الیکشن کمیشن کو ازخود نوٹس لے کر راہل گاندھی کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالات کی گہرائی سے جانچ کرنی چاہئے تھی لیکن الیکشن کمیشن اپنی جواب دہی سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔
EPAPER
Updated: August 17, 2025, 12:32 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
الیکشن کمیشن کو ازخود نوٹس لے کر راہل گاندھی کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالات کی گہرائی سے جانچ کرنی چاہئے تھی لیکن الیکشن کمیشن اپنی جواب دہی سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔
کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی جانب سے ’ووٹ چوری‘ کے سنگین الزامات نے ملک بھر میں ہونے والے انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشانات لگا دیئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو راہل گاندھی کے الزامات کی تردید کیلئے ٹھوس دلیل پیش کرنی چاہئے تھی تاکہ ووٹرس کے شکوک کا تشفی بخش ازالہ ہوتا، لیکن الیکشن کمیشن’اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘ کے مصداق راہل گاندھی ہی سے حلف نامہ مانگنے لگا۔ الیکشن کمیشن کو ازخود نوٹس لے کر راہل گاندھی کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالات کی گہرائی سے جانچ کرنی چاہئے تھی لیکن الیکشن کمیشن اپنی جواب دہی سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اس کا سخت نوٹس لیا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں غیراردو اخبارات نے الیکشن کمیشن کی جانبداری پر کیا کچھ لکھا ہے۔
الیکشن کمیشن کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ہے
سامنا( مراٹھی، ۱۱؍اگست)
’’الیکشن کمیشن آف انڈیا، بی جے پی کے ہاتھوں ایک کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ہے۔ موجودہ الیکشن کمشنر کے کام کاج اور بی جے پی کی حاشیہ برداری کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کے الیکشن کمشنر کافی بہتر تھے۔ موجودہ الیکشن کمشنر امیت شاہ کے ساتھ وزرات داخلہ میں اپنے ’فرائض‘ انجام دے چکے ہیں۔ اب امیت شاہ نے اپنے بھروسے مند ساتھی کو الیکشن کمشنر بنا دیا ہےلہٰذا یہ مہاشے وزیر داخلہ کی چاپلوسی کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں۔ راہل گاندھی نے پختہ ثبوتوں کے ساتھ واضح کیا کہ الیکشن کمیشن اور بی جے پی کا مضبوط اتحاد ہے جو ووٹ چوری کا سبب بنا ہے۔ راہل گاندھی نے پورے وثوق کے ساتھ ووٹ چوری کی منصوبہ بندی کیسے کی گئی؟کیا حکمت عملی وضع کی گئی؟ اور الیکشن کمیشن کس طرح ووٹ چوری میں ملوث تھا؟ان سب پر مدلل بحث کی ہے۔ اگر کوئی غیرت مند الیکشن کمشنر ہوتا تو اخلاقی بنیادوں پر اپنا استعفیٰ دیتا اور عوام سے معافی مانگ لیتا۔ کم از کم۵۰؍ لوک سبھا سیٹوں پر بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کی وجہ سے مودی دوبارہ وزیراعظم بن سکے ہیں۔ ۲۵؍حلقے ایسے ہیں جہاں بی جے پی کے مخالفین آخری دور تک آگے تھے۔ وہاں ووٹوں کی گنتی روک دی گئی۔ جان بوجھ کر افراتفری کا ماحول پیدا کیا گیا اور بالآخر بی جے پی امیدوار کو فاتح قرار دے دیا گیا۔ جے پور دیہی حلقہ میں کانگریس امیدوار گنتی کے آخری دور تک آگے تھے، وہاں گنتی روک دی گئی بعدازاں پوسٹل بیلٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور بی جے پی امیدوار کو کامیاب قرار دیا گیا۔ ممبئی میں بھی امول کیرتیکر کے معاملے میں ایسا ہی کیا گیا۔ راہل گاندھی نے انہی دھاندلیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ ان تمام گھپلوں کی جانچ ضرروی ہے مگر الیکشن کمیشن ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے۔ اس کے برعکس راہل ہی سے حلف نامہ مانگا جارہا ہے۔ بی جے پی ملک کے آئینی اداروں کی ساکھ کو تباہ کررہی ہے۔ ‘‘
الیکشن کمیشن:یقیناً دال میں کچھ کالا ضرور ہے
سکال( مراٹھی، ۱۲؍اگست)
’’ اگر ہم بہتر پارلیمانی جمہوریت کی خصوصیات بیان کریں تو سب سے پہلا معیار یہ ہے کہ مختلف آئینی اداروں کا کام بغیر تنازع اور خوش اسلوبی کے ساتھ چلایا جارہا ہو۔ اگر اپوزیشن الیکشن کمیشن کی منشا پر سوال اٹھا رہی ہے، اگر پارلیمنٹ کے جاری اجلاس کے دوران ۳۰۰؍ اراکین پارلیمان ایوان میں بحث کے ذریعہ جواب مانگنے کے بجائے سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں اور حکومت بھی اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کرنے کے بجائے اسے ایک سازش کے طور پر دیکھ رہی ہے، تو یقیناً دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ۳۰۰؍ اراکین انتخابی فہرستوں اور الیکشن کمیشن کی بے ضابطگیوں کے خلاف سڑکوں پر اترے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا فرض تھا کہ وہ کرناٹک کی مہادیو پورہ اسمبلی سیٹ میں مبینہ ایک لاکھ ۲۵۰؍ ووٹروں کے بارے میں راہل گاندھی کے پیش کردہ ثبوتوں کا از خود نوٹس لیتا۔ کمیشن راہل گاندھی کے عائد کردہ الزامات کی جانچ کرسکتا تھا، انہیں جھوٹا قرار دے کر ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کرسکتا تھا۔ ایسا کرتا تو اس کی شبیہ یقیناً صاف ہوجاتی۔ راہل گاندھی کو کمیشن کی شبیہ خراب کرنے کی پاداش میں کورٹ میں گھسیٹا جا سکتا تھامگراس نے ایسا نہ کرکے معاملے کو الجھا دیا ہے۔ اگر کمیشن پر الزامات عائد کئے جارہے ہیں تو اس کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو اعتماد میں لے۔ کمیشن کا کام غیرجانبدار پنچ کا ہوتا ہے، لیکن سابق چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار اور موجودہ کمشنر دنیش کمار گپتا کا دور شک و شبہات سے پُر نظر آرہا ہے۔ ‘‘
پورے انتخابی عمل کی صداقت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے
جن ستہ(ہندی، ۹؍اگست)
’’کسی بھی ملک میں جمہوریت کی مضبوطی اور ساکھ کاا نحصار اس بات پرہے کہ حکومت کے انتخاب کا عمل کتنا صاف، آزاد اور شفاف ہے۔ اس کیلئے انتخابات کا انعقاد کرنے والے ادارے کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی بھی شہری ووٹ کے حق سے محروم نہ رہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کیلئے ووٹنگ کا پورا عمل شفاف اور قابل اعتماد ہو اور تمام پارٹیاں نتائج سےمطمئن ہوں لیکن بے ضابطگیوں اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے پورے نظام کے ساتھ ساتھ نتائج پر اٹھنے والے سوالات نے کئی طرح کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن کے کام کرنے کے انداز اور اس میں ہونے والی بےضابطگیوں کو لے کر جس قسم کے سوالات اٹھائے ہیں وہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے کافی سنگین ہیں اور فطری طور پر الیکشن کمیشن سے وضاحت کی توقع ہے۔ ہر بار الیکشن کمیشن کی جانبداری پر سوال کھڑے کئے جاتے ہیں مگر اس مرتبہ جس سنجیدگی سے ووٹ چوری کا موضوع اٹھایا گیا ہے، اس سے ایک بحث چھڑ گئی ہے اور پورے انتخابی عمل کی صداقت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ‘‘
بی جے پی سکتے میں آگئی اور کمیشن کا دفاع کرنے لگی
لوک مت ٹائمز( انگریزی، ۹؍اگست)
’’لوک سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی پچھلے کئی ہفتوں سے انتخابی جوڑ توڑ کے حوالے سے ثبوت کے’ایٹم بم‘ کا وعدہ کررہے تھے۔ ۷ ؍اگست کو انہوں نے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ہیڈکوارٹرز میں سیاسی دھماکہ کر ہی دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکمراں بی جے پی نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی ملی بھگت سے ووٹر فہرست میں منظم طریقہ سے ہیرا پھیری کی ہے۔ اس دھماکے سے بی جے پی سکتے میں آگئی اور الیکشن کمیشن کا دفاع کرنے لگی۔ خفت مٹانے کیلئے الیکشن کمیشن نے راہل گاندھی کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے الزامات حلف نامہ کی صورت میں داخل کرے۔ اپوزیشن لیڈر نے اس چوری کو صدی کی سب سے بڑی چوری بتایا ہے۔ راہل گاندھی نے ماضی میں مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، ہریانہ اور دہلی کے ریاستی انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر ہوئی دھاندلیوں پر بھی لب کشائی کی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن سے پولنگ کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی طلب کی گئی تھی مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ انتخابی نظام یا جمہوریت کی ساکھ کا انحصار صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ منصفانہ انداز سے برتا جائے۔ ‘‘