ایس آئی آر کے نام پر اِن دنوں بہار میں جو کھیل کھیلا جارہا ہے، اس کی بازگشت پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔
EPAPER
Updated: October 05, 2025, 12:38 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
ایس آئی آر کے نام پر اِن دنوں بہار میں جو کھیل کھیلا جارہا ہے، اس کی بازگشت پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔
ایس آئی آر کے نام پر اِن دنوں بہار میں جو کھیل کھیلا جارہا ہے، اس کی بازگشت پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔ مراٹھی اخبار’لوک ستہ‘ نے اسی کو موضوع بناتے ہوئے ووٹر لسٹ سے لاکھوں افراد کے نام حذف کئے جانے پر الیکشن کمیشن کی نیت پر سوال اٹھایا ہے اور اس پر اداریہ لکھا ہے۔ انگریزی اخبار ’دی ہندوستان ٹائمز‘ نے تمل ناڈو میں اداکار کی ریلی میں بھگدڑ سے ہونے والی ہلاکتوں پر اداریہ لکھا ہے جس میں سیاسی قیادت اور انتظامیہ کی بے حسی کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ مراٹھی اخبار’مہاراشٹر ٹائمز‘ نے ودربھ اور مراٹھواڑہ میں سیلاب کی صورتحال اور اس کے اثرات پر اداریہ شائع کیا ہے۔ ہندی اخبار’نوبھارت ٹائمز‘ نے غزہ میں جنگ بندی کیلئے پیش کئے گئے ۲۰؍ نکاتی منصوبے پر اداریہ تحریر کیا ہے۔
حکمراں جماعت کی خواہش پوری کرنے کی کوشش
لوک ستہ( مراٹھی، ۲ ؍اکتوبر)
’’الیکشن کمیشن کی جانب سے بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر چلائی گئی ووٹر لسٹ کو اَپ ڈیٹ کرنے کی خصوصی مہم پر سنگین سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ۲۵؍جون کو مہم کے اعلان کے وقت ریاست میں کل ووٹروں کی تعداد۷ء۸۹؍کروڑ تھی، جو’صفائی‘ کے بعد کم ہو کر۷ء۴۲؍کروڑ رہ گئی ہے۔ یعنی تقریباً ۸۲؍ لاکھ ووٹروں کے نام فہرست سے ہٹادیئےگئے ہیں۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق نام ہٹائےجانے کی تین بنیادی وجوہات ہیں موت، مستقل نقل مکانی اور کسی دوسری جگہ پر اندراج۔ ان تین عام وجوہات کی وجہ سے ہی۹۰؍فیصد کے قریب نام حذف ہوئے ہیں۔ بار ہا الیکشن کمیشن سے پوچھا گیا کہ جن لاکھوں ناموں کو ہٹایا گیا ہے ان میں کتنے غیر ملکی شہری تھے، لیکن کمیشن اس کا جواب دینے میں ناکام رہا۔ اس مہم کے پیچھے ایک وسیع سیاسی بیانیہ یہ تھا کہ ریاست میں غیر ملکیوں خصوصاً بنگلہ دیشی شہریوں (مسلمانوں ) کی بڑی تعداد میں دراندازی ہوئی ہے اور اس میں کانگریس، آر جے ڈی اور بائیں بازو کی جماعتوں کا ہاتھ ہے۔ ریاستی حکومت نے دراندازوں کے خلاف سخت موقف اپنایا تھا لیکن الیکشن کمیشن کی خصوصی جانچ میں ایک بھی غیر ملکی شہری نہیں ملا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اس مہم کا اصل مقصد غیر ملکیوں کو ہٹانا تھا تو یہ مقصد کامیاب نہیں ہوا۔ بہار میں سیاسی جماعتیں سوال کر رہی ہیں کہ اگر موت، نقل مکانی اورایک سے زائد اندراج جیسے عام مسائل کو ہی حل کرنا تھا تو اس کیلئے یہ خصوصی مہم چلانے کی ضرورت کیا تھی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس خصوصی مہم کا پوشیدہ مقصد یہ ہو سکتا تھا کہ انتخابی فہرستوں سے بڑی تعداد میں ناموں کو حذف کرنے کی حکمراں جماعت کی خواہش پوری کی جا سکے۔ ‘‘
کسان اب قرض کیسے چکائیں گے؟
مہاراشٹر ٹائمز( مراٹھی، یکم اکتوبر )
’’ودربھ، مراٹھواڑہ، شمالی مہاراشٹر اور ان سے متصل اضلاع میں کچھ دنوں تک شدید بارش کی تباہ کاری کے بعدبارش نے کچھ راحت تو دی ہےلیکن اکتوبر میں بھی ریاست پر شدید بارش کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ لاتور، عثمان آباد، ناندیڑ، بیڑ، پربھنی، اورنگ آباد اور شولاپورمیں سیلاب کی صورتحال نےسب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ مراٹھواڑہ کے علاقے میں جو برسوں سے خشک سالی کیلئے مشہور تھا بارش نے تو جیسے قہر ہی برپا کردیا۔ ڈیموں سے چھوڑے گئے پانی سے ندی کنارے کے کئی گاؤں ڈوب گئے جس سے شہریوں کے گھر تباہ ہو گئے۔ ہزاروں گھروں میں کمر تک پانی جمع ہو گیا، جس سے اناج، بچوں کی کاپیوں اور کتابوں سمیت لوگوں کا سارا سامان بہہ گیا۔ کھیتی باڑی کے نقصان کا تو اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ آنکھوں کے سامنے آئی ہوئی فصلیں مٹی میں مل گئیں۔ اب لاکھوں خاندانوں کے سامنے یہ سوال ہے کہ وہ گھر کا خرچ چلانے کے ساتھ ساتھ لیا ہوا قرض کیسے چکائیں گے؟ سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے ریاست میں اناج اور پھلوں کی پیداوار میں تقریباً ۴۰؍ فیصد کمی آنے کا خدشہ ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر پانی کے جمع ہونے سے کھیتوں کی زمین خراب ہو گئی ہے جس کا بحران اور بھی سنگین ہے۔ زرخیز مٹی کی پرتیں بہہ جانے سے ربیع کا موسم بھی ہاتھ سے نکل جانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ ایک طرف جہاں سیلاب کی صورتحال میں بچاؤ کا کام شروع ہو گیا ہے۔ وہیں امداد اور بحالی کے کام نے ابھی تک کافی رفتار نہیں پکڑی ہے۔ لاکھوں کسان جن کے گھر اور کھیتی باڑی سب بہہ گئے ہیں، انہیں حکومت کی مدد کا انتظار ہے۔ ‘‘
غزہ میں دائمی امن کی کوششیں اور امریکہ کا کردار
نوبھارت ٹائمز( ہندی، یکم اکتوبر )
’’امریکہ نے غزہ میں دائمی امن کے قیام اور دو دہائیوں سےجاری اسرائیل اور حماس تنازع کو ختم کرنے کیلئے۲۰؍ نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے۔ اس تجویز کے تحت حماس کواسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہو گا اور غزہ کے آئندہ انتظام میں حماس کا کوئی کردار باقی نہیں رہے گا۔ اسرائیل کے فوجیوں کی واپسی کے بعد غزہ کی ذمہ داری ایک بین الاقوامی سیکوریٹی فورس سنبھالے گی اور خبردار کیا گیا ہے کہ حماس کو مدد فراہم کرنے والے ممالک کے خلاف کارروائی ہو گی۔ یہ منصوبہ عالمی سطح پر امریکہ اور اسرائیل پر دباؤ بڑھائے گا کہ وہ فلسطین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کریں جس طرح کئی یورپی ممالک نے کیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس تنازع کو جلد ختم کرنے میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے اور وہ ہر صورت میں امن کے خواہاں ہیں۔ ہندوستان نے اس کوشش کاخیرمقدم کیا ہےتاہم اس کی کامیابی پر شک کا اظہار کیا گیا ہے کیونکہ فریقین کو ایک دوسرے پر قطعی بھروسہ نہیں ہے لہٰذا امریکہ کو عملی اقدامات اور وعدوں کی پاسداری کو یقینی بنانا ہوگا۔ ‘‘
کرور میں ریلی کھلے میدان میں ہونی چاہئے تھی
دی ہندوستان ٹائمز( انگریزی، ۲۹؍ستمبر)
’’۴۰؍ افراد کی موت کا سانحہ جو’ٹی وی کے‘ کے سیاسی جلسے میں بھگدڑ کے باعث پیش آیا، نہایت الم ناک ہے۔ یہ جماعت فلمی اداکار وجے نے کرور شہرمیں قائم کی تھی۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بدنظمی کی ایک وجہ اداکار کا کئی گھنٹے تاخیر سے آنا اور بھگدڑ کے دوران تقریر کا جاری رکھنا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ کچل کر مرتے رہے۔ اس پورے معاملےکی غیرجانبدارانہ تحقیقات لازمی ہیں۔ یہ منظر کسی حد تک ہاتھرس (یوپی) کے اُس حادثے کی یاد دلاتا ہے جہاں مذہبی اجتماع میں ۱۲۱؍ افراد لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ وہاں تقریباً ڈھائی لاکھ افراد ایسے مقام پر جمع ہو گئے تھے جو محض ۸۰؍ ہزار افراد کیلئے مختص تھا اور جہاں سے باہر نکلنے کے ناقص انتظامات تھے۔ کرور میں بھی ٹی وی کے نے محض ۱۰؍ ہزار افراد کی توقع کی تھی مگر پولیس کے مطابق تقریباً ۳۰؍ ہزار افراد جمع ہو گئے۔ منتظمین نے غلط جگہ پر جلسہ منعقد کیا اور ہجوم کے نظم و ضبط کا کوئی معقول بندوبست بھی نہیں کیا۔ چونکہ ٹی وی کا بانی کوئی پیشہ ور سیاستداں نہیں بلکہ تمل ناڈو کا ایک مقبول فلمی ہیرو ہے، اسلئے اس کے جلسوں میں لوگ زیادہ تر اپنے ہیرو کو دیکھنے آتے ہیں۔ ان اجتماعات میں جوش و خروش بالکل ویسا ہوتا ہے جیسا کسی مذہبی پیشوا کے اجتماع میں دیکھا جاتا ہے۔ وجے کی سابقہ ریلیوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ عام لوگوں اور مداحوں کو بڑی تعداد میں اپنی جانب کھینچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے حالات میں انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ وہ جلسے کے منتظمین کو کھلے میدان میں ریلی منعقد کرنے کا پابند بناتی نہ کہ کسی تنگ سڑک پرجہاں زیادہ افراد کیلئے گنجائش نہیں تھی۔ ‘‘