھے جاتے ہیں، کچھ اس حد تک کہ سیکڑوں میل پیدل چلنے والے لاکھوں مزدوروں کے بارے میں یہ بھی لکھ سکتے ہیں کہ یہ ان کے پردھان سیوک کا ایک ’ماسٹر اسٹروک‘ ہے کہ پنڈت نہرو کی ڈسکوری آف انڈیا پرانی ہوچکی، اب یہ لاکھوں بھوکے پیاسے مزدور جو ہزاروں میل پیدل چلے اور نئی تاریخ مرتّب کی یہی ہندوستان کی اصل ’کھوج‘ ہے۔ جی ہاں اسی پرلے درجے کی بے حسی سے یہ ملک گزر رہا ہے۔ اسلئے آج جب یہ کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں ۸۰؍کروڑ لوگ غریبی سے نچلی سطح پر جی رہے ہیں توبھی تو اُنھیں ۵۔ ۵؍ کلو اناج مفت دیا جائے تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ امریکہ میں بھی غریب لوگ رہتے ہیں۔ کتنی چالاکی اور مکّاری سے عوام النّاس کو بے قوف بنایا جاتاہے، اسلئے کہ امریکہ میں جس کے پاس صرف ایک بنگلہ اور ایک کار ہو، اس کو غریب کہا جاتا ہے۔ ہمارے کامرس اور اکنامکس کے طلبہ اِن معاملات کو بخوبی سمجھیں۔ 
 نوجوانو! جمہوری نظام میں اگر حکمراں طبقے پر نشہ طاری ہو تو ملک کو بچانے کیلئے، تین اداروں کو آس سے دیکھا جاتا ہے۔ حزب مخالف، میڈیا اور عدلیہ۔ یہاں آج یہ کہا جاتا ہے کہ حزب مخالف کو یہ کہہ کر ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ ان کی فائلیں ای ڈی اور انکم ٹیکس کے دفتروں میں تیار ہیں۔ میڈیا کو کروڑوں کے اشتہارات کا لالچ دیا جاتا ہے اور عدلیہ، اس پر کچھ نہ کہا جائے تو بہتر ہے کیونکہ اب وہ حقیقی معنوں میں ’ مقدّس گائے‘ کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ اس اندھیارے میں امید کی واحد کرن ہمارے نوجوان ہیں۔ وہ نوجوان جو صرف کلاس روم میں نہیں بلکہ اس سے باہر بھی سوال پوچھ سکیں۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK