Inquilab Logo Happiest Places to Work

الیکشن کمیشن کی ساکھ پر حرف آنا ٹھیک نہیں ہے لیکن نہ کمیشن کو فکر نہ حکومت کو

Updated: August 24, 2025, 12:10 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

راہل گاندھی کے’ووٹ چوری‘ کے سنگین الزامات کا جواب دینے کیلئے منعقدہ پریس کانفرنس میں الیکشن کمیشن نے گول مول جواب دے کر مزید نئے سوال قائم کئے اس پر غیر اردو اخبارات نے بہت کچھ لکھا ہے۔

Apart from warning Rahul Gandhi, nothing came out of Election Commissioner Gyanesh Kumar`s press conference. Photo: INN.
راہل گاندھی کو وارننگ دینے کے علاوہ الیکشن کمشنر گیانیش کمار کی پریس کانفرنس سے کچھ بھی نہیں نکلا۔ تصویر: آئی این این۔

الیکشنکمشنر ٹی این سیشن کے دور میں الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری ہندوستانی جمہوریت کا سنہرا باب تھا۔ اس کے بعد برسوں تک انتخابی عمل شفافیت سے انجام پاتا رہا اور بدعنوانیوں سے پاک رہاتاہم آج بہار اسمبلی انتخابات کے پس منظر میں رونما ہونے والے واقعات سے الیکشن کمیشن کی خودمختاری اور غیرجانبداری پر سنگین سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ راہل گاندھی کے’ووٹ چوری‘ کے سنگین الزامات کا جواب دینے کیلئے منعقدہ پریس کانفرنس میں الیکشن کمیشن نے گول مول جواب دے کر مزید نئے سوال قائم کئے اس پر غیر اردو اخبارات نے بہت کچھ لکھا ہے۔ 
الیکشن کمشنر پورے ملک کو احمق سمجھ رہے ہیں 
پربھات( مراٹھی، ۱۹؍اگست)
’’راہل گاندھی کے ذریعہ عائد کئے گئے سنگین الزامات کے پس منظر میں چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کی پریس کانفرنس کا پورے ملک کو بے صبری سے انتظار تھالیکن اس میں انہوں نے جو موقف پیش کیا وہ سیدھا سیدھا جانبدارانہ نظر آیا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن پر اٹھائے جانے والے اعتراضات میں سے کسی کا بھی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ اسلئے یہ پریس کانفرنس نہ صرف مایوس کن رہا بلکہ اس نے نئے سوالات کو بھی جنم دے دیا۔ اپوزیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ ملک بھر میں کئی اسمبلی حلقوں میں ووٹ چوری کرکے بی جے پی غیر منصفانہ طریقہ سے مرکز میں اقتدار میں آئی ہے۔ ان الزامات کے بارے میں اب ہر کوئی بہت کچھ جان چکا ہے۔ الیکشن کمشنر نے کسی بھی اعتراض کا کوئی معقول جواب نہیں دیا بلکہ انہوں نے صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کا براہ راست جواب دینے سے بھی گریز کیا۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ الیکشن کمیشن کس کے اشارے پر کام کررہا ہے۔ گیانیش کمار کے جوابات اتنے مضحکہ خیز ہیں کہ انہیں سن کر کوئی بھی ہنسے گا۔ اپوزیشن جماعتوں نے ووٹنگ کے عمل کی سی سی ٹی وی فوٹیج مانگی تو انہوں نے انتہائی عجیب و غریب منطق کا حوالہ دیا کہ کیا کوئی بہو بیٹیوں کا فوٹیج دے سکتا ہے؟ کیا ایسا کرنے سے ان کی رازداری متاثر نہیں ہوگی؟اس قدر بچکانہ جواب! دراصل اس بے تکے جواب پر ملک بھر سے شدید تنقیدیں کی جارہی ہیں۔ ان جوابات سے تاثر پیدا ہورہا ہے کہ الیکشن کمشنر پورے ملک کو احمق سمجھ رہے ہیں۔ ‘‘
گیانیش کمار اپوزیشن کے تئیں اپنی نفرت چھپا نہیں سکے 
سکال( مراٹھی، ۱۹؍اگست)
’’کھیل ہو، مقابلہ ہو یا الیکشن، ان سب کی کامیابی کا سب سے اہم عنصر ایک غیر جانبدار امپائر ہوتا ہے، لیکن اگر وہ اپنے کردار کو بھول کر کسی کھلاڑی یا سیاسی جماعت کی طرفداری پر آمادہ ہوجائے تو اس عنصر کی ساکھ متزلزل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ چیف الیکشن کمشنر کی پریس کانفرنس کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ ان کا جھکاؤ ایک مخصوص پارٹی کی طرف زیادہ ہے۔ جیسے ہی لوک سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن کی طرف سے شروع کی گئی’ ووٹر لسٹ نظر ثانی‘ مہم کے خلاف اتوار کو ’ ووٹ ادھیکار یاترا‘ کا آغاز کیا۔ چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کو دہلی میں پریس کانفرنس کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ راہل گاندھی کی یاترا نے انہیں اچانک بیدار کردیا اور وہ الزامات کا جواب دینے کیلئے ذرائع ابلاغ کے سامنے حاضر ہوئے، لیکن مہادیو پورہ اسمبلی میں انتخابی فہرست میں گڑبڑ کے بارے میں راہل گاندھی کو وارننگ دینے کے علاوہ گیانیش کمار کی پریس کانفرنس سے کچھ نہیں نکلا۔ نہ حکمراں، نہ اپوزیشن، میرے لئے سب برابر کا دعویٰ کرنے والے گیانیش کمار اپوزیشن جماعتوں کے تئیں اپنی نفرت چھپا نہیں سکے۔ ان کا جارحانہ رخ نہ صرف الیکشن کمیشن بلکہ موجودہ حکومت کی شبیہ کو بھی متاثر کررہا ہے۔ ہر الیکشن سے قبل رائے دہندگان کی تصدیق کیلئے گھر گھر جاکر ووٹر لسٹ کی جانچ ضروری ہے۔ اس مہم کو وقفے وقفے سے ملک بھر میں نافذ کرنے کی اشد ضرورت ہے لیکن جب بہار میں اسمبلی انتخابات کو محض چار مہینے باقی ہیں اور ریاست کے کئی اضلاع سیلابی صورتحال سے دوچار ہے، لاکھوں لوگ بے گھر ہیں، ایسے میں مختلف دستاویزات کا مطالبہ کرنا کتنا معقول ہوگا؟ گیانیش کمار کو ۱۵؍ مارچ ۲۰۲۴ء کو الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا۔ اگلے ہی دن ۱۸؍ ویں لوک سبھا انتخابات کا اعلان کیا گیا۔ گیانیش کمار اس الیکشن کے ساتھ ہریانہ، جھار کھنڈ، جموں کشمیر، مہاراشٹر اور دہلی کے اسمبلی انتخابات کے عمل میں شامل تھے۔ ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کا الزام نہ صرف راہل گاندھی بلکہ بی جے پی لیڈر انوراگ ٹھاکر نے بھی عائد کیا ہے۔ لیکن راہل سے ۷؍ دنوں میں حلف نامہ مانگنے والے گیانیش کمار نے انوراگ کے الزامات پر ایک لفظ نہیں کہا۔ ایسا کیوں ہے؟‘‘
الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارے پر شکوک کے سیاہ بادل
لوک مت سماچار( ہندی، ۱۹؍ اگست)
’’الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، اسلئے ہمیں اس پر بھروسہ کرنا چاہئے، لیکن راہل گاندھی جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس کا کیا کرنا چاہئے؟ کیا ہمیں ان پر بھروسہ کرنا چاہئے یا نہیں ؟یہ سوال ان لوگوں کو پریشان کررہا ہے جو آزاد سیاسی نظریہ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ بی جے پی کی اندھی حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی کانگریس کی۔ ایسے لوگوں کے ذہنوں میں ابہام کی کیفیت طاری ہے۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ راہل گاندھی حزب اختلاف کے قائد ہیں اور اگر وہ دعوے کے ساتھ الزام لگا رہے ہیں تو کیا وہ یونہی ایسا کررہے ہیں ؟وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں۔ ادھر الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ عوامی حلقوں میں لگائے گئے الزامات کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اگر راہل گاندھی حلف نامہ کے ساتھ شکایت کریں تو کمیشن جانچ کرے گا، یہاں سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارے پرشکوک کے سیاہ بادل کیوں منڈلا رہے ہیں ؟ یہ سیاہ بادل جتنی جلد صاف ہوں گے، ہماری جمہوریت کیلئے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ اگر الیکشن کمیشن پر اس طرح کے الزامات لگ رہے ہیں تو کمیشن کو قدم اٹھانا چاہئے۔ اس سے الیکشن کمیشن کی شبیہ داغ دار ہورہی ہےتو اسے سپریم کورٹ جانا چاہئے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ عوام کا آئینی اداروں پر اعتماد برقرار رہے۔ ‘‘
اپوزیشن جماعتوں کے خدشات کو دور کیا جانا چاہئے
دی ہندوستان ٹائمز( انگریزی، ۱۹؍اگست)
’’چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ پریس کانفرنس کرکے بہار میں متنازع ووٹر لسٹ نظر ثانی(ایس آئی آر) کا دفاع کیا اور اپوزیشن کے’ووٹ چوری‘ کے الزامات کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا۔ انہوں نے کانگریس لیڈر راہل گاندھی سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے دعوؤں کا ثبوت فراہم کریں یا اپنے ریمارکس واپس لیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے نگہبان کے طور پر کام کرنے والے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ رائے دہندگان کی فہرست کے ساتھ مبینہ طور پر کچھ مسائل جیسے جعلی نام اورغلط پتے ہر حکومت کے دور میں رہے ہیں، لیکن ان مسائل کو سیاسی تصادم میں تبدیل کرنے سے نہ الیکشن کمیشن اور نہ ہی ہندوستانی جمہوریت کا کوئی بھلا ہونے والا ہے۔ الیکشن کمیشن کو انتخابی عمل کو شفافیت اور جامعیت کے اصولوں پر رائج کرنا ہوگا۔ الیکشن کمیشن کو ماؤں بیٹیوں کی پرائیویسی کا حوالہ دینے کے بجائے انتخابی عمل پر عائد کردہ الزامات کا مدلل جواب دینا چاہئے اور اپوزیشن جماعتوں کے خدشات کو دور کرنا چاہئے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK