امریکہ اور اس کے ہمنواممالک کی پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیل امن عالم کیلئے خطرہ بنتا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: June 22, 2025, 12:50 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
امریکہ اور اس کے ہمنواممالک کی پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیل امن عالم کیلئے خطرہ بنتا جارہا ہے۔
اسرائیل نے ساری دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ غزہ کو تہ وبالا کرنے کے بعد اس نے ایران پر حملہ کرکے پورے مشرقی وسطیٰ کے حالات کو دھماکہ خیز بنا دیا ہےلیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے اسرائیلی جارحیت کا دندان شکن جواب دیا ہے۔ امریکہ اور اس کے ہمنواممالک کی پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیل امن عالم کیلئے خطرہ بنتا جارہا ہے۔ حالانکہ عالمی برادری دونوں ممالک سے فوری طور پر جنگ بندی کی اپیل کررہی ہے لیکن اس کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ غیر اردو اخبارات نے ایران اور اسرائیل جنگ پر کیا کچھ لکھا ہے؟
جنگ مزید بڑھنے کا قوی خدشہ ہے
مہاراشٹر ٹائمز(مراٹھی، ۱۶؍جون)
’’یہ واضح تھا کہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جنگ چند گھنٹوں میں ختم نہیں ہوگی۔ دونوں ممالک نے اتوار کو ایک دوسرے پر میزائل داغے جس سے اب تک ۹۱؍ شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ اسرائیل نے ایران کے اہم جوہری مراکز پر حملہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی یورینیم کی افزودگی کے منصوبوں پر حملہ کیا جس میں چند فوجی افسر بھی ہلاک ہوگئے۔ ایران بھی جوابی حملے میں اسرائیل کے فضائی اور دفاعی نظام کو نشانہ بنانے کیلئے میزائل داغ رہا ہے۔ چونکہ دونوں فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، اسلئے جنگ مزید بڑھنے کا قوی خدشہ ہے۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کی پشت پناہی کے بغیر اسرائیل حملہ نہیں کرسکتا۔ اسرائیل کی ہمیشہ حمایت کرنے والے امریکہ کا اس جنگ میں غیر جانبدار رہنے کا ہرگز امکان نہیں ہے۔ اگر ایران نے اس پر حملہ کیا تو وہ یقیناً جوابی حملہ کرے گا۔ جنگ میں امریکہ کے براہ راست شامل ہونے سے پورا مغربی ایشیا جنگ کی زد میں آسکتا ہےتاہم اس کے نتائج صرف مغربی ایشیا تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پوری دنیا میں محسوس کئے جائیں گے۔ اسلئے اسرائیل اور ایران کومذکرات کے ذریعہ کوئی راستہ نکالنے اور امن قائم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ‘‘
تیسری عالمی جنگ کی آہٹ
لوک مت( مراٹھی، ۱۶؍جون)
’’عالمی تنازعات کا مرکز، جو پہلی اور دوسری جنگ عظیم تک یورپ میں تھا، دوسری عالمی جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ کی طرف منتقل ہوگیا۔ روس ـ یوکرین جنگ کے بعد اس کے دوبارہ یورپ میں منتقل ہونے کا امکان تھاتاہم حالیہ دنوں میں مشرقی وسطیٰ میں پھوٹ پڑنے والے تنازعات نے ایک بار پھر اسی خطے کو دنیا کے ایک بڑے تنازعاتی علاقے کے طور پر اُجاگر کردیا ہے۔ یہ ۱۳؍ جون کو اسرائیل کی جانب سے ایران پر کئے گئے زبردست فضائی حملوں کے ساتھ دوبارہ ابھرا۔ ان میں جوہری تنصیبات، میزائل اڈے اور اعلیٰ فوجی افسران کی رہائش گاہیں شامل تھیں۔ اس حملے میں ایران کے کئی اعلیٰ فوجی افسران اور سائنسداں مارے گئے۔ اگرچہ ایران کی جوابی کارروائی میں برسائے گئے زیادہ تر میزائل حملوں کو اسرائیلی اور امریکی دفاعی نظام نے غیر موثر قرار دیا تاہم کچھ میزائل ٹھیک نشانے پر لگے۔ اسرائیل کی ضد ہے کہ وہ دنیا میں ایک اور جوہری ہتھیاروں سے لیس مسلم ملک بننے نہیں دے گا۔ اب تک مسلم دنیاکی قیادت غیر متنازع طور پر سعودی عرب کے ساتھ تھی لیکن حال ہی میں ایران اور ترکی بھی اس میں شامل ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ جہاں زیادہ تر مسلم ممالک اسرائیل کو دشمن سمجھتے ہیں، وہیں سعودی عرب نے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ اتحاد کرنے کا موقف اختیار کیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایران نے نوجوہری بموں کیلئے کافی یورینیم افزودہ کرلیا ہے۔ ایران کے جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت کو تباہ کرنے کے اسرائیلی منصوبے سے جو تنازع شروع ہوا ہے۔ اس کے عالمی سیاست میں گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ‘‘
جنگ کے اثرات کافی دورس ہوں گے
نوبھارت ٹائمز(ہندی، ۱۸؍جون)
’’اسرائیل اور ایران کے درمیان تصادم کے ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہونے کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ اب یہ خدشہ بھی بڑھ گیا ہے کہ امریکہ بھی اس تنازع میں براہ راست ملوث ہوسکتا ہے۔ اس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوجائے گی اور یہ بے قابو بھی ہوسکتی ہے۔ اسرائیل نے ایران کے ایٹمی ماہرین اور اہم سائنسدانوں کو مار دیا ہے اور ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو نشانہ بنانے کی بات اس معاملے کو مزید بھڑکانے والی ہے۔ اب یہ معاملہ بہت کچھ امریکی موقف پر منحصر ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت کا آغاز اس وعدے سے کیا تھا کہ وہ روس، یوکرین اور اسرائیل، حماس جنگ کو روکیں گے، لیکن ایران کے بارے میں ان کا رویہ مختلف نظر آتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کا واضح موقف ہے کہ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہونا چاہئے، لیکن کیا اس مقصد کیلئے بھر پور جنگ کرنا ضروری ہے؟اور اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ یوکرین میں روس کے داخل ہونے سے جو لڑائی چھڑی، اس کا حل تین سال بعد بھی نہیں نکل سکا۔ اسی طرح اسرائیل اور حماس کی جنگ شروع ہوئے تقریباً ۲۱؍ مہینے ہوگئے ہیں۔ ان دونوں جنگوں نے شدید انسانی بحران پیدا کیا ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ غزہ میں بھکمری کے حالات بن گئے اور اس دوران ایسے کئی مواقع آئے جب ایسا لگا کہ دوسرے ممالک بھی اس تنازع میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ایران۔ اسرائیل جنگ کے اثرات کافی دورس ہوں گے جس سے معاشی پریشانیاں بڑھ جائیں گی۔ ‘‘
اسرائیل کا مقصد ایران میں حکومت کی تبدیلی ہے
دی انڈین ایکسپریس( انگریزی، ۱۸؍جون)
’’ اسرائیلی حکومت کا دعویٰ ہے کہ حملے کا مقصد تہران کی ایٹمی بم تیار کرنے کی صلاحیت کو بے اثر کرنا ہے۔ اسرائیل کا یہ دعویٰ بین الاقوامی قانون کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا ہے۔ اسرائیل دراصل جارحیت پر اُتر آیا ہے۔ مغربی ایشیا کی واحد جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاست نے اپنا حملہ شروع کردیا ہے جبکہ چند روز قبل امریکہ اور ایران جوہری ہتھیاروں کو تیار کرنے کی کوششوں کے بارے میں مذاکرات کے چھٹے دور کو ایک بار پھر شروع کرنے والے تھے۔ امریکی انٹیلی جنس کے جائزوں نے مبینہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایران، جو اسرائیل کو نشانہ بنانے والے میزائلوں سے جوابی کارروائی کررہا ہے، جوہری حملے کی صلاحیت حاصل کرنے سے محض ’سال‘ بھر دور ہے۔ تنازع کے ۵؍ دن بعد یہ ظاہر ہورہا ہے کہ اسرائیل کا مقصد ایران میں حکومت کی تبدیلی ہے۔ تاہم یہ قطعی ناممکن ہے کہ ایرانی عوام اپنے آپ کو ایک ایسی غیر ملکی طاقت کے ساتھ صف بندی کرنے کیلئے تیار ہوجائیں گے جو اُن کی سرزمین پر بمباری کررہی ہوں۔ ‘‘